کہاں ہیں وہ مسلمان اگلے زمانے والے؟

0

عبدالعزیز
دوسری اور آخری قسط
بخلاف اس کے جو لوگ بظاہر دین کے دائرے میں داخل ہیں، مگردین نہ توان کے دلوں میں بیٹھا ہے اورنہ ان کی زندگی کاقانون بناہے، ان کے ظاہری جثے تو بہت شاندار نظر آتے ہیں۔واذا یتھم تعجبک اجسامھم(المنافقون:4:63)’’اوربولیں تو تم ان کی باتیں سنتے رہ جائو ‘‘ وان یقولو ا تسمع لقومھم(4:63)’’مگر حقیقت میں وہ لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دئیے گئے ہوں کانھم خشب مسندۃ، وہ لوگوں سے ایساڈر رہے ہیں ، جیسا خداسے ڈرنا چاہئے،یخشون الناس کخشیۃ اللہ اواشدً خشیۃً(النساء 77:4)۔ ا ن کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بے آب میںسراب، کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا مگرجب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا اعمالھم کسراب بقیعۃ یحسبہ الظمان مآء حتیٰ اذا جآء لم یجدہ شیئاً (النور39:24 ۴)۔ ایسے لوگوں کواجتماعی قوت کبھی نصیب نہیں ہوسکتی ، اوروہ خلوص نیت کے ساتھ کسی کام میںاشتراک عمل نہیں کرسکتے (کیوں کہ) یہ آپس کی مخالفت میںبڑے سخت ہیں۔ تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو، مگران کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ باسھم بینھم شدید تحسبھم جمیعاً وقلوبھم شتی (الحشر ، 14:59) ان کو وہ قوت ہر گز حاصل نہیں ہوسکتی جو صرف مومنین صالحین کاحصہ ہے، یہ کبھی اکٹھے ہوکر (کھلے میدان میں) تمہارا مقابلہ نہ کریںگے، لڑیں گے بھی توقلعہ بند بستیوں میں بیٹھ کر یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر لایقاتلو نکم جمیعاً الا فی قری محصنۃ او من وارآء جدرِ (الحشر، 14:59)۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام سے امامت اورپیشوائی کے بارے میںفرمایا: میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے، قال لاینال عھدی الظالمین (البقرہ124:2) ان کے لئے بجز اس کے اورکوئی انجام نہیں کہ دنیا میں بھی ذلت و خواری اورآخرت میں عذاب عظیم، لھم فی الدنیا خزیٌ ولھم فی الآخرۃ عذابٌ عظیم -(البقرہ،114:2)
آپ تعجب کریںگے کہ قرآن نے مسلمانوں کی ترقی اوران کے ایک حکمراں جماعت بننے اورسب پر غالب آجانے کا ذریعہ صرف ایمان وعمل صالح کو قرار دیا اورکہیں یہ نہیں کہا کہ تم لباس ، معاشرت ،انداز و اطوار میںترقی یافتہ قوموں کی نقل کرو، نیز اس نے تنزل وانحطاط اوردنیا وآخرت کی ذلت و رسوائی کا واحد سبب بھی نفاق کو ٹھہرایا ، نہ کہ ان اسباب کے فقدان کو جنہیں آج کل دنیا اسباب ترقی سمجھتی ہے۔
لیکن اگرآپ قرآن کی اسپرٹ کو سمجھ لیں تو آپ کا یہ تعجب خود رفع ہوجائے گا۔سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے، یہ ہے کہ مسلمان ، جس شئے کانام ہے اس کاقوام بجز اسلام کے اورکوئی چیز نہیں ہے۔ مسلم ہونے کی حیثیت سے اس کی حقیقت صرف اسلام سے متحقق ہوتی ہے۔ اگروہ اس پیغام پرایما رکھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اوران قوانین کااتباع کرے جن کوآنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے نازل کیاگیا ہے تو اس کااسلام متحقق ہوجائیگا ، خواہ ان چیزوں میںسے کوئی چیز اس کے ساتھ شامل نہ ہو، جو اسلام کے ماسواہیں۔
بخلاف اس کے اگر وہ ان تمام زیورات سے آراستہ ہو جو زینت حیات دنیاکے قبیل سے ہیں، مگرایمان اس کے دل میںنہ ہو اورقوانین اسلامی کے اتباع سے اس کی زندگی خالی ہوتووہ گریجویٹ ہوسکتاہے، ڈاکٹر ہوسکتاہے، کارخانہ دار ہوسکتاہے، بینکر ہوسکتاہے، جنرل یاامیرالبحر ہوسکتا ہے ،مگرمسلمان نہیںہوسکتا۔ پس کوئی ترقی کسی مسلمان شخص یا قوم کی ترقی نہ ہوگی، جب تک کہ سب چیزوںسے پہلے اس شخص یاقوم میںحقیقت اسلامی متحقق نہ ہوجائے۔ اس کے بغیر وہ ترقی خواہ کیسی ہی ترقی ہو ، مسلمان کی ترقی نہ ہوگی، اورایسی ترقی ظاہر ہے کہ اسلام کانصب العین نہیں ہوسکتی۔
پھر ایک بات تو یہ ہے کہ کوئی قوم سرے سے مسلمان نہ ہو، اوراس کے افکار و اخلاق اورنظام اجتماعی کی اساس اسلام کے سوا کسی اور چیز پرہو۔ اسیی قوم کے لئے بلاشبہ یہ ممکن ہے کہ وہ ان اخلاقی ،سیاسی، معاشی اورعمرانی اصولوں پرکھڑی ہوسکے جو اسلام سے مختلف ہوں اور اس کے منتہیٰ کو پہنچ جائے جس کو اپنے نقطہ ٔ نظر سے ترقی سمجھتی ہو۔ لیکن یہ بالکل ایک امر دیگر ہے کہ کسی قوم کے افکار، اخلاق، تمدن، معاشرت، معیشت اورسیاست کی بنیاد اسلام پر ہو اورسلام ہی میں وہ عقیدے اورعمل دونوں کے لحاظ سے ضعیف ہو۔ ایسی قوم مادی ترقی کے وسائل خواہ کتنی ہی کثرت اورفراوانی کے ساتھ مہیا کرلے، اس کاایک مضبوط اورطاقت ور قوم کی حیثیت سے اٹھنا اوردنیا میں سربلند ہونا قطعاً غیرممکن ہے۔ کیوں کہ اس کی قومیت اوراس کے اخلاق اورتہذیب کی اساس جس چیز پر ہے وہی کمزور ہے اوراساس کی کمزوری ایسی ہے جس کی تلافی محض اوپری زینت کے سامان کبھی نہیں کرسکتے۔
اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ علوم و فنون اورمادی ترقی کے وسائل کی جائز اہمیت سے انکار ہے۔ مطلب صرف یہ ہے کہ مسلمان قوم کے لئے یہ تمام چیزیںثانوی درجے پر ہیں۔ اساس کا استحکام ان سب پرمقدم ہے۔ وہ جب مستحکم ہوجائے تو مادی ترقی کے وہ تمام وسائل اختیار کئے جاسکتے ہیں اورکئے جانے چاہئیں ، جو اس بنیاد کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں، لیکن اگروہی مضمحل ہو، دل میںاس کی جڑیں کمزور ہوں اورزندگی پراسی کی گرفت ڈھیلی ہوتو انفرادی اوراجتماعی دونوںحیثیتوں سے قوم کے اخلاق کافاسد ہوا، سیرتوں کابگڑ جانا، معاملات کاخراب ہوجانا، نظام اجتماعی کی بندشوں کا سست ہوجانا اورقوتوں کاپراگندہ ہوجانا ناگزیر ہے۔ اس کالازمی نتیجہ یہی ہوسکتاہے کہ قوم کی طاقت کمزور ہوجائے اوربین الملی قوتوں کے ترازو میںاس کاپلڑا روز بروز ہلکا ہوتا چلاجائے ، یہاں تک کہ دوسری قومیں اس پر غالب آجائیں، ایسی حالت میں مادی اسباب کی فراوانی اورسند یافتہ فضلاء کی افراط اورخارجی زیب و زینت کی چمک دمک کسی کام نہیں آسکتی۔
ان سب سے بڑھ کر ایک اوربات بھی ہے ۔ قرآن کریم نے نہایت وثوق کے ساتھ کہاہے:’’تم ہی سربلند رہوگے اگرتم مومن ہو‘‘ (آل عمران ،139:3 ) ’’اوراللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے‘‘(المائدہ، 56:5) یہ کہ : ’’زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے (انبیاء 105:21)اس وثوق کی بنیاد کیا ہے؟ کس بناپر دعویٰ کیاگیا ہے کہ…دوسری قومیںخواہ کیسے ہی مادی وسائل کی مالک ہوں ان پرمسلمان صرف ایمان اورعمل صالح کے اسلحہ سے غالب آجائیںگے؟
اس عقیدے کو قرآن خود حل کردیتاہے:
لوگو، ایک مثال دی جاتی ہے، غورسے سنو، جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑکر پکارتے ہو، وہ سب مل کرایک مکھی بھی پیداکرناچاہیں تو نہیں کرسکتے، بلکہ اگرمکھی ان سے کوئی چیزچھین لے تووہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے، مدد چاہنے والے بھی کمزور اورجن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور، ان لوگو ں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کاحق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قوت اورعزت والا تو اللہ ہی ہے۔ (الحج74-73:22)
جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنالئے ہیں، ان کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی اورسب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا ہی ہوتاہے۔ (العنکبوت41:29 )
مطلب یہ ہے کہ جولوگ مادی طاقتوں پراعتقاد رکھتے ہیں، ان کااعتماد دراصل ایسی چیزوں پرہے جو بذات خود کسی قسم کی بھی قوت نہیں رکھتیں، ایسے بے روزوں پراعتماد کرنے کاقدرتی نتیجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی ویسے ہی بے زور ہوجاتے ہیں ، جیسے ان کے سہارے بے زور ہیں، وہ اپنے نزدیک جو مستحکم قلعے بناتے ہیں وہ مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہیں۔ ان میں کبھی یہ طاقت ہوہی نہیں سکتی کہ ان لوگوں کے مقابلے میںسراٹھاسکیں جو حقیقی قدروعزت رکھنے والے خداپراعتماد کرکے اٹھیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS