ہندوستان کی دو انتہائیں

0

حال کے دنوں میںہندوستان کے تعلق سے دو الگ الگ خبریں منظرعام پر آئی ہیں۔ پہلی خبر میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہے اور آج برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔اگر اس کی یہ رفتار برقرار رہی تو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سال 2025 تک ہندوستان کو چوتھی بڑی معیشت کے طور پر تسلیم کرسکتا ہے۔ معیشت کی اسی تیز رفتاری نے 1.42ارب کی آبادی والے ہندوستان کے کلاہ افتخار میں 169ارب پتی افراد بہار دکھارہے ہیں۔
دوسری خبر ہندوستان کی مختلف ریاستوں میںتعلیم کے تعلق سے ہے۔اس خبر میں بتایاگیاہے کہ ملک بھر کے تقریباً ایک لاکھ 20ہزار اسکول صرف ایک ٹیچر چلا رہے ہیں۔بہار، جھارکھنڈ، آسام، مدھیہ پردیش، اترپردیش، راجستھان، گجرات اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں ایک ٹیچر والے اسکولوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ آسام میں تقریباً3ہزار اسکول ایسے ہیں جہاں طلبا کی بھاری تعداد کا بار صرف ایک ٹیچر پر ہے۔مدھیہ پردیش میں 16,000 سے زیادہ اسکول ایسے ہیںجہاں صرف ایک ٹیچر ہے۔گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ملک بھر کے ایک لاکھ پرائمری اسکول بند کردیے گئے ہیں۔ جب کہ اسکولوں کی اتنی ہی تعداد کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کردیاگیا ہے۔
یہ دونوں خبریں ہندوستان کی دو انتہائوں کی نشاندہی کررہی ہیں اور ان سے یہ بھی نتیجہ اخذکیاجاسکتا ہے کہ ہندوستان عملاً دو ہندوستان ہوچکا ہے۔ ایک جانب دولت کی ریل پیل ہے ، تیزرفتار معیشت ایک طبقہ کی زندگی میں انقلاب لارہی ہے، انہیں زندگی کی تمام سہولتیں مہیا کرارہی ہے تو دوسری جانب تعلیم جیسے حساس اور لازمی شعبہ کاکوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سب سے برا حال اضلاع اور دیہی علاقوں کا ہے۔ تقریباً ہر ریاست کے دورافتادہ علاقوںمیں واقع اسکول ٹیچروں کی کمی سے جوجھ رہے ہیں۔ طلبا اور ٹیچر کا تناسب کہیں1:50کا ہے تو کہیں 1:60تک جا پہنچا ہے۔طلبا اور ٹیچر کے تناسب کے سلسلے میں سب سے برا حال بڑی آبادی والی ریاستوں کا ہے، چھوٹی آبادی والی ریاستوں میں یہ تناسب نسبتاً بہتر ہے۔ مدھیہ پردیش میں سب سے زیادہ اسکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک ٹیچر ہے تو کیرالہ میں سب سے کم310اسکول ایک ٹیچر والے ہیں۔ تعلیم کے معیار کے معاملہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ بڑی آبادی والی ان غریب ریاستوں میں جہاں ’ڈبل انجن‘ کی سرکار یں ہیں ، معیار تعلیم اور خواندگی کی شرح بھی قومی شرح کے مقابلہ میں انتہائی پست ہے۔ آج ملک بھر کے اسکولوں میں ٹیچروں کی 10لاکھ 60ہزار اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔
اس سے یہی ظاہر ہورہاہے کہ تعلیم کے شعبہ میں حکومتیں پیسہ خرچ کرنا ہی نہیں چاہتی ہیں اوراسکولوں کو بوجھ سمجھ کر انہیں جلد از جلد نجی شعبہ کے حوالے کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔حالیہ بجٹ میں مرکزی حکومت نے تعلیم کیلئے 113 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے۔ کہاگیا کہ یہ رقم گزشتہ سال کی رقم سے38فیصد زیادہ ہے لیکن اتنے خطیر بجٹ کے باوجود ابتدائی سطح پر اسکولوں کا جو حال ہے وہ جگ ظاہر ہے۔ طلبا اور اساتذہ کا تناسب اور ایک ٹیچر والے اسکولوں کی تعداد بتارہے ہیں کہ بجٹ کی یہ رقم صحیح جگہ پر خرچ نہیں ہوپارہی ہے یا پھر ضرورت کے مقابلہ میںیہ بجٹ قلیل ثابت ہورہاہے۔اس صورتحال کی ایک تیسری وجہ بدعنوانی ہے جس نے تعلیم کے شعبہ کو موت کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ مغربی بنگال میں پرائمری اسکولوں میں ٹیچروں کی بحالی کے نام پر جو ننگا ناچ ہوا، اس سے پوری دنیا واقف ہے۔ ودیاساگر کی اس سرزمین پر وزیر تعلیم اورپرائمری ایجوکیشن بورڈ کے چیئر مین نے موٹی رقم لے کر ٹیچرکی نوکریاں باقاعدہ فروخت کیں اور مغربی بنگال کے پرائمری اسکولوں کو اس دہانے پر پہنچا دیا کہ اس سے وابستہ حقیقی ٹیچر خود کو ٹیچر کہلانے میں سبکی محسوس کرتے ہیں۔ ابھی دو ہفتے قبل ہی کلکتہ ہائی کورٹ نے ایسے 36ہزار ٹیچروں کی نوکری ختم کرکے نسلوں کو تباہ کرنے والی بدعنوانی پر روک لگانے کی کوشش کی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اترپردیش میں بھی ہے۔ڈبل انجن کی حکومت والی اس ریاست میں آج ایک لاکھ17ہزار سے زیادہ ٹیچر کی اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔لاکھوں امیدوار ٹی ای ٹی پاس کرکے گزشتہ پانچ برسوں سے بحالی کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بہار ، جھارکھنڈ ، مدھیہ پردیش وغیرہ بھی اسی بحران سے گزررہے ہیں۔
یہ دو انتہائیں بتارہی ہیں ہندوستان میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ معیشت کی تیزترقی کے ثمرات سمٹے ہوئے ہیں۔فیضان معیشت کے چھینٹے مخصوص طبقات اور حکومت کے ارد گرد ہی پڑرہے ہیں۔ عوام کی اکثریت پر بے روزگاری، مہنگائی ، بھوک اور بیماری کے ساتھ ساتھ اب منظم طریقہ سے جہالت اور ناخواندگی بھی مسلط کی جارہی ہے۔عوام کو تعلیم اور خواندگی سے بہرہ ور کیے بغیر اگر ہندوستان دنیا کی تیسری معیشت بن بھی گیا تو اس سے کیاحاصل ہوگا۔حکومت کو اس کا جواب ضرور دینا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS