‘ پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی عائد کی جائے یوپی کے ڈی جی پی کا مرکزی وزارت داخلہ کو خط

    0

    لکھنئو (ایجنسیاں):اترپردیش پولیس نے مرکزی وزارت داخلہ کو خط لکھ کر پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی)پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی ایف آئی پر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کے دوران تشدد میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ اترپردیش میں اس تنظیم کے سربراہ وسیم اور 16 دیگر کارکنوں کو سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کے دوران ہوئے تشدد میں مبینہ طور سے ماسٹر مائنڈ مانا جاتا ہے۔ڈی جی پی او پی سنگھ نے بتایا کہ ہم نے مرکزی وزارت داخلہ کو خط لکھ کر سفارش کی ہے کہ پی ایف آئی پر پابندی کی جائے۔ اس درمیان نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے کہا کہ ممنوع سیمی نئے شکل میں سامنے آئی ہے اور ریاست میں ہوئے تشدد میں پی ایف آئی کا کردار ثابت ہوا ہے۔ جانچ میں سچائی سامنے آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی بھی شکل میں ’سیمی‘دوبارہ سامنے آئی تو اسے کچل دیا جائے گا۔ پی ایف آئی پر پابندی عائد کئے جانے کے سلسلہ میں موریہ نے کہا کہ کارروائی چل رہی ہے اور ایسی تنظیموں کو سر اٹھانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور اگر ضرورت پڑی تو اس پر پابندی عائد کی جائے گی۔ واضح رہے کہ پولیس نے گزشتہ ہفتہ بتایا تھا کہ وسیم سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کے دوران تشدد کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ لکھنئو کے ایس ایس پی کلاندھی نیتھانی نے بھی اخبار نویسوں سے کہا تھا کہ ہم نے تشدد کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کرنے میں کامیاب حاصل کی ہے۔ پی ایف آئی کے وسیم، ندیم اور اشفاق کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ وسیم پی ایف آئی کا ریاستی سربراہ ہے، جبکہ اشفاق خازن اور ندیم رکن ہے۔ ایس ایس پی نے بتایا تھا کہ ان کے پاس سے شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہروں کے پلے کارڈ، جھنڈے، پرچے، لٹریچر، اخبار کی کٹنگ، بینر اور پوسٹر برآمد ہوئے تھے۔
     پوچھ گچھ کے دوران ندیم اور اشفاق نے پولیس کو بتایا تھا کہ لکھنئو میں 19 دسمبر کو ہوئے تشدد کے لئے انہوں نے حکمت عملی بنائی تھی اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا تھا۔ مسٹر نیتھانی نے بتایا کہ ندیم اور اشفاق نے واٹس ایپ اور دیگر ذرائع سے لوگوں کو مشتعل کیا تھا۔ مغربی یوپی کے شاملی ضلع سے 28 لوگوں کو پکڑا گیا تھا جن میں سے 14 کا تعلق پی ایف آئی سے تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ پی ایف آئی کے گرفتار کچھ اراکین کیرل گئے تھے اور وہاں مشتبہ افراد سے ملاقات کی تھی۔ اترپردیش کے مظفرنگر، میرٹھ اور فیروزآباد میں تشدد میں ان کے کردار کی جانچ کی جارہی ہے۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS