یوپی الیکشن اورچھوٹی پارٹیاں

0

اترپردیش اسمبلی انتخابات میںجہاں بڑی قومی پارٹیوں بی جے پی، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اورکانگریس کے درمیان اقتدارکی لڑائی ہے وہیں چھوٹی چھوٹی علاقائی پارٹیاں اپنامستقبل تلاش کررہی ہیں۔کچھ تو کنگ میکر بننے کے لیے کوشاں ہیں۔مخلوط حکومت کے دور میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔لیکن گزشتہ 3اسمبلی انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالیں تو 3 مختلف پارٹیوں کی واضح اکثریت کے ساتھ جیت ہوئی اوران میں چھوٹی پارٹیوں کا کوئی رول نہیں رہا۔ریاست کی 403رکنی اسمبلی میںکسی پارٹی کے لیے اکثریت حاصل کرنا یعنی حکومت سازی کے لیے مطلوبہ 202 سیٹیں جیتناآسان نہیں ہوتا لیکن 2007کے اسمبلی انتخابات میں جہاں بہوجن سماج پارٹی کو 206سیٹیں ملیں اورمایاوتی اقتدار میں آئیں تو 2012میں سماجوادی پارٹی کو 204سیٹیں ملیں اور اکھلیش یادو کی قیادت میں 5 برسوں تک حکومت چلی جبکہ 2017میں بی جے پی دوتہائی اکثریت یعنی 312 سیٹوں کے ساتھ حکومت میں آئی اورموجودہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت چل رہی ہے۔ اس طرح کے سیاسی اورانتخابی رجحان کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چھوٹی اور علاقائی پارٹیوں کے سامنے کتنا مشکل چیلنج ہے۔لیکن سیاست میں کچھ بھی بعید نہیں۔ اس حقیقت کو بڑی پارٹیاں بھی محسوس کرتی ہیں۔ اسی لیے چھوٹی پارٹیوں کو نظر انداز کرکے نہیں چل رہی ہیں بلکہ ان کے ساتھ اتحاد کرکے لڑرہی ہیں۔
چھوٹی اورعلاقائی پارٹیوں کی اپنی الگ پہچان اوراہمیت ہوتی ہے۔جس علاقہ یا برادری سے ان کا تعلق ہوتاہے،ان میں وہ کافی اثرورسوخ رکھتی ہیں، ان کے ووٹ بڑی پارٹیوں کے لیے کافی اہم ہوتے ہیں۔ اسی لیے بڑی پارٹیاں دوچار سیٹیں دے کر کئی سیٹوں پر ان سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔معلق اسمبلی کی صورت میں چھوٹی پارٹیوں کے ووٹوں کی اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے۔ اتحاد کی صورت میںبڑی پارٹیوںکو دوسرے حلقوں میں چھوٹی پارٹیوں کی ذات وبرادری کے ووٹ مل جاتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ بڑی پارٹیاں اس بار بھی چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف چھوٹی پارٹیوں کی مجبوری یہ ہے کہ بڑی پارٹیوں سے اتحاد یا حکومت میں شمولیت کے بغیر وہ سیاست میں کوئی رول ادا نہیں کرپاتی ہیں۔ریاست میں اس وقت درجن بھر چھوٹی پارٹیاں قسمت آزمارہی ہیں، ان میں سے کچھ تو ریاست کی ہیں جیسے جینت چودھری کی پارٹی راشٹریہ لوک دل،اوم پرکا ش راج بھر کی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی،کیشودیوموریہ کا مہان دل، انوپریہ پٹیل کا اپنا دل، ڈاکٹر سنجے نشاد کی نشاد پارٹی،شیوپال یادو کی پرگتی شیل سماجوادی پارٹی اورڈاکٹر محمد ایوب کی پیس پارٹی۔جبکہ کچھ پارٹیاں ریاست سے باہر کی ہیں جیسے عام آدمی پارٹی،مجلس اتحادالمسلمین اوراین سی پی وغیرہ۔یہ سبھی اسمبلی انتخابات میں کیارول اداکریں گی؟ ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتالیکن ان کے عزائم کافی بلند نظر آرہے ہیں۔
اسمبلی انتخابات میں بڑی اورچھوٹی پارٹیوں کی بھیڑ ہے۔ ماضی کی طرح بھیڑ میں کچھ علاقائی پارٹیاں کھو سکتی ہیں لیکن کچھ اہم رول اداکرسکتی ہیں اورووٹوں کی تقسیم کی صورت میں نتائج پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔چھوٹی چھوٹی علاقائی پارٹیاں ریاست کی انتخابی سیاست میں خاص پہچان کے ساتھ جگہ بناپائیں یا نہ بناپائیں۔ان کی وجہ سے بڑی پارٹیوں میں سے کسی کو فائدہ پہنچ سکتاہے تو کسی کو نقصان۔دیکھاجائے تو چھوٹی پارٹیوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہوتا لیکن وہ جس برادری یا علاقہ کی سیاست کرتی ہیں،سیاست میں ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ جوان کے مسائل کے حل میں کام آتی ہے۔پھر اسی کے سہارے چھوٹی پارٹیاں آگے کا سفر طے کرتی ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS