یو پی الیکشن اور مسلمانوں کی صورتحال

0

کچھ ہی دنوں بعد پانچ صوبوں کے ساتھ یو پی میں بھی الیکشن ہونے والا ہے. اور میں یہاں ابھی صرف یوپی کے تعلق سے ہی چند جملے پیش کرتا ہوں.
زیادہ دن نہیں صرف 2017 سے پہلے بیس سال تک مسلمانوں کے تعلیمی ادارے اور ان کی معیشت پر غور کریں کہ اس درمیان مسلمانوں میں تعلیمی و معاشی ترقی کیسی رہی ہے؟ یونیورسٹی، مدارس اور اور اقلیتی اسکول وغیرہ کس مقدار میں قائم ہوئے؟ کتنے مدارس ایڈڈ ہوئے؟ کتنے مسلمانوں کو ایڈڈ مدارس میں، اسکولوں میں اور یونیورسٹیز میں ملازمت ملی؟۔ اس درمیان صنعت و حرفت اور دستکاری وغیرہ میں مسلمانوں نے کتنی ترقی کی؟۔
پھراس کے بعد بی جے پی کی ساڑھے چار سالہ یوگی حکومت پر غور کریں کہ اس نےاعظم خاں اور انصاری برادران، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جوہر یونیورسٹی، دینی مدارس و مکاتب، اوراقلیتی اسکولوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ سرکاری اور نیم سرکاری تعلیمی اداروں میں مسلمان بچےاور بچیوں کے لیے کیاکیا مصیبتیں کھڑی کیں؟ کہیں اسکٹ پہننے کی شرط لگا دی، تو کہیں نقاب پر پابندی۔ تو کہیں سوریہ نمسکار اور سرسوتی وندنا وغیرہ کی لزومیت۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ ان امور پر غورومحاسبہ کریں پھر بتائیں کہ یہ بی جے پی کی حکومت اچھی ہے یا پہلے کی نام نہاد ہی سہی سیکولر حکومت اچھی تھی؟۔
مسلمانوں کے لیے یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جس حکومت میں اعظم خان نے منتری رہ کر جوہر یونیورسٹی بنائی اس حکومت کو غلط بتائی جا رہی ہے! اور جس نے ان پر ظلم کیا، جو ہر یونیورسٹی توڑ ی، درپردہ اس کی حمایت کی جا رہی ہے؟ اور پھرشہاب الدین مرحوم، اعظم خاں اور انصاری برادران، اور دوسرے زیرتعلیم نوجوانوں پر ہو رہے ظلم وستم کو دکھا کر سابقہ سیکولر حکومتوں کو مورود الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔ تعجب ہے!
پچھلے دنوں مغربی بنگال میں الیکشن ہوا وہاں کے مسلمانوں نے ایکطرفہ طور پر ٹی ایم سی کی حمایت کی نتیجتا بی جے پی ہار گئی۔ جب کہ وہاں بھی نام نہاد مسلم قائدین اور مسلم پارٹیوں نے ٹی ایم سی کی ہزارہا خرابیاں بیان کرکے مسلم پارٹیوں کو ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ اگر مغربی بنگال کے مسلمان ان مسلم نیتاوں کے بہکاوے میں آ جاتے تو آج مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں ایک ایسی زہریلی فضا ہوتی، جس میں مسلمان دم گھٹ گھٹ کرمر رہے ہوتے اور کوئی مرہم رکھنے والا بھی نہیں ہوتا۔
بہرحال آنے والے دنوں میں فیصلہ تو یوپی کے مسلمانوں کو ہی کرنا ہے۔ کہ وہ بی جے پی کی حکومت چاہتے ہیں یا نام نہاد ہی سہی سابقہ مخلوط سیکولر حکومت چاہتے ہیں؟۔ فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ جیسا فیصلہ کریں گے ویسا ہی ان کو اس کا نتیجہ ملے گا۔
ایک بات بہت ہی اصرار کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ سیکولر پارٹیوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو بی جے پی کا خوف دلاکر ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا ہے۔ کہ اگر بی جے پی کی حکومت آ گئی تو مسلمانوں کا استحصال ہوگا۔ اس تعلق سے میری سمجھ یہ ہے کہ اب یہ خوف نہیں رہا بلکہ بی جے پی کی حکومت آئی اور اس نے مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا۔ اب تو یہ ایک حقیقت ہے۔
ان حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ارباب فکر و نظر کو اس کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جذبات سے اوپر اٹھ کر حقائق پر مبنی فیصلہ کریں تاکہ ماضی بعید کی طرح مستقبل میں بھی ترقی کے کچھ مواقع دستیاب رہیں۔
مضمون نگار:محمد شہادت حسین  فیضی

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS