انجینئر خالد رشید علیگ
باوجود موافق حالات کے کیا واقعی اکھلیش یوگی کو شکست دے پائیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ملک کی سیاست کا مستقبل طے کرے گا اور یہ بھی کہ عوام اگر خلاف ہو جائیں تو بڑی سے بڑی پارٹی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ حالانکہ پہلے بھی ممتا بنرجی ثابت کر چکی ہیں کہ مودی ناقابل شکست ہرگز نہیں ہیں اور اب اکھلیش بنگال کی طرح پوپی کے الیکشن کو بائی پولر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن یوپی کے حالات بنگال کے حالات سے مختلف ہیں۔ کانگریس کوتو اکھلیش شاید حاشیے پر دھکیلنے میں کسی حد تک کامیاب ہو بھی جائیں لیکن مایاوتی یوپی کی سیاست کی وہ گگلی ہیں جو کسی بھی وقت اکھلیش کو کلین بولڈ کر سکتی ہے۔
مایاوتی کے پاس کیا متبادل ہیں، اس کا ذکر مضمون کے آخری حصے میں کریں گے۔ فی الحال اگر اکھلیش یادو کی انتخابی مہم کی بات کریں اور ان کے جلسوں میں آنے والی بھیڑ اور اس بھیڑ کے جوش و خروش پہ نگاہ ڈالیں تو بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کی مسلسل محنت کے بعد اکھلیش نے سماجوادی پارٹی کو بی جے پی کے مدمقابل کھڑا کر نے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ لوگ جو یوپی کے الیکشن کو یکطرفہ کہہ رہے تھے، جن کا خیال یہ تھا کہ حزب اختلاف کا 60 فیصد ووٹ آپس میں بٹ جائے گا اور بی جے پی 30 سے 35 فیصد ووٹ لے کر آسانی سے بازی مارلے گی، وہ بھی اب یہ ماننے لگے ہیں کہ سماجوادی پارٹی نے یہ مقابلہ سیدھا دو پارٹیوں کے درمیان کی جنگ میں تبدیل کر دیا ہے جس کا نقصان بی جے پی کو ہونا طے ہے۔ اب یہ نقصان کتنا ہوگا ،یہ تخمینہ لگانا تو بہت مشکل ہے لیکن یہ طے ہے کہ بی جے پی پوری قوت لگانے کے بعد بھی 2017 کی کارکردگی دہرا نہیںپائے گی۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اکھلیش یادو نے چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کر کے بی جے پی کو اسی کی حکمت عملی سے جواب دینے کی جو پالیسی تیار کی تھی، وہ بھی کامیاب ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ابھی تک سماجوادی پارٹی نے جن چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کیا ہے، ان میں اوم پرکاش راج بھر کی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی، جاٹوں کی آر ایل ڈی، چچا شیو پال کی پرگتی شیل سماجوادی پارٹی کے نام قابل ذکر ہیں۔ افواہیں یہ ہیں کہ شاید چندر شیکھر آزاد راون کے ساتھ بھی کوئی بات بن سکتی ہے۔ جو لوگ یوگی کے انداز حکمرانی اور فرقہ پرستی سے تنگ آچکے تھے، ان کو اکھلیش یادو میں امید کی ایک کرن نظرآنے لگی ہے۔ اس کے علاوہ یوگی کی ٹھاکر نواز ٹھوکو پالیسی نے برہمن ووٹروں کو ناراض کیا ہے۔ دن بہ دن بڑھتی مہنگائی سے عوام پریشان ہیں۔ سڑکوں پر تشدد کرتے بی جے پی کے کارکنان جس کی مثالیں لکھیم پور کھیری میں پیدل چل رہے کسانوں کو تیز رفتار کاروں تلے روندنا، گورکھپور میں پولیس کا وحشیانہ رویہ جس میں ایک تاجر کو جان گنوانی پڑی، بی جے پی لیڈر کلدیپ سنگھ سینگر کی دبنگئی جس نے پورے خاندان کو طاقت اور گھمنڈ کے پاؤں تلے روند ڈالا، پانچ سالوں میں ہونے والے لاتعداد انکاؤنٹرس، اس کے علاوہ کسان تحریک سے پیدا ہونے والی ناراضگی، ایسی وجوہات ہیں جو مودی جی کو بار بار دلی میں اپنا دفتر چھوڑ کر یوپی کے چکر لگانے پر مجبور کر رہی ہیں۔
کوشش یہ ہو رہی ہے کہ یوگی جی کے پانچ سالوں کی ناکامیوں سے ذہن پھیر کر رام مندر اور کاشی وشو ناتھ کاریڈور کی طرف کر دیا جائے اور اگر متھراکی بات کی جا سکے تو وہ بھی کی جائے لیکن اکھلیش کی حکمت عملی اور عوام کی ناراضگی بی جے پی اور سنگھ کے لیے خطرے کا الارم ثابت ہو رہی ہے۔ جہاں تک مسلم ووٹروں کا تعلق ہے، ان کے لیے بہت زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہ پہلے تھی، نہ اب ہے۔ حالانکہ اسد الدین اویسی نے مسلمان نوجوانوں کو کافی متاثر کیا ہے اوران کا بڑا طبقہ اب اپنا حصہ مانگ رہا ہے، اس کا خیال ہے کہ اب دری بچھانے کا دور ختم ہونا چاہیے لیکن دوسری طرف بی جے پی کی مسلم مخالف پالیسیوں نے، یوگی کی زہر یلی تقریروں نے اور سنگھ کے مسلم مخالف ایجنڈے نے مسلمانوں کے لیے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ اس کی دائیں طرف کنواں ہے اور بائیں طرف کھائی۔ اس سے کہا جا رہا ہے کہ وہ جدھر چاہیں کود جائیں، اس لیے قوی امیدہے کہ اسدالدین اویسی کی دلیلوں سے پوری طرح متفق ہونے کے باوجود اگرمسلمانوں کو یہ لگا کہ اکھلیش اوران کے ساتھی بی جے پی کو شکست دے سکتے ہیں توان کی اکثریت ایک بار پھر سماجوادی کو ہی ووٹ دے گی لیکن ان سب باتوں کا مطلب یہ نکال لینا کہ اکھلیش سنگھ کو شکست دے ہی دیں گے، بالکل غلط ہوگا۔سیاست کا یہی تو کمال ہے کہ اس کے جتنے پہلو نمایاںہوتے ہیں، اس سے زیادہ پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، سماجوادی پارٹی کی قیادت میں یہ چھوٹی پارٹیاں کچھ نشستیں جیت لیں اور اکھلیش کو اسمبلی میں اکثریت حاصل ہو جائے لیکن بی جے پی کے الیکشن کے بعد والی تکنیک کا کیا اکھلیش مقابلہ کر پائیں گے؟ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آ ہی چکے ہیں، محکمۂ انکم ٹیکس حرکت میں آ چکاہے۔ ابھی تو اور ادارے باقی ہیں۔ یہ تمام چھوٹی پارٹیاں کیا الیکشن کے بعد بھی اکھلیش کے ساتھ رہ پائیں گی؟
ایک اور خطرہ جس کا قوی امکان موجود ہے، وہ مایاوتی کا ووٹ بینک ہے جو کسی ڈیل کے تحت یا صرف سماجوادی پارٹی کو ہرانے کے لیے کہیں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب مایا وتی جی نے اپنا ووٹ سماجوادی پارٹی کو ہرانے کی غرض سے بی جے پی کو ٹرانسفر کرایا ہے۔ جس دباؤ نے مایا وتی کو خاموشی اختیار کرنے پہ مجبور کیا ہے، وہ دباؤ ووٹ ٹرانسفر بھی کرا سکتا ہے، نیز یہ کہ الیکشن میں ابھی دو ماہ باقی ہیں۔ ہری دوار کی دھرم سنسد اور اس میں مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیلیں بھی یہ اشارہ کر رہی ہیں کہ بی جے پی کے ترکش میں اور بھی کئی قسم کے ہتھیار ہیں جن کا استعمال ہونا ابھی باقی ہے۔ کل ملا کر یہی کہا جا سکتا ہے :
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
[email protected]