غیر سائنسی سوچ کو ذات تک محدود رکھا جائے

0

عبدالسلام عاصم

سابقہ صدی میں مذہبی منافرت کی سیاست کے نتیجے میں پہلے متحدہ ہندوستان دوقومی نظریے کی بھینٹ چڑھا۔ پھر لسانی تعصب نے اس نظریے پر ایسی سبقت حاصل کی کہ پاکستان کے ٹوٹنے اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے تاریخی دستاویزات مرتب ہوئے۔ جاری صدی میں مذہبی منافرت کے حوالے سے ایسی ہی سیاست ہندوستان پر بھاری پڑ رہی ہے۔ انجام کیا ہوگا! اس کا دعویٰ تو کوئی پیشین گوئی کا دھندہ کرنے والا ہی کر سکتا ہے۔ تجزیہ نگار صرف اندیشے اور امکانات کو سامنے رکھ کر بہتری کی صورت یامصیبت کے ازالے کے رُخ پر باتیں کرتے ہیں۔
ایک سچ جو اتفاق کی شرط سے مشروط نہیں، وہ یہ ہے کہ برصغیر کی دونوں بڑی اقوام میں کچھ حلقوں نے تعلیم کو برین واشنگ کا ہتھیار بنا کر دونوں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔ کسی کو ماضی کی مغالطے سے بھری عظمت کی بحالی کی فکر ہے تو کسی نے امکانات کے رُخ پر اندیشوں کے خطرات کی دھار ہمیشہ کیلئے کند کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ عام آدمی دونوں طرف بس تماشائی بنا ہوا ہے اور ایپی سوڈ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔
اس پس منظر میں ابھی حال ہی میں آر ایس ایس کے سربراہ جناب موہن بھاگوت کا ایک مکالمہ سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے بالا تر ہونے کے احسا س سے باہر نکلیں۔ انہوں نے اپنی صلاح کو یک رُخی رکھنے کے بجائے اس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والے کو اِس سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ جو مذاہب کے تعلق سے مشکوک یا منکر ہیں، انہیں بھی دوسروں کو سرے سے رد کر نے کا چلن ترک کر دینا چاہیے۔ ان کا یہ مشورہ کتنا قابل عمل ہے اور کتنا نہیں، اس کا ابتدائی اندازہ درپیش عملی منظرنامے سے لگایا جاسکتا ہے جس میں ہر عقیدہ بظاہر دوسرے عقائد کو مسترد کرنے پر قائم ہے۔ ملک کی خارجی تقسیم اسی اندازِ فکر کا نتیجہ تھی اور وائے بد نصیبی عصری داخلی انتشار میں بھی اسی سوچ کا عمل دخل ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو برصغیر کے جاری صدی کے واقعات قطعی امید افزا نظر نہیں آتے۔ افغانستان اور ایران میں بھی سب خیریت نہیں۔ درمیان میں صرف بنگلہ دیش ہے جہاں شدت پسند بظاہر پہلے کی طرح بے لگام نہیں اور وہاں تعلیم اور روزگار کا رُخ اُس آسودگی کی طرف موڑدیا گیا ہے جس کی کمی کا ہر زمانے میں نظریاتی استحصال کیا گیا ہے۔ جنوبی اور مغربی ایشیا کے ہر اُس ملک میں جہاں معاشرہ علم سے زیادہ عقائد کے تابع ہے، اکثریت اور اقلیت کا مفہوم اس قدر غیر صحت مند اور اُلجھا ہوا ہے کہ فوری ازالے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
دوقومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والے پاکستان نے پہلے تو بنگالیوں کو عملاً دوسرے درجے کا شہری بنا کر اپنا گھر ہی توڑ ڈالا۔ اس کے بعد باقیماندہ حصے میں اقلیتوں کی زندگی اس قدر اجیران کردی گئی کہ اس کا راست اثر ہندوستان پر پڑنا شروع ہو گیا، جہاں تقسیم کا زخم ابھی بھرنا شروع ہی ہوا تھا۔ وطن عزیز میں آج اگر سیکولرازم مبینہ طور پر خطرے میں ہے تو اس میں ہمارے سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماؤں کی داخلی کمزوری کے ساتھ بہت حد تک ناقص ہمسائیگی کا بھی عمل دخل ہے۔ واضح رہے کہ اچھی صحبت کے مقابلے میں بری صحبت کا اثر تیزی سے مرتب ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہندو پاک کے درمیان ہوا۔ ہم اُس پر مذہبی رواداری کا سیکولر جادو نہیں چلا سکے۔ وہ مذہبی، لسانی اور مسلکی منافرت کا دائرہ سرحد پار تک وسیع کرنے میں کامیاب رہا۔
ہندوستان میں آج بھی ہندو اور مسلمان دونوں ایک قوم ہیں۔ ہم میں جو ادھیڑ عمر کے لوگ ہیں، انہوں نے دوقومی نظریہ کو ڈھاکہ میں دفن ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ نئی نسل برصغیر کی تقسیم در تقسیم کی کہانی پہلے تاریخ کی کتابوں میں اور اب انٹرنیٹ پر پڑھ رہی ہے۔ یہ تاریخ ہندوستانی اور پاکستانی کتابوں میں جہاں نظریاتی آمیزش کے ساتھ مرتب کی گئی ہے، وہیں انٹرنیٹ پر اِسے دونوں طرف کی آمیزشوں کو الگ کر کے پڑھنے کی سہولت موجود ہے۔ غیر آلودہ تاریخ کے مطابق اگرمتحدہ ہندوستان کے ہندو اور مسلمان دونوں ایک قوم نہیں ہوتے تو 1947 میں صرف زمین کا بٹوارہ نہیں ہوتا بلکہ آبادی کا بھی معلنہ طور پر باقاعدہ تبادلہ عمل میں آ جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ خونریز تقسیم دیکھ کر صرف ستائے جانے کے خوف سے کچھ لوگوں نے ہجرت کی۔تقسیم کے مخالف ہندوؤں اور مسلمانوں نے بالترتیب ہندوستان اور پاکستان میں اپنی جگہیں اس لیے نہیں چھوڑیں کہ اُن دونوں نے آزادی کے خواب دیکھے تھے، وحشیانہ تقسیم کے نہیں۔
مذاہب کو نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنانے کا سیاسی کاروبار دنیا کے دو پُرانے کاروبار میں سے ایک ہے۔دوسرا کاروبار قحبہ خانے کا ہے۔ ان دونوں کاروبار میں مظلوم کو اس قدر تختہ مشق بنایا جاتا ہے کہ وہ اسے تقدیر مان لیتا ہے۔ اس کے بعد اس تقدیر کا کاروبار کرنے والے اپنی الگ الگ دکانیں چلانے لگتے ہیں۔ چونکہ ایسے معاشرے پر اوہام کی گرفت مضبوط ہوتی ہے، اس لیے آستھا اور عقائد سے بیزار حلقے بھی دھندے پر اُتر آتے ہیں جس کا ہم سبھی کمیونسٹوں کی سیاست میں نظارہ کر چکے ہیں۔
باوجودیکہ ہندوستان آج بھی سیکولر اقدار کی پاس داری کی نظیر پیش کرنے میں دوسروں سے آگے ہے۔ اس کی ایک نظیر ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ ہے جو بظاہر امکانات کے رُخ پر ہے۔ دوسری نظیر اِس یاترا کی سیاسی مخالفت ہے جس میں اسے اقتدار کی لالچ قرار دیا جارہا ہے۔ یہی وہ اندازِ سیاست ہے جس کا ہمسائے کے یہاں فقدان ہے۔ اس لحاظ سے ہماری موجودہ حکومت کا مزاج بھی بہ انداز دیگر جمہوری ہے۔ اس سے بہرحال سب متفق نہیں۔ جمہوریت میں ویسے بھی کُلّی طور پرعام اتفاق ممکن نہیں ہوتا۔ البتہ اختلافات کو صحت مند ضرور رکھا جانا چاہیے تا کہ ’’جامد اتفاق‘‘ کی باتیں کرنے والوں کو قدم جمانے کا موقع نہ ملے۔
رہ گئی بات نا خوشگوار واقعات کی جو کل سے نسبتاً کہیں زیادہ تو کہیں کم آج بھی رونما ہو رہے ہیں، تو اُن پر بلا شبہ قابو پانے کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہمیں یہ مان کر چلنا ہوگا کہ جس طرح کل کے سابقہ نظم میں سیکولرازم کا دم بھرتے نہ تھکنے والوں میں کچھ ایسے عناصر شامل تھے جن سے اقلیتیں خوفزدہ رہتی تھیں، اسی طرح آج بھی کچھ حلقے یوں پیش آرہے ہیں جیسے سیاں بھئے کوتوال تواب ڈر کاہے کا۔ حکومتِ ہند کو اس صورتحال کا سنجیدہ نوٹس لے کر ماحول کو اندیشوں سے پاک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپوزیشن پر بھی لازم ہے کہ وہ محض اقتدار رُخی فائدے کے لیے کسی فرقے کی پریشانی کو نہ بھنائے۔ ووٹ بینک کے اس کلچر کو جو نقصان پہچانا تھا، وہ پہنچ چکا ہے۔ اس نقصان کا سیاست کا توازن (محدود مفادات کیلئے) بدل کر ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ ووٹ بینک کلچر کی جگہ اب ملک میں کارپوریٹ کلچر نے لے لی ہے۔ یہ روزگار رخی کلچر ہے جو بے روزگاری کو اُس طرح دور نہیں کرے گا جس طرح پہلے کیا جاتا تھا۔ اب آجروں کو روایتی ڈگری ہولڈروں سے زیادہ نتیجہ خیز صلاحیت کی حامل افرادی قوت کی تلاش ہے جو مرحلہ وار پوری ہونے بھی لگی ہے۔
ایسی تبدیلی کے موڑ پر حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اب اقتدار رخی سیاست ترک کرکے قوم رُخی سیاست کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے راتوں رات سب کچھ نہیں بدلے گا لیکن زمانے کی رفتار سے اس رُخ پر ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا گیا تو عجب نہیں کہ آئندہ دہائی تک حکومت بدلے یا نہ بدلے حکمراں بدلتے نظر آنے لگیں۔ اصل تبدیلی وہی ہوتی ہے جسے تبدیلی لانے والے سے زیادہ دوسرے محسوس کریں۔ وطن عزیز کو ایک ایسے انقلاب کی سخت ضرورت ہے جو اکثریت یا اقلیت رُخی نہ ہو بلکہ نفرت کی سیاست سے نجات کے رُخ پر ہو۔ ایسی نجات کی واحد صورت یہ ہے کہ غیرسائنسی سوچ کو ذات تک محدود رکھا جائے، اُسے کائنات پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS