ای وی ایم پر لایعنی شبہ

0

لوک سبھا انتخاب کی سرگرمیوں کے درمیان ایک بار پھر سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین یعنی ای وی ایم کامسئلہ سرابھارنے لگا ہے۔ مختلف ریاستوں میں اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے مطالبہ کیاجارہا ہے کہ اس با ر پولنگ ای وی ایم کے بجائے بیلٹ پیپر سے کرائی جائے تاکہ بدعنوانی، مشین ہیکنگ اور نتائج میںردوبدل کا کوئی خدشہ نہ رہے۔ اس درمیان جنوبی ہندوستان کے تمل ناڈو میں حکمراں ڈی ایم کے نے ای وی ایم پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے باقاعدہ مدراس ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ ڈی ایم کے نے عرضی داخل کرکے عدالت سے اپیل کی ہے کہ الیکشن کمیشن کو ہدایت دی جائے کہ ووٹنگ کیلئے بیلٹ پیپر کا استعمال کیاجائے۔ ڈی ایم کے کی عرضی میں کہاگیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ووٹنگ یونٹ اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے کنٹرول یونٹ کے درمیان ووٹر ویریفائی ایبل پیپر آڈٹ ٹریل(وی وی پی اے ٹی)ڈیوائسز نہ رکھنے کی بھی ہدایت دی جائے۔اس سلسلے میںآر پی ایکٹ 1951 اور کنڈکٹ آف الیکشن رولز 1961 کاحوالہ دیتے ہوئے پارٹی نے کہا ہے کہ اس طرح کے انتظامات سے ڈیٹا کی سالمیت متاثر ہوتی ہے۔پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مسئلہ پرعام انتخاب کیلئے پولنگ شروع ہونے سے پہلے فیصلہ کیاجاناچاہیے۔ ڈی ایم کے اس سے قبل بھی یہ مسئلہ اٹھا چکی ہے۔ گزشتہ فروری میں ڈی ایم کے نے یہی مطالبہ براہ راست الیکشن کمیشن سے کیاتھا اور کہا تھا کہ لوک سبھاانتخاب تب تک نہ کرائیں جب تک کہ بیلٹ پیپر کا انتظام نہیں ہوجاتا ہے۔ڈی ایم کے کی جانب سے یہ قدم ایسے وقت پر اٹھایاگیا ہے جب منگل کو وی وی پی اے ٹی کی سبھی پرچیوں کی گنتی کی اپیل سے جڑی عرضی پر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن اور مرکزی حکومت کونوٹس جاری کرچکا ہے۔
ادھر شیو سینا لیڈر سنجے راوت نے بھی ایک بار پھر ای وی یم کے سلسلے میں سوال اٹھاتے ہوئے بی جے پی کو چیلنج کیا ہے کہ اگر ہمت ہے تو وہ بیلٹ پیپرسے انتخاب کرائے۔ مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ اور کانگریس لیڈر دگ وجے سنگھ کا بھی یہی کہنا ہے۔ دگ وجے سنگھ تو ای وی ایم میںگڑبڑی اور بدعنوانی کے شبہات سے آگے بڑھ کر یقین کی سرحد میں داخل ہوچکے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ ای وی ایم کی مبینہ گڑبڑی میں ملوث لوگوں کو ملک دشمن قرار دے کر انہیں پھانسی کی سزادی جانی چاہیے۔سماج وادی پارٹی کی ایم پی ڈمپل یادو نے بھی گزشتہ دنوں کچھ یہی مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ای وی ایم کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کو باضابطہ وضاحت جاری کرنی چاہیے نیز ای وی ایم اگر صحیح بھی ہیں تو عوام کے مطالبات کو پیش نظررکھتے ہوئے بیلٹ پیپرکا بھی انتظام کیاجاناچاہیے۔
ای وی ایم پر اپوزیشن کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے بی جے پی کاکہنا ہے کہ انتخاب جیتنے پر اپوزیشن ای وی ایم پر سوال نہیں اٹھاتا لیکن ہارنے پر اسے ای وی ایم ہیک نظر آتا ہے۔یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے کیوں کہ زیادہ تر جو پارٹی جس انتخاب میں ہارتی ہے وہی ای وی ایم پر سوال اٹھاتی ہے۔انتخاب سے پہلے اور نتائج آنے کے بعد بھی اکثر یہ دیکھاگیا ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں ای وی ایم کے خلاف شکایت لے کرسامنے آجاتی ہیں۔کئی بار تو ای وی ایم میں خرابی کو اس طرح سے پیش کیاجاتاہے کہ اس میں چھیڑچھاڑ ممکن ہے۔ جہاں تک ای وی ایم کی شفافیت کی بات ہے تو الیکشن کمیشن کئی بار اپوزیشن پارٹیوں کو چیلنج کرچکا ہے کہ وہ ای وی ایم کو ہیک کرکے دکھائیں، لیکن اپوزیشن میں سے کوئی بھی اس چیلنج کے جواب میں سامنے نہیںآیا اور نہ اپنے طور پر اپوزیشن اپنا یہ الزام ہی ثابت کرسکا ہے۔
جدید آلات، نت نئی تکنیک کے استعمال سے استفادہ کرتے ہوئے اگر ای وی ایم سے ووٹنگ کرائی جارہی ہے تو اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر مشین کی طرح ای وی ایم بھی ایک مشین ہے اوردنیا کی ہر مشین کی طرح یہ بھی خراب ہوسکتی ہے۔ دوسری مشینوں کی طرح اس مشین کی بھی خرابی دور کیے جانے اور مسئلہ کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے لیکن اس ضرورت پر زور دینے کے بہانے بیلٹ پیپر سے انتخاب کرانے کا مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے ٹرین حادثہ کے بعد صرف بیل گاڑی سے سفر کی ضرورت بتائی جائے۔ ای وی ایم آنے سے پہلے جب بیلٹ پیپر کا استعمال ہوتاتھا تو الیکشن کے نتائج آنے میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے لیکن جدید ترین مشین نے نہ صرف انتخابی عمل کو آسان بنایا ہے بلکہ انتخابی نتائج بھی جلد آنے لگے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں سے اسے مزید بہتر اورشفاف بنانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ای وی ایم کے ساتھ وی وی پی اے ٹی کا بھی استعمال ہونے لگا ہے۔ یہ ووٹ ڈالنے کی تصدیق کرنے والا آپریٹس ہے، اس سے کاغذ کی پرچی بھی نکلتی ہے جسے ووٹر دیکھ سکتا ہے کہ اس کا ووٹ اسی امیدوار کو گیا ہے جسے اس نے ووٹ دیا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ثمرات سے بہرہ ور ہونے کے بجائے ہار کی وجہ سے اس پرشبہ کا اظہار اور جان بوجھ کر افواہ پھیلانے سے انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد کمزور ہوسکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی کو نشانہ بنانے اور اس پر لایعنی شہبات کے بجائے عوام کے دل و دماغ میںا تریں اورا نہیں اپنی جانب راغب کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS