برائے نام سرینڈر ویلیو سے انشورنس کی کشش میں کمی

0

پروفیسر للن پرساد

انشورنس ریگولیٹری اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف انڈیا (IRDAI) کے حال میں لیے گئے ایک فیصلہ سے انشورنس ہولڈرز، جو معاشی تنگی یا دیگر وجوہات سے پالیسی کا پریمیم آگے نہ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں، کی امید پر پانی پھر گیا ہے۔ دسمبر، 2023میں انشورنس ریگولیٹری اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف انڈیانے ایک تجویز پر غور کرنا شروع کیا تھا جس کے تحت ریگولر پالیسیز کی سرینڈر ویلیو تقریباً دوگنی کرنی تھی مگر یہ تجویز واپس لے لی گئی ہے، سرینڈر ویلیو کا تعین پہلے کی طرح ہی کیا جائے گا۔
تجویز کی مخالفت انشورنس کمپنیوں نے کی تھی، لگتا ہے کہ اتھارٹی ان کے آگے جھک گئی، انشورنس ہولڈرز کے مفاد کو نظرانداز کردیا گیا۔ حکومت جہاں غریبوں کے مفاد-فلاح و بہبود کے لیے پرعزم ہے وہاں اس طرح کے فیصلے ایک آئینی ادارہ کے ذریعہ کیے جانے کی امید نہیں کی جاتی۔ انشورنس ریگولیٹری اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف انڈیاکا قیام انشورنس شعبہ کی مجموعی طور پر نگرانی اور ترقی کے لیے پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت 1999میں کیا گیا تھا۔ اس کے اہم مقاصد میں پالیسی ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ کرنا، انشورنس انڈسٹری کا تیز رفتار اور منظم فروغ، حقیقی دعوؤں کا فوری نمٹارہ، مؤثر شکایات کے ازالہ کا سسٹم، انشورنس سے متعلق فائنانشیل مارکیٹس میں غیر جانبداری، شفافیت اور منظم طرزعمل کو بڑھاوا دینا، محتاط ریگولیشن کو یقینی بنانا شامل ہیں۔ انشورنس سرگرمیوں میں آنے والی پریشانیوں کو کم کرنے کے لیے انشورنس ریگولیٹری اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف انڈیالائف انشورنس کمپنیوں کی مدد سے انشورنس ٹرینٹی لانچ کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے جس میں انشورنس سوگم، انشورنس ایکسٹینشن اور انشورنس کریئر شامل ہیں۔
اتھارٹی 2047 تک سبھی کے لیے انشورنس یقینی بنانے کے ہدف پر کام کررہی ہے، جس کے تحت ہر ایک شہری کے ایک مناسب لائف ہیلتھ اور پراپرٹی انشورنس کور ہو۔ سرینڈر ویلیو کا مطلب اس ویلیو سے ہے جو انشورنس ہولڈر کو پالیسی کی میچورٹی کے پہلے پالیسی پریمیم دینا بند کرنے پر ملتی ہے۔ یہ رقم جمع کی گئی پریمیم کی رقم سے بہت کم ہوتی ہے۔ عام طور پر انشورنس ہولڈر مجبوری میں پریمیم دینا بند کرتا ہے، ایسی صورت حال میں اس کے ذریعہ ادا کیے گئے پریمیم کا بڑا حصہ ضبط کرلینا مناسب نہیں سمجھا جاسکتا۔ انشورنس کمپنیوں کا جواز ہے کہ وہ لانگ ٹرم انویسٹ کرتی ہے۔ وقت سے پہلے پریمیم آنا بند ہوجانے سے ان کو نقصان ہوتا ہے۔ پالیسی ہولڈرز کو سرینڈر ویلیو کی معلومات پہلے سے ہی دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی اہلیت کے مطابق ہی پالیسی خریدیں۔ سرینڈر ویلیو بڑھانے سے انشورنس ہولڈرز میں سرینڈر کے تئیں رجحان میں مزید اضافہ ہوگا جو انشورنس بزنس کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ انشورنس کمپنیوں کے اخراجات اور ان کی آمدنی دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ اتنی پالیسیز سرینڈر ہوتی ہیں، جس سے ان کا بجٹ بگڑتا ہے۔ سرینڈر عام طور سے کم آمدنی کے لوگ کرتے ہیں، یا جن کی معاشی حالت اچانک خراب ہوجاتی ہے۔ سرینڈر ویلیو دینے کے بعد جو رقم انشورنس کمپنیوں کے پاس بچ جاتی ہے، وہ ان کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ ریگولر پالیسیز میں موجودہ وقت میں ایک سال پریمیم دینے کے بعد اگر کوئی پالیسی سرینڈر کرتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں ملتا۔ دو سال پریمیم دینے کے بعد اگر پالیسی سرینڈر کی جاتی ہے، تو اس پر 30فیصد ادائیگی ہوتی ہے۔ تین سال تک پریمیم دینے کے بعد اگر پالیسی سرینڈر کی جاتی ہے تو 35فیصد اور 4سے 7سال کے انشورنس میں 50فیصد ہی ادائیگی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے مدت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے انشورنس ہولڈر کا نقصان بڑھتا جاتا ہے۔ آخر میں اگر پالیسی میچور ہونے کے ایک سال پہلے پالیسی ہولڈر پریمیم دینے میں نااہل ہوتا ہے تو اسے کل ادا کیے گئے پریمیم کا 90فیصد ہی ملتا ہے۔ مثال کے طور پر 21سال کی پالیسی میں اگر پالیسی ہولڈر 20سال تک بھی پریمیم دے جاتا ہے تب بھی اپنی دی ہوئی رقم سے 10فیصد کم کا حق دار بنتا ہے جو واضح طور پر پالیسی ہولڈر کا استحصال ہے۔ انشورنس کی جگہ اگر پی پی ایف یا فکسڈ ڈپازٹ میں رقم جمع کی جائے تو اصل رقم محفوظ رہتی ہے، میچورٹی سے پہلے رقم نکالنے میں سود کا برائے نام نقصان ہوتا ہے۔ مثال کے لیے اگر پی ایف میں 20برس تک فی سال ایک لاکھ روپے جمع کیے جائیں تو میچورٹی پر 40لاکھ روپے سے زیادہ ہوجاتے ہیں۔ وقت سے پہلے نکالنے پر سود میں کچھ کٹوتی ہوتی ہے۔ وسط مدت میں رقم کی ضرورت ہونے پر قرض کی سہولت بھی ہوتی ہے جس کی سودشرح بھی معمولی ہوتی ہے۔ فکسڈ ڈپازٹ میں پیسہ جمع کرنے پر عام طور پر 7برس میں رقم دوگنی ہوجاتی ہے، وقت سے پہلے رقم نکالنے میں سود کا کچھ نقصان ہوتا ہے، قرض کی سہولت بھی ہوتی ہے۔ انشورنس تبھی فائدہ مند ہوتا ہے جب آخری پریمیم تک کی ادائیگی ہوجائے یا انشورنس ہولڈر وقت سے پہلے ہی وفات پاجائے اور پوری رقم اس کے جانشین کو مل جائے۔
انشورنس کے شعبہ میں سرمایہ کاری میں اضافہ کے لیے انشورنس کمپنیوں اوراتھارٹی، دونوں کو انویسٹمنٹ فرینڈلی بنانے کی ضرورت ہے۔ کئی طرح کی پالیسیاں انشورنس کمپنیوں کے ذریعہ نکائی گئی ہیں لیکن زیادہ تر اتنی پرکشش نہیں ہیں، جتنی سرمایہ کاری کے دیگر شعبوں جیسے شیئربازار، حکومت کی مختلف سیونگ اسکیم اور کمپنیوں کی ڈپازٹ اسکیم۔ شیئر بازار میں لوگوں کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے جہاں مارکیٹ میں اُچھال آنے پر ڈیویڈینٹ کے ساتھ ساتھ سرمایہ میں بھی تیزی سے اضافہ ہوسکتا ہے، اگرچہ رسک بھی ہیں۔ مارکیٹ میں اُتار-چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔
قابل اعتماد کمپنیوں کی فکسڈ ڈپازٹ اسکیمیں بھی انویسٹرس کو تیزی سے اپنی جانب راغب کررہی ہیں کیوں کہ ان کی شرح سود بینکوں کے مقابلہ زیادہ ہوتی ہے۔ سرکاری سیونگ اسکیموں میں سرمایہ کاری پوری طرح محفوظ رہتی ہے۔ لوگوں کی سوچ میں بھی تبدیلی آرہی ہے، طویل مدت کی عام انشورنس پالیسی کی جانب رجحان کم ہوتا جارہا ہے کیوں کہ اس میں مالی فائدہ دیگر شعبوں سے بہت کم ہے۔ فائنانس مارکیٹ میں مقابلہ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ ایسی صورت حال میں انشورنس کمپنیوں کو اپنی اسکیموں کو مزید پرکشش بنانے کی ضرورت ہے۔ برائے نام سرینڈر ویلیو انشورنس کی کشش کم کرتی جارہی ہیں۔ انشورنس اتھارٹی کو اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS