ہندوستان میں آبادی کی کثرت کو موجب ناکامی و تباہی بتانے والے نام نہاد دانش وروں کو اقوام متحدہ کی آبادی رپورٹ نے ایک کرارا جھٹکا دیا ہے۔اقوام متحدہ نے آج آبادی کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس کے مطابق ہندوستان اس سال کے وسط تک تقریباً 3 ملین مزید آبادی کے ساتھ چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے کے راستے پر ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ(یو این ایف پی اے) کی ’اسٹیٹ آف ورلڈ پاپولیشن رپورٹ 2023‘ کے اعداد و شمار کے مطابق چین کی 1.4257 بلین کے مقابلے ہندوستان کی آبادی 1,428.6 ملین یا 1.4286 بلین ہے۔ ہرچند کہ اقوام متحدہ کی اس نئی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ تبدیلی کب آئے گی لیکن ماہرین عمرانیات کی پیش گوئی ہے کہ اقوام متحدہ کے سابقہ اعداد و شمار کی بنیاد پر ہندوستان اسی ماہ چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ نئی رپورٹ میں کچھ ایک انکشافات بھی سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ہندوستان کی آبادی میں گزشتہ سال 1.56 فیصد اضافہ ہوا اور اب کل آبادی 142.86 ملین ہے۔اس آبادی کا دو تہائی سے زیادہ یعنی 68 فیصد کی عمریں 15 سے 64 سال کے درمیان ہیںیعنی یہ وہ تعداد ہے جو زندگی کے میدان میں سرگرم عمل رہتی ہے۔نیزتازہ ترین رپورٹ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ہندوستان کی کل شرح پیدائش 2.0 ہے۔ یعنی ہندوستان میں ایک خاتون 2 بچوں کو جنم دے رہی ہے۔ ہندوستانی مرد کی اوسط متوقع عمر 71 سال اور خواتین کی 74 سال ہے۔اس رپورٹ کے اجرا کے وقت یو این ایف پی اے کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹرنتالیہ کنیم نے دلچسپ اور چشم کشاحقیقت کا بھی اعلان کیا کہ دنیا یہ غلط سوال پوچھ رہی ہے کہ کیا دنیا میں بہت زیادہ لوگ ہیںیا آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو سوال پوچھنے کی ضرورت ہے وہ یہ نہیں ہے کہ لوگ کتنی تیزی سے بچے پیدا کر رہے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا تمام افراد اور جوڑے اپنے بنیادی انسانی حق کو استعمال کرنے کے قابل ہیں کہ وہ کتنے بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ کنیم نے کہا کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
آبادی بڑھنے کے سوال کی نفی کرکے اقوام متحدہ نے ان تمام بے تکے اور غیر منطقی الزامات کو رد کردیا ہے جس میں کہاجاتا ہے کہ آبادی میں اضافہ سنگین خطرہ ہے اور یہ کہ زیادہ آبادی کیلئے زیادہ خوراک، رہائش، تعلیمی ادارے، روزگار کی ضرورت ہوتی ہے اور دنیا میں یہ سب چیزیں ابھی ناپید ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ آبادی خطرات کا نہیں بلکہ رحمت کا سبب ہے۔ ہندوستان کے متعلق اعداد وشمار کو اقوام متحدہ مستحسن قرار دیتے ہوئے اسے ہندوستان کی طاقت کے طور پر دیکھ رہاہے۔ ہندوستان نوجوانوں کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے یہاں 15سے24سال کے نوجوانوں کی آبادی 254ملین ہے جو تازہ سوچ، ندرت فکر اور جدت انداز کی بناپر ملک کی تیز رفتار ترقی میں اپنا خاطرخواہ حصہ ڈال سکتے ہیں اوراس ملک کی پائیدار ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ انہیں یکساں مواقع فراہم کیے جائیں، خاص کر خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم اور ہنر مندی کا ماحول مہیا کیا جائے۔
اس بدیہی حقیقت سے بہرحال انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ بڑھتی آبادی کے تناسب میں اگر بروقت وسائل میں اضافہ نہ کیا جائے تو پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر وسائل کم رفتار سے بڑھیں تو بھوک، غربت، جرائم اور جہالت پھیلتی ہے جو فساد کا سبب بنتی ہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ بڑھتی آبادی کے ساتھ دنیا کے وسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ آج سے پہلے ایک کھیت سے جتنی فصل ہوتی تھی آج اس سے کئی گنا زیادہ فصلیں ہورہی ہیں۔زمین میں وسائل کا اتنا خزانہ موجود ہے کہ جو آنے والی سیکڑوں نسلوں سے بھی ختم نہیں ہو گا۔ غیر آباد زمینوں کو انتہائی برق رفتاری کے ساتھ رہائش کیلئے آباد کیا جا رہا ہے۔اگرآبادی میں اضافہ ہوا ہے تو اس کے ساتھ وسائل کم نہیں ہوئے ہیںبلکہ وسائل میں بھی اضافہ ہورہاہے لیکن ان وسائل کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے۔
اس تلخ حقیقت سے کوئی بھی ہوش مند انکار نہیں کرسکتا ہے کہ آج دنیا کے زیادہ تر وسائل سمٹ کر چند ہاتھوں میں محدود ہوگئے ہیں۔ وسائل رہنے کے باوجود عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت محرومی کی زندگی گزار رہی ہے۔اس کا سبب بڑھتی آبادی نہیں بلکہ وسائل پر قبضہ کی ہوس اور انصاف کے آفاقی اصولوں کے علی الرغم اس کی تقسیم کا نظام ہے۔ ہندوستان میں ہی صرف ایک فیصد افراد کے پاس ملک کی کل دولت کا 40.5فیصد اور وسائل ہیں۔ 2012 سے 2021 کے درمیان ہندوستان میںجتنی دولت پیداکی گئی، وہ تمام کی تمام ملک کی ایک فیصد آبادی کے قبضہ میں چلی گئی۔ایسے میں بڑھتی ہوئی آبادی کو مورد الزام ٹھہرانا نری جہالت ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کارونارونے اور کلستے رہنے کے بجائے موجود اور دستیاب وسائل کی منصفانہ تقسیم کا بندوبست کیاجائے تو یہ بڑھتی آبادی بڑھتے ہوئے انسانی وسائل کی بھی شکل لے کر ملک کی کایاپلٹ سکتی ہے۔
[email protected]
آبادی پر اقوام متحدہ کی رپورٹ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS