تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

0

عبدالعزیز
وطن کی فکر کرناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
علامہ اقبالؒ ایک فلاسفر شاعر تھے، دور بینی اور دور اندیشی کا حال یہ تھا کہ اپنے زمانے کے حالات سے بہت آگے دیکھتے اور لوگوں آگاہ کر تے تھے۔ ثبوت کے طور پر ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دورساقی چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہاں مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
مذکورہ دو اشعار جس نظم کے ہیں اس میں سترہ اشعار ہیں سب کے سب مستقبل شنا سی اور دور اندیشی پر مبنی ہیں۔ اس طرح علامہ کے سیکڑوں اشعار ہیں چینیوں اور افغانیوں کے انقلابات پر، اس طرح کی روشنی ڈالی ہے۔ صدر چینی سی جن پنگ نے پاکستانی پارلیمنٹ میں ایک شعر پڑھ کر علامہ کو خراج عقیدت پیش کیا:
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہما لہ کے چشمے ابلنے لگے
’ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی‘ علامہ نے ملک ہندوستان کے مستقبل کو اپنی زندگی میں دیکھ لیا تھا۔ انگریزوں کے زمانے کا لحاظ رکھتے ہوئے انہوں نے کہا تھا:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
اسی ترانہ ہندی میں یہ بھی ہندو ستانیوں سے کہا تھا مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
یہ بھی فرمایا کہ :
رلاتا ہے تیرا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بر بادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
علامہ اقبال اور رابندرناتھ ٹیگور دونوں کے خیالات بہت ملتے جلتے تھے۔ خاص طور پر قومیت کے بارے میں دونوں نے جارحانہ قومیت کی تباہی سے دنیا کو آگاہی دی تھی۔ حالانکہ ٹیگور کے قومی ترانے تین ملکوں میں پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔ ہندستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں ان کی نظم کا ترجمہ وہاں کی مقامی زبان میں کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے جمہوریت کے بارے میں کہا تھا : ’’جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘۔ بے دین اور بے اخلاق سیاست پر تبصرہ کیا تھا:
جلا ل پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جداہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
آج اس جمہوری تماشا کو دنیا واشنگٹن سے دہلی تک دیکھ رہی ہے۔
آج ضرورت ہے کہ ہم اس تماشے سے دنیا کو برباد ہونے نہ دیں۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم جن کے بارے میں جارج برنارڈ شا نے کہا کہ ’’آگر آپ دنیا کے ناظم بنا دیئے جائیں دنیا امن شانتی کا گہوارہ ہوجائے۔ آپ کی تعلیمات بدلتے ہوئے زمانے کی رہنمائی کرتی ہیں۔ بیشک آپؐ انسانیت کے سچے نجات دہندہ ہیں‘‘۔آپؐ نے فرمایا ہے کہ ’’جب کوئی برائی (یا ظلم) اپنے سامنے دیکھو تو اگر طاقت ہے تو ہاتھ سے روک دو، اگر ایسا نہ کر سکو تو زبان سے کہو کہ یہ غلط ہے، یہ جہاد باللسان ہے۔ یہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے برا سمجھو (یعنی خاموشی سے برائی کو دور کرنے کی اسکیم بنائو)۔ اگرچہ ایمان کا یہ سب سے کمزور حصہ ہے۔ اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہوتا‘‘۔ غور کیجئے جبر و ظلم کے سدباب کے خاتمے کیلئے کتنی حکمت اور دانائی سے بھری باتیں کہی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا ہے کہ ’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم، ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم کرنے سے روک دو‘‘۔ ہمیں تفصیل سے آپؐ کی سیرت سے سبق ملتا ہے کہ ظلم وستم کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ ایک عملی قرآن ذات نبویؐ میں محفوظ ہے۔ قرآن میں کہا ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاکہا ہوا ہے۔ آپؐ کا کہا ہوا قرآن کا کہا ہوا ہے۔ آج یہاں ہر مذہب و ملت کے لوگ جمع ہیں۔ اگر ہم سب کثرت سے ایک ساتھ جمع ہوتے رہے تو فرقہ پرستی اور فسطائیت کی موت ہوسکتی ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS