ہے جو ہنگامۂ بپا یورش بلغاری کا

0

زین شمسی

ماضی میں وقوع پذیر واقعات حال میں تاریخ کہلاتی ہے اور حال میں ہونے والے واقعات و حادثات مستقبل میں تاریخ کی شکل میں نمودار ہوں گے۔ تاریخی حقائق ریسرچ کے موضوع ہوتے ہیں اور بہت سارے حقائق ریسرچ کے بعد تاریخی ابواب میں جگہ پاتے ہیں جسے غلط ثابت کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ ایسے تاریخی حقائق کو مشق کرنا مجرمانہ بے وقوفی کی علامت ہے، کیونکہ اس کی گواہی نہ صرف ملک کے تانا بانا میں موجود ہے بلکہ بلند و بالا دیواروں میں بھی پیوست ہے۔ کہتے ہیں کہ تاریخ کا انتقام سب سے گہرا ہوتا ہے۔ تاریخ جب بدلہ لیتی ہے تو حافظہ کام نہیں کرتا۔ آج جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ پائیدار نہیں ہورہا ہے۔ اسے وقتی طور پر سیاسی منفعت کے کاروباری رنگ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
ہے جو ہنگامۂ بپا یورش بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
دراصل یہ یورش واقعی ہم غافلوں کے لیے الرٹ کی گھنٹی بھی ہے اور خوداعتمادی اور خودداری کی جانب بڑھائے جانے والا قدم بھی ہے اور سبق بھی کہ غفلت کی نیندوں میں عذاب کی خوفناک چہل قدمی ہوتی ہے۔
وقت کبھی ایک سا یا یکساں نہیں ہوتا، بدلاؤ اس کی فطرت میں ہے۔ اس بدلاؤ کو سمجھنا ہی زندہ قوم کی میراث ہوتی ہے۔ مگر قوم میں ہی تبدیلی کے سراغ ملنے لگیں تو پھر وقت بھی اس کا مقدر نہیں بدل سکتا۔
تاریخ کی کتابوں سے700سالہ مغلیہ دور کو حذف کرنا سیاسی طاقت کا مظاہرہ ضرور ہوسکتا ہے مگر مغلیہ روایت کا خاتمہ کسی طاقت کے بس کی بات نہیں۔ جس طرح دہلی سلطنت اور عہد مغلیہ یعنی مسلمانوں کی اتنی لمبی حکومت میں ہندوؤں نے اپنے اقدار کو کھونے نہیں دیا، انہوں نے اپنے گھروں میں مسلم رنگوں کو گھسنے نہیں دیا، زبان، خوراک، آستھا اور رہن سہن کو برقرار رکھا اور وقت کا انتظار کرتے رہے۔ اسی دور میں رام چندر مانس کی تخلیق بھی کی اور مٹھوں سے منسلک بھی رہے اور مسلمانوں کی حکومت سے وابستہ بھی رہے۔ گھبرائے نہیں، جوش میں نہیں آئے ہمیشہ ہوش کا دامن پکڑے رہے۔ یہ آج کے دور میں مسلمانوں کے لیے بہت بڑی سیکھ ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
پدرم سلطان بود تاریخ کا روشن باب ضرور ہو سکتا ہے مگر یہ تصور اطمینان بخش صورتحال پیدا نہیں کر سکتا کیونکہ تاریخ کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اسلاف کے کردار کو اپنے کردار میں ضم کیا جائے۔ ان کے اخلاص و تدبر کی پیروی کی جائے۔ ان کے امتحانات و فرائض کو اپنی ذمہ داریوں میں شمار کیا جائے۔ اقبال کہتے ہیں کہ
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو!
ظاہر ہے پدرم سلطان اس لیے تھے کہ وہ متحد تھے۔ اسلام کا فروغ، اسلامی روایت و اصولوں کی تشہیر، اسلام کے امن و آشتی کا پیغام اور دنیا بھر کے لوگوں کو یکساں نظریہ سے دیکھنے کی ترغیب و ترجیح ان کا مقصد حیات تھا۔ انہوں نے مساجد قائم کیں، مسجد کو مجلس عام کا رتبہ دیا۔ اسلامی پارلیمنٹ کا باب بنایا۔ اس لیے وہ اسلام کا پرچم لہرانے والے غازی بن گئے اور جب تک زندہ رہے جاہ و حشمت ان کی غلام رہی۔ وہ مسلمان تھے بریلوی، حنفی، دیوبندی، سلفی نہیں تھے اور نہ ہی سید، مرزا، افغان، انصاری، راعین، مومن تھے۔ اب اسلام کی روح مسلکوں، نسلوں اور ذاتوں کی سخت ترین چکی میں پس کر تڑپ رہی ہے۔ ایسے میں اگر آج کا مسلمان اسی جلال الٰہی کا منتظر ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ ساری شورشیں صرف اس بات کے لیے ہیں کہ آپ بیدار ہوجائیں۔ اب تک جو ہوا سو ہوا، آپ نہ اس کی ہاں میں ہیں نہ نا میں۔ ہاں ان تمام حادثات و واقعات میں آپ کے نام کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ آپ ہی ایک ایسی قوم ہیں جو دنیا کو یکساں نظریہ سے دیکھ سکتے ہیں۔ بھیدبھاؤ، امیری و غریبی کا تناسب بدل سکتی ہے۔ سود خوری اور رشوت ستانی اور بدعنوانی کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ یہ بات جان لیجیے کہ دنیا مسلمانوں کو خوفزدہ کرتی ہے مگر اسلام سے خوف کھاتی ہے۔ اسی لیے ان کا مقصد مسلمانوں کو منتشر کرنے کا ہے۔ ابھی ان کا پسماندہ کارڈ جاری ہے۔ ایک دوسرے سے ایک دوسرے کو لڑانے کی یہود و نصاریٰ کی حکمت عملی ہنود بھی سیکھ چکے ہیں اور وہ کامیاب اس لیے ہو رہے ہیں کہ
منفعت ایک ہے اِس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک؟
حالات سے گھبرانا بزدلی کی نشانی ہے۔ بحران میں موقع تلاش کرنا ہی عقلمندی ہے۔اقبال نے ایسے حالات کے لیے بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ
ہے جو ہنگامۂ بپا یورش بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کا، خود داری کا
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS