اے- رحمان
محض تین ایسے الفاظ جو پورے ملک کو چشم زدن میں سیاسی، معاشرتی اور مذہبی بنیادوں پر تفریق کر دیتے ہیںاور جنہیں سنتے ہی بیک وقت ہائے واویلا اور جشنِ طرب برپا ہو جاتا ہے وہ ہیں ’یونیفارم سول کوڈ‘ جس کے حامیان اس کا ذکر سنتے ہی اظہارِ شادمانی اور مخالفین آمادۂ جنگ ہو جاتے ہیں۔ سیاسی سطح پر دیکھا جائے تو بی جے پی جو اس وقت اقتدار میں ہے اس کو نافذ کرنا چاہتی ہے جبکہ کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتیں اس کے خلاف ہیں۔اس نکتے پر آئینی صورتِ حال بادی النظر میں متناقض کہی جائے گی کیونکہ ایک جانب تو دفعہ 25 کے تحت شہریوں کو کسی بھی مذہب کی پیروی،تلقین،ترویج اور تبلیغ کی مکمل اور مساوی آزادی دی گئی ہے وہیں دوسری جانب آئین کا باب چہارم ریاست (حکومت) کے لئے سیاسی حکمت عملی کے بعض اصول ہدایہ(directive principles ) متعین کرتا ہے جن میں یہ ہدایت بھی شامل ہے کہ حکومت شہری قوانین کا ایسا ضابطہ (civil code) تشکیل دے گی جس کا اطلاق بلا تخصیص مذہب و ثقافت تمام ہندوستانی شہریوں پر یکساں طور سے کیا جا سکے۔ واضح ہو کہ باب چہارم میں درج ہدایات رہنما خطوط کی حیثیت رکھتی ہیں اور بذریعہ عدالت قابل اطلاق نہیں، یعنی ان کا اطلاق یا نفاذ عدلیہ کے دائرۂ اختیار سے خارج ہے اور کوئی شہری ان کے نفاذکا از روئے قانونی حق تقاضہ نہیں کر سکتا۔لیکن اس مسٔلے پر ملک کے عوام تین گروہوں میں تقسیم نظر آتے ہیں۔ایک گروہ تو پڑھے لکھے دانشور حضرات کا ہے (جس میں معدودے چند مسلمان بھی ہیں) جو شدت سے اس کی حمایت کرتا ہے۔ دوسرا گروہ مسلمانوں کا جو یکساں سول کوڈ کو اسلامی شریعت میں مداخلت قرار دیتے ہیں ( حالانکہ مسلکی اختلاف نے اب تک اسلامی شریعت کی کوئی قطعی تعریف مقرر نہیں ہونے دی جواپنی جگہ ایک بڑا مسٔلہ ہے)اور تیسرے نمبر پر غیر مسلموں کی ایک کثیر تعداد ہے جو یکساں سول کوڈ کے معنی و مفاہیم سے ناواقف ہیں اور اس لئے نہ موافقت کرتے ہیں نہ مخالفت بلکہ ’ جب ہو گا دیکھا جائے گا‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، یہ اور بات ہے کہ موجودہ حکومت کی مذہبی تفرقہ پردازی کے زیر اثر ان میں سے بیشتر محض مسلم دشمنی میں اس کی حمایت کرتے ہیں یا کم از کم مخالفت نہیں کرتے۔اس طور سے یکساں سول کوڈ بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک مزید بنائے مخاصمت بن گیا ہے ، بلکہ بنا دیا گیا ہے۔ یہی نہیں ، شروع سے اب تک جب بھی یونیفارم سول کوڈ کا ہوّا کھڑا کیا گیا تو اس کا مقصد مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے علاوہ کچھ نہیں رہا جس کا ثبوت یہ ہے کہ آج تک کسی حکومت یا اس معاملے میں سنجیدہ کسی سیاسی جماعت نے ایسے عائلی قوانین کا کوئی بنیادی خاکہ تک پیش نہیں کیا جسے کوڈ یعنی ضابطے کی صورت میں نافذ کیا جا سکے۔ حال ہی میں ایک مقامی بی جے پی لیڈر کی جانب سے یکساں سول کوڈ کے موضوع پر دہلی ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک مفادِ عامّہ عرضی کے جواب میں مرکزی حکومت نے ایک جوابی حلف نامہ داخل کیا ہے (یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت کی جانب سے اس موضوع پر حلف نامہ داخل ہوا)جس میں بنیادی دلیل تو یہ دی گئی ہے کہ یکساں سول کوڈ کا معاملہ حکومت کی پالیسی سے تعلق رکھتا ہے جس کے سلسلے میں تمام اختیارات مقنّنہ (یعنی پارلیمنٹ) کو ہیں اور عدالت اس معاملے میں حکومت کو کوئی حکم یا ہدایت نہیں دے سکتی لہذا مذکورہ عرضی قابل سماعت نہیں ہے۔لیکن آگے چل کر حلف نامہ کہتا ہے کہ ملک کے مختلف فرقے شادی، طلاق، جائیداد، وراثت وغیرہ کے معاملات میں اپنے اپنے باہم مختلف اور متضاد قوانین پر عمل پیرا ہیں جو ملک کی یکجہتی کیلئے ضرر رساں اور اہانت کا سبب ہیں۔ اُدھر عرضی گزار نے اپنی درخواست میں شاہ بانو مقدمے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مقدمے کے بعد عام تاثر اور تقاضہ یہ ہے کہ خود مسلمان اپنے قوانین میں ترمیم اور یکساں سول کوڈ کے لئے پہل کریں۔( اس موقف پر بڑی شدت سے افسوس کے ساتھ خیال آتا ہے کہ اگر 1937 میں مسلم پرسنل لا (شریعت ) ایپلیکیشن ایکٹ پاس ہو جانے کے بعد مسلمان ایک متفقہ شریعت منضبط کر لیتے تو آج اسے پیش کرتے ہوئے بجا طور سے کہا جا سکتا تھا کہ لیجیے یہ ایک مثالی ضابطہ ہے اسے اختیار کر کے پورے ملک پر لاگو کر دیجیے)۔ صاف ظاہر ہے کہ حکومت کی پالیسی اس سنگین مسٔلے پر ایک ڈھول کی حیثیت رکھتی ہے جس سے صرف شور برآمد ہوتا ہے۔ سرکاری حلف نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لا کمیشن تمام stake holders یعنی اس مسٔلے سے متعلق اور متاثر فریقین سے بحث و مذاکرات کر کے سول کوڈ وضع کرنے کے امکانات پر غور کرے گا ۔ یہ معاملہ نہایت حساس ہے اور ملک میں جتنے عائلی قوانین ہیں ان سب کا مطالعہ کرنا پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔ حکومت لا کمیشن کی رپورٹ آنے پر ہی فیصلہ کرے گی، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس نکتے پر لا کمیشن کی رپورٹ وہ نو من تیل ہے جس کے بغیر رادھا ناچ نہیں سکتی ،اور وہ نو من تیل کبھی ہو گا نہیں۔یکساں سول کوڈ کا مسٔلہ تو ہندو راشٹر کے قیام میں بھی بہت بڑی رکاوٹ سمجھئے۔کیسے ؟ درج ذیل نکات پر غور کیجیے:
تمام عائلی قوانین یا تو مذہب سے ماخوذ ہیں یا کلچر یعنی ثقافت اور رسوم و رواج سے۔ہندو قوانین کا تو سب سے بڑا سقم ہی یہ ہے کہ شادی،طلاق،وراثت یا سرپرستی وغیرہ کے قوانین سے متعلق کسی تنازع میں اگر فریقین یا ایک فریق یہ دعویٰ کرے کہ اس کے خاندان میں رائج رسم،رواج یا روایت زیر بحث قانون سے متضاد ہے تو اس معاملے میں وہ رسم ،رواج یا روایت حاوی ہو کر فیصلے کی بنیاد بنے گی نہ کہ قانون۔ہندو معاملات میں رواج (custom ) کے آگے قانون بے معنی ہے۔
ہندو راشٹر کا خاکہ یا خواب ساورکر کے ذریعے وضع کردہ ’ہندوتو‘ کے تصور پر مبنی ہے،لیکن ساورکر خود نہ صرف لا مذہب تھا بلکہ اس نے ہندوتو کو ہندو ازم سے ممیّز کیا ہے اور یہاں تک کہا ہے کہ ہندو تو کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ہندوستان کو ’تکثیریت میں اتحاد‘ یعنی unity in diversity کی بہترین مثال کہا جاتا ہے اور اس وصف پر ہر ہندوستانی کو بجا طور سے فخر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندو راشٹر کا مذہب کیا ہو گا (ساورکر کے عقیدے کی روشنی میں) ہندو راشٹر سیکولر تو ہو نہیں سکتا کیونکہ سیکولرازم سے آر ایس ایس کو نفرت ہے۔لا کمیشن اگر یکساں سول کوڈ وضع کرنے بیٹھے تو کون سے مذہب یا ثقافت پر اس کا خاکہ بنائے گا۔ہندوتو والے ویدک دھرم کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور آر ایس ایس کے ایجنڈے میں واضح طور سے درج ہے کہ ’منو سمرتی‘ ہندو راشٹر کا آئین ہو گا۔ (حالانکہ منو سمرتی خدائی قانون تصور کیا جاتا ہے،یعنی بات مذہب کی ہی آگئی)لیکن منو سمرتی میںپیدائشی ذات کے نظام پر مبنی معاشرے کا خاکہ اور مجوزّہ طبقاتی رویوں کی خلاف ورزی کے لئے تعزیرات مقرر کی گئی ہیں۔عائلی قوانین کا فی نفسہ کوئی ذکر نہیںاور منو سمرتی پر مبنی قوانین کا ’یکساں‘ اطلاق تو ممکن ہی نہیںکیونکہ اس میں اعلیٰ ذات برہمنوں کو معاشرے میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے جن کے لئے قوانین بھی مختلف ہوں گے۔ہندو راشٹر میں چاروں ’ورن ‘یعنی ذاتوں کے لئے الگ الگ قوانین بنانے پڑیں گے ورنہ منو سمرتی کا نفاذ کیسے ہو گا۔یکساں سول کوڈ کے معاملے میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہندو عائلی قوانین مرتب کرتے وقت سکھوں،بدھسٹوں اور جین حضرات کو قانونی مقاصد کے لئے ’ہندو‘ شمار کیا گیا تھا لیکن یہ سب فرقے علی ا لاعلان کہتے ہیں کہ وہ ہندو نہیں ہیں اور عدالت میں ان کے عائلی تنازعے ان کے اپنے رسوم و رواج کی روشنی میں فیصل ہوتے ہیں۔جنوبی ہندوستان کے بعض علاقوں اور تمام شمال مشرقی ریاستوں کے عائلی قوانین اس قانون سے مختلف ہی نہیں خلاف ہیں جسے بقیہ ہندوستان میں ’ہندو لا‘ ( ہندوؤں کا قانون)کہا جاتا ہے۔اس صورتِ حال میں یکساں سول کوڈ ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ نہیں لگتا۔مزے کی بات یہ ہے کہ دلّی ہائی کورٹ میں دائر مفادِ عامّہ کی عرضی کے ساتھ داخل کی گئی چار درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ ملک کو ’ فوری طور سے‘ یونیفارم سول کوڈ کی ضرورت ہے لہٰذا عدالتی کمیشن مقرر کیا جا کر کوڈ وضع کیا جائے۔اب ان سے یہ کون پوچھے کہ عدالت پر کیا آسمان سے یکساں سول کوڈ نازل ہو جائے گا۔
[email protected]
یکساں سول کوڈ: نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS