یکساں سول کوڈآئین کے خلاف عدلیہ مذہبی اصطلاحات کی تشریح سے گریز کرے

0

محمد عمران
کانپور (ایس این بی) : یکساں سول کوڈ ہندوستانی آئین کے خلاف ہے، شرعی معاملوں میں عدالتیں اپنی طرف سے اصطلاحات کی تشریح سے گریز کریں، تبدیلیٔ مذہب کے حوالے سے جن بے قصوروں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کی رہائی جلد از جلد کی جائے۔ سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے پر قدغن لگائی جائے ۔ تریپورہ کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ یہ مطالبات مسلم پرسنل لاء بورڈ کے دوروزہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے ذریعہ بورڈ کے ذمہ داران نے کئے۔ اس موقع پر اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں مسلمانوں کو مکی زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی طے کرنے اور آپسی فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد کی تلقین کی گئی ہے۔
اجلاس کے اختتام پر صحافیوں سے بورڈ کے ممبر قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ہندوستان کثیر مذہبی ملک ہے اسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کا دستور بنایا گیا ہے اور ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اس کی دعوت دینے کا حق دیا گیا ہے۔ ایسے بڑے ملک اور کثیر مذہبی سماج کیلئے یکساں سول کوڈ نا مناسب ہے اور مفیدبھی نہیں۔ ہندوستان میں اس طرح کی کوشش دستور میں دئے گئے بنیادی حقوق کے بھی خلاف ہے۔ اس لئے حکومت ملک پر براہ راست یا بالواسطہ اور کلی یا جزوی کامن سول کوڈ مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے۔ یہ ہرگز بھی قابل قبول نہیں۔ گیان واپی مسجد اور شاہی عیدگاہ متھرا کے سلسلے میں انہوںنے کہا کہ کچھ فرقہ پرست عناصر خاص طور پر ہندو مہاسبھا کی جانب سے جو شر انگیزی کی جا رہی ہے اور جس طرح ماحول کو خراب کرنے اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے مسلمانوں کے خلاف نفرت و بغض و عناد پر مبنی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے سوشل میڈیا پر زہریلی، نفرت آمیز اور اشتعال انگیز تقاریر اور مواد پوسٹ کئے جارہے ہیں۔ اس لئے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ہو رہی فرقہ واریت اور اشتعال انگیزی کو روکا جائے اور ایسے شر پسند عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ انہوںنے بتایا کہ اجلاس میں اس پر بھی تجویز پاس کی گئی کہ مذہبی احکام اور کتابوں کا تعلق عقیدہ یقین سے ہے۔ اسلئے اسکی تشریح کرنے کا حق ان ہی لوگوں کو ہے جو اس مذہب پر یقین رکھتے ہوں، اس مذہب سے واقف ہوں۔ مذہبی کتب اور اصطلاحات کی تشریح کے اہل سمجھے جاتے ہوں۔ حکومت یا عدالت کو اپنے طور پر مذہبی کتابوں یا مذہبی اصطلاحات کی تشریح کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس لئے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت اور عدلیہ ایسے کسی بھی کام سے گریز کرے۔ دستور ہند میں ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی کا جو حق دیا گیا ہے اس میں مذہب کی تبلیغ بھی شامل ہے اگر کوئی شخص جبر و دباؤ اور مالی تحریص کے بغیر اپنے مذہب کی خوبیوں کو بتا کر تبلیغ کرتا ہے تو اس کی اجازت ہے۔ مسلمانو ںنے اس ملک میں کبھی بھی تبلیغ مذہب کیلئے جبر و دباؤ کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہزار سال اقتدار میں رہنے کے باوجود مسلمان ہمیشہ یہاں اقلیت ہی میں رہے۔ حالیہ دنوں میں بعض لوگوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔ انہوںنے پولیس کے سامنے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ انہیں زبردستی مسلمان بنا دیا گیا لیکن پھر بھی تبلیغ مذہب کا کام کرنے والوں پر جھوٹے مقدمات درج کئے گئے۔ یہ واضح طور پر دستور کی خلاف ورزی اور لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ اسلئے مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت کسی بھی گروہ کے بنیادی حقوق میں مداخلت کرنے سے باز رہے اور جو لوگ بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار ہیں انہیں فی الفور رہا کیا جائے۔ پریس کانفرنس کے دوران مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا فضل رحیم مجددی، مولانا محفوظ رحمانی، مولانا یاسر عثمانی، مولانا خالد رشید فرنگی محلی، نکہت پروین وغیرہ موجود تھے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS