مسلم سیاست کے ناقابل فراموش مسائل

0

عمیر انس
اگرچہ ملک میں مظالم ہوں، حکومت، سیاست، پولیس، کسی سے بھی زیادتی ہو لیکن عدلیہ ہر ایک شہری کی سب سے آخری امید ہوتی ہے۔ لیکن سبھی جانتے ہیں کہ متعدد اسباب سے عدلیہ کا مظلوم کی دادرسی کرنے والا کردار بہت کمزور ہونچکا ہے اور طاقتور افراد کے لیے عدلیہ سے راحت حاصل کرنا پہلے کے مقابلے میں بہت آسان ہو گیا ہے، آپ کوئی ایک فہرست بنائیں جس میں ایک۔ہزار مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کے جرائم کے مقدمات میں کاروائی کے مراحل درج کریں اور اسی قسم کے جرائم میں غیر مسلم۔شہریوں کے مقدمات کی پروگریس دیکھیں، ضمانت حاصل کرنے سے لے کر سزائیں ملنے تک سارے معاملات میں عدالت کی رفتار بڑی عجیب اور غیر مطمئن نظر آتی ہے، یہ کسی بھی مہذب معاشرے کے باقی رہنے کے لیے کسی خطرے کی علامت ہے اور اس کا شکار محض مسلمان نہیں بلکہ کمزور طبقات کے ہندو بھی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ مسلم۔سیاست عدلیہ کو زیادہ شفاف اور زیادہ مظلوم دوست بنائے بغیر ممکن ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم جیسے سنگین جرائم میں بھی عدلیہ کہ رویہ بیحد تشویش ناک نظر آتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کی غیر سیاسی تنظیموں میں قانونی بیداری اور سرگرمی میں اضافہ ہوا ہے لیکن عدل و انصاف ایک بنیادی حق کے طور پر ایک سیاسی موضوع۔بنائے بغیر انصاف حاصل۔کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ عدالت سے ملنے والی نا انصافی کو کہیں بھی بدلہ نہیں جا سکتا۔ عدلیہ کو درست کرنے کا ایجنڈہ صرف مسلمانوں کے مسائل سے وابستہ نہیں ہے بلکہ عدلیہ میں ججوں اور دیگر عمل کی انتہائی درجے کی کمی، پروفیشنل وکلاء کی قلت، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زمانے میں قانونی مسائل میں بیس بیس سال لگنے والا ظالمانہ طرز عمل جیسے بہت سے معاملے ہیں جو عدلیہ کے گرتے معیار اور اعتبار کی وجہ ہیں اور مسلم عوام ہر اعتبار سے کمزور ہونے کی وجہ سے اس کی پہلی شکار ہے، ورنہ کسی بھی مہذب ملک میں بیس بس سال۔جیلوں میں گزارنے کے بعد سنگین الزامات سے بری کئے جانے کے بعد عدالتیں ان کو ضروری راحت اور انصاف فراہم کرنے کے احکامات جاری کرتی۔آج مسلمانوں کی سیاسی تقریروں اور سیاسی سرگرمیوں میں عدل اور انصاف کے اداروں کو بہتر اور شفاف بنانے کی مضبوط گفتگو کا فقدان ہے۔ یہ فقدان کوئی اتفاق نہیں نہیں بلکہ سیاسی ایجنڈے کو طاقتور بنانے میں غفلت کی وجہ سے ہے اگر عدلیہ یقیناً انصاف دینے میں ناکام ہے تو اس کو غیر مسلم۔سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کی گفتگو کا بھی موضوع بننا چاہیے اور جب جب وہ مسلمان ووٹ کے طلبگار ہوں تو انہیں یہ احساس ہو کہ انہیں مسلمانوں کے درمیان بات کرتے ہوئے محض ٹوپی اور شیروانی سے نہیں بلکہ اس موضوع پر اطمینان بخش جوابات دیکر ہی مطمئن کیا جا سکتا ہے اور ان کا ووٹ لیا جا سکتا ہے۔
مسلمانوں کے لیے ایک عام شہری ہونے کا حق عملاً کمزور کرنے والے اداروں میں پولیس، عدلیہ کے علاوہ انتظامیہ یا بیوروکریسی بھی ہے. اس ملک میں بیوروکریسی بجائے خود ایک نظام ہے جو حکومت کے تابع ہونے کے باوجود کافی حد تک پارٹیوں اور افراد کے جانب دارانہ رویے سے بلند ہوکر کام کرنے کے لئے زمہ دار ہے، کافی حد تک انتظامیہ اپنے اس غیر جانب دار کردار کو بنائے رکھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اسکے باوجود ایک مسلمان کا انتظامیہ کے پاس جاکر اپنا حق حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا ایک غیر مسلم کے لیے آسان ہے اور غیر مسلموں میں۔بھی ایک دلت کے لیے اتنا آسان نہیں جتنا ایک اونچی برادری کے ہندو کے لیے آسان ہے۔ ایک مہذب شہری نظام کے لیے انتظامیہ کا تمام تعصبات سے بلند ہوکر عوام کی خدمت کرنا شرط اول ہے لیکن اس معاملے میں ملک کی انتظامیہ کے پرفارمنس کے سلسلے میں متعدد رپورٹس موجود ہیں جو انتظامیہ میں تعصب ایک پریکٹس کے طور پر برتنے کو ثابت کرتے ہیںاگرچہ مسلمانوں کی تنظیمیں انتظامیہ کی طرف سے جانب داری کے واقعات اور حقائق کو جمع کرنے اور اس کی بنیاد اور گفتگو کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں لیکن موجودہ حالات میں اب ثابت ہے کہ ایک بہتر جمہوری نظام کے لیے شہریوں کے اپنے حقوق سے محروم کرنے والے ہر ادارے کی کمزوریوں کو قلمبند کرنا اور انہیں سبھی قانونی اور سیاسی پلیٹ فارمس پر پیش کرنا انتہائی ضروری ہے۔ بس کروڑ مسلمانوں کے کسی ایک ضلع کے بارے میں بھی شاید ایسی رپورٹ موجود نہیں ہے کہ وہاں مسلمانوں کو حکومت سے منظور شدہ اسکیموں سے فائدہ اٹھانے میں کی کیا رکاوٹیں ہیں اور ان رپورٹوں کی بنیاد پر وہ اپنے ممبر اسمبلی اور ممبر پارلیمنٹ اور ان کی پارٹیوں کے سامنے انتظامیہ کے تعصب کا سد باب کرنے کا مطالبہ کریں۔
اس سلسلے کا آخری موضوع جو مسلم سیاست میں پوری شدت سے موضوع بحث بنایا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ مسلمان بطور شہری اس ملک کا دستور باقی سبھی شہریوں کی طرح انہیں بھی انسانی حقوق اور کرامت کے ساتھ رہنے کا حق ڈیٹا ہے لیکن اس وقت ملک میں مسلمانوں کو غیر مسلم شہریوں کے سامنے انتہائی قابل نفرت معاشرہ بنا کر پیش کر دیا گیا ہے۔ اس ملک میں انتہائی درجہ کی نفرت کی فیکٹری کام کر رہی ہے جو سوشل میڈیا سے لیکر واحتساب گروپ اور ٹیلی ویژن پر مسلمانوں کو شیطان بنا کر پیش کر چکا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی بھی گلی اور راستے میں کسی مسلمان کو اگر تشدد کا نشانہ بنایا جائے تو ایک۔بھی شہری ان کے دفاع کے لیے کھڑا ہونے کی بجائے وہ بھی اس جرم میں شامل ہونے کو حب الوطنی کا تقاضا سمجھے، نفرت کی یہ شدت عام انسانی رویہ میں نا ممکن ہے اور یہ نفرت مشینی سطح پر جان بوجھ کر اور سیاسی سرپرستی میں پھیلائی جا رہی ہے۔ اس نفرت پر عدلیہ اور پولس کا رویہ مایوس کن ہے، ایسے میں مسلمانوں کی سیاسی سرگرمیوں کو اس طرح سے منظم کیا جائے کہ ہر سیاسی جماعت خواہ بی جے پی ہی کیوں نہ ہو اسے نفرت کے خلاف ایک موقف لینا پڑے۔ سبھی سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی پروگرام میں اور تقریروں میں نفرت کے خلاف واضح موقف لینے پر مجبور ہوں۔ بہت سے سادہ لوح مسلمان سمجھتے ہیں کہ نفرت اور فرقہ پرستی کے خلاف جلسوں اور تقریروں کی ضرورت مسلمان محلوں اور مسلمان تنظیموں کو ہے حالانکہ ضرورت اس کے بر خلاف غیر مسلم لیڈروں کو غیر مسلم محلوں میں غیر مسلم۔مقررین کے ذریعے نفرت کے خلاف تقریروں کی ہے، جو کوئی جماعت نہیں کر رہی ہے، یہ مسلم سیاست میں موثر ایجنڈہ سازی کی ناکامی کی ایک اور مثال ہے۔
عجیب بات ہے کہ مسلم۔ووٹ اتنے سستے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی رہنما ہر انتخاب میں محض ایک۔مدرسہ، درگاہ، کی زیارت کرکے، ٹوپی پہن کر افطار کرکے مسلمان ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کہ یقین رکھتا ہے، وہی رہنما۔ہندو علاقوں میں جاتا ہے تو اْسے سڑک اور نالی کی مرمت سے لے کر پچاسوں مطالبات پر واضح بات کرنی پڑتی ہے، اس سیاست کو بدلے بغیر مسلم سیاست بے معنی ہے، اگر آپ کی سیاسی قیمت اتنی سستی ہے تو پھر آپ ملک میں سیکنڈ کلاس کے شہری بننے کے لیے تیار رہیں جو قانون اور دستور کے سامنے مساوات کی بجائے رحم اور بھیک پر قائم ہوگی۔ لہٰذا ہندوستانی سیاست میں مسلم سیاست کے موضوعات اور ان کے ایجنڈے میں اہم موضوعات کو شامل۔کرنا اور انہیں تمام پارٹیوں کے سامنے اہم باور کرانا اور تمام سیاسی مذاکرات میں سب سے پہلے انہیں موضوعات پر گفتگو ہونا ضروری ہو ملک کے انگریزی اور ہندی اخبارات میں شائع مسلمانوں کے سلسلے میں شائع تمام مضامین کا ایک جائزہ کرکے محسوس ہوتا ہے کہ اْوپر ذکر کیے گئے مسائل سال میں ایک۔بار بھی قابل ذکر نہیں ہیں باقی افطار اور عرس کی خوبصورت تصویروں سے مطمئن ہوکر اپنا ووٹ کسی کے نام کرنا سیاسی خود کشی سے کم نہیں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS