سائنسی علوم کاداعی ٔ اول:قرآن حکیم ہے

0

ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی
قرآن ہی اس نورِ تحقیق کامنبع ہے۔ اگر قرآن تحقیق کی یہ ضیائیں نہ پھیلاتاتوقافلۂ انسانیت تار یکیوںمیں بھٹکتارہتا۔یہ بات توہر شخص جانتاہے کہ قرآن حکیم کوئی سائنس کی کتاب نہیں بلکہ دین واخلاق اور شرعی قوانین کی کتاب ہے، لیکن ضمناً اس میں فطرت کی تمام نیرنگیوں اور مختلف علوم وفنون کے حقائق معارف کاتذکرہ موجودہے جس کوہر علم وفن کاماہر گہری نگاہ اور عمیق نظر ڈالنے سے معلوم کرسکتاہے بلکہ بعض دفعہ اس کی عظمت وجلال کے نقوش اس پر اس طرح مرتسم ہوتے ہیں کہ وہ حیرت زدہ اور مبہوت ہوکر رہ جاتاہے۔
جس ہستی نے اس کائنات کوتخلیق کیااور جوذات اس کوعدم سے وجودمیں لائی اس ہستی اور ذات نے اس کلام برترکوبھی نازل فرمایااور ان دونوں میں اس قدر مطابقت، ہم نوائی اور ہم آہنگی رکھی کہ مختلف علوم وفنون کے ماہرین جب ایک طرف کائنات پر نگاہ ڈالتے ہیںاور دوسری طرف قرآن حکیم کامطالعہ کرتے ہیں تو ان کے لیے مختلف علوم کے اسرار ورموز کاایک دروازہ کُھل جاتاہے جس سے جھانک کر انہوں نے ان علوم وفنون کے مختلف اصول وضوابط وضع کیے۔ اگریہ کہاجائے تویہ نہ تو مبالغہ ہوگااور نہ ہی کذب کہ قیامت تک جتنے بھی علوم و فنون خصوصیت کے ساتھ نظام کائنات کے متعلق وجودمیں آتے جائیں گے اور ان کی جو بھی تحقیق ہوتی جائے گی ان کی تمام تفصیلات کوقرآنی اشارات کے ذیل میں لایا جاسکتاہے اور حدیث میں جو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے وہ کس قدر درست اور صحیح ہے کہ :
مفہوم:’’قرآن حکیم کوجتنی بار پڑھاجائے یہ پرانا نہیں ہوتا، اس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے، یہ حق وباطل میں فیصلہ کرنے والی کتاب ہے، یہ مذاق نہیں ہے، علماء اس سے سیر نہیں ہوتے اور اس سے خواہشات نفسانی میں کجی پیدانہیں ہوتی۔‘‘
قرآن حکیم کائنات اور نظام کائنات کاامین ہے :
بہرحال قرآن حکیم کے مطالعہ اور کائنات پر تفکر وتدبر کی وجہ سے ایک ہمہ دان اور ہمہ بین ہستی کاوجودثابت ہوتاہے اور پتہ چلتاہے کہ قرآن حکیم اس کائنات اور نظام کائنات کاامین ہے۔ چنانچہ خود قرآن میں کئی جگہ فرمایاگیا :
مفہوم:(سورہ النحل، ۸۹) ۲؎’’اور ہم نے آپ پروہ کتاب نازل کی جو ہرشی کی خوب وضاحت کرنے والی ہے۔‘‘
اور ایک جگہ پر ارشاد فرمایا :
مفہوم:(سورہ النمل،۷۵) ۳؎’’اور زمین وآسمان کاکوئی ایسا راز نہیں ہے جو اس کتاب مبین میں موجودنہ ہو۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
مفہوم: (حم سجدہ:۵۳) ۴؎’’اور ہم (ان منکرین حق کو) ایسے نشانات دکھادیں گے، اطراف عالم میں بھی اور خودان کی اپنی ہستیوں میں بھی، تاآنکہ اس کلام کی حقانیت ان پر واضح ہوجائے۔ کیایہ بات ان کی (تسلّی وتشفّی کے لیے) کافی نہیں ہے کہ تیرا رب (اس کائنات کی) ہر چیز سے واقف وآشناہے۔‘‘
قرآنی تقاضا ہے کہ انسان مظاہر کائنات پر غور کرے :
ان آیات اور ان کے علاوہ قرآن حکیم کی اور کئی آیات اس بات کاتقاضا کرتی ہیں کہ انسان مظاہر کائنات اور کائنات پر غور وفکر کرے۔ چنانچہ جن لوگوں نے علوم جدید اور سائنس میں کمال حاصل کیا ہے وہ جب قرآن حکیم پر گہری نگاہ ڈالتے ہیں تونہ صرف ان کواس کامعجزہ ہوناصاف نظر آتاہے بلکہ ان پر سائنس اور علوم جدیدہ کے اسرارومعانی بھی منکشف ہوتے ہیں جو قرآن حکیم کے علاوہ کسی اور کتاب میں انہیں نظر نہیں آتے۔ کائنات اور نظام کائنات کے بارے میں ان حقائق کوقرآن حکیم میں بیان کرنے کی غرض وغایت حضرت شاہ ولی اللہ کی اصطلاح میں ’’التذکیربآلاء اللہ‘‘ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی نوازشات اور مظاہر کائنات کے ذریعہ تذکیر وانتباہ تاکہ یہ مغرور اور باغی انسان اپنی باغیانہ روش سے باز آجائے اور نیکی اور خداپرستی کاراستہ اختیار کرلے۔ ۵؎
مختصریہ کہ قرآن حکیم کی مختلف آیات میں کائنات اور نظام کائنات کے علوم ومعارف کاایک بحر محیط موجزن ہے، اور ہر دور کے تقاضوں کے مطابق نئے نئے حقائق منظر عام پر آرہے ہیں۔ پھر قرآن حکیم کی آیات کی غرض وغایت اور سب سے بڑھ کر ان کا اچھوتا،دل نشین اور سحر انگیز اسلوب بیان یہ سب ایسے اُمور ہیں جن سے ذوق ووجدان رقص کرنے لگ جاتے ہیں اور عقل بے ساختہ پکار اٹھتی ہے کہ یہ یقیناً کلام الہٰی ہے۔
سائنسی ترقی کاعروج :سائنس کا اس وقت دنیا میں دور دورہ ہے۔ انسانیت نے سائنس کے میدان میں ہر شعبہ میں ترقی کی نئی نئی راہیں تلاش کی ہیں، اور اب بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ انسان اب پرندوں کی طرح ہوامیں اُڑنے لگااور مچھلیوں کی طرح سمندر کی تہوں میں تیرنے لگا۔ اسی سائنس کاایک شعبہ حیاتیات(Biology)بھی ہے جس کا مطلب ہے ’’زندگی کاعلم‘‘ یعنی (The Science of Life) بیالوجی کی دوبڑی شاخیں ہیں۔ ایک علم نباتات(Botany) اور دوسرا علم حیوانات (Zoology) ۔ پھر ان میں سے ہر ایک کی کئی شاخیں ہیں۔ تمام حیوانات اور نباتات میں سے ہر نوع کاایک مخصوص طرز پیدائش، افزائش نسل، نشوونمااور بڑھاپااور موت کے مخصوص اطوار ہوتے ہیں۔جس کے مطابق وہ اپنی طبعی اور فطری زندگی گزارتاہے۔ تمام حیوانات ونباتات کے اجسام کانشوونما اور اس کی بڑھوتری وافزائش ایک مسلسل کیمیاوی عمل کے تحت خلیوں (Cells) میں انجام پاتی ہے۔ اس عمل کے ذریعہ ہر خلیہ مسلسل دو دوحصّوں میں تقسیم ہوتااور اپنی جگہ پر مکمل خلیہ بنتاچلاجاتاہے۔ تمام حیاتیاتی اجسام کی افزائش اسی طرح ہوتی رہتی ہے۔ اس عمل کونظام تحول(Metabolism) کہاجاتاہے۔ اگرچہ حیوانات کی طرح نباتات بھی حساس ہوتے ہیں لیکن حیوانی دنیا میں نظام عصبی(Nervous System) بہت ترقی یافتہ ہے نباتاتی دنیا میں یہ نظام نہایت ادنیٰ درجے کاہے۔
اسلام کی خصوصیت نوع انسانی سے خالق کائنات کاتعارف :
اس بارے میںمزید گفتگو کرنے سے قبل یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ چیز اسلام کی خصوصیت میں سے ہے کہ وہ نوع انسانی سے خالق کائنات کاتعارف’’رب‘‘کی حیثیت سے کراتاہے تاکہ خالق کائنات کی تعظیم وتقدیس اس کی ربوبیت کی بناء پر کی جائے۔ یہ ایک عقلی دلیل بھی ہے اور روبوبیت سے الوہیت پر استدلال بھی۔ دعوت کایہ طریقہ کسی اور مذہب میں نہیں ہے اور یہ طریقہ بالکل فطری اور عقلی بھی ہے۔
’’رب‘‘ کے لغوی معنی توہیں ’’انشاء الشی ئٍ حالا فحالا فحالا إلیٰ حدالتمام‘‘ ۶؎ یعنی کسی چیز کودرجہ بدرجہ حدکمال تک پہنچانا۔ اور یہ مفہوم جدید سائنسی علوم کی روشنی میں نہ صرف حیوانات ونباتات پر صادق آتاہے بلکہ عالم جمادات اور عالم سماوات پر بھی پوری طرح صادق آتاہے۔ معلوم ہواکہ رب وہ ہے جوایک ننھے سے ایٹم سے لے کر سیاروں تک کی مخلوقات کواس کے فطری اور طبعی ضوابط کے مطابق نشوونمادینے والااور ہر ایک کوبتدریج حدکمال تک پہنچانے والاہے۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے توتمام مخلوقات اپنی نشوونمامیں اس کی محتاج اور دست نگر ہیں اور وہ سب پر غالب اور حکمران ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :
مفہوم:(سورہ روم:۲۶) ۷؎
’’زمین اور آسمانوں میں جوکچھ ہے سب کامالک وہی ہے اور سب اسی کی بارگاہ میں جھکے ہوئے ہیں۔‘‘قرآن حکیم کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کاذکر ہے وہاں اس نے مخلوقات کی بڑھوتری اور نشوونماکاایک مخصوص فطری اور طبعی ضابطہ بھی بیان کیاہے پھر ہر ایک کواس ضابطہ کے عین مطابق چلنے کی توفیق بھی دی ۔ وہ طبعی اور فطری ضابطہ کیاہے؟ تخلیق، تسویہ، تقدیر اور ہدایت۔ اس کواللہ تعالیٰ نے مختلف آیات میں بیان فرمایا، لیکن سورۃ الاعلیٰ میں ان چاروں چیزوں کواکٹھابیان فرمایا:
مفہوم:(سورہ الاعلیٰ:۱۔۳) ۸؎’’پاکی بیان کر اپنے رب کے نام کی، جس نے پیداکیا پھر درست کیا، جس نے مقرر کیا پھر راہ بتلائی۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا :مفہوم:( الانفطار:۶۔۸) ۹؎
’’اے انسان کس شی نے تجھے دھوکے میں ڈالااپنے رب کریم کے بارے میں ، جس نے تجھ کوعدم سے وجودبخشا، پھر (تیرے انسانی اعضاء کوپورے تناسب کے ساتھ) درست کیا۔ پھر (تیرے مزاج اور تیری خصلتوں اور تیرے جسم میں کار فرماباطنی اور ظاہری نظاموں کو)معتدل بنایااور جس صورت میں چاہاتجھ کوڈھال دیا۔‘‘ان آیات کے علاوہ اور بھی کئی آیات ہیں جن میں ان چار چیزوں کو بیان فرمایا تاکہ لوگوں کواس کی ربوبیت کے فطری ضابطہ کاعلم ہو۔
نظام تخلیق :خلق کے معنی ہیں کسی چیز کوسابق مثال کے بغیر عدم سے وجودمیں لانا۔ لسان العرب میں ابوبکر ابن الانباری کاقول نقل کیاگیاہے کہ کلام عرب میں’’خلق ‘‘ کی دوصورتیں ہیں :
(۱)کسی شے کوانوکھے طریقہ پر وجودمیں لانے کے بعدپھر اسی سابقہ طرز پر پیداکرتے رہنا۔
(۲)اندازہ کرنا۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :
مفہوم:(المومنون:۱۴) ۱۰؎
’’یعنی اللہ بہترین کااندازہ کرنے والاہے۔‘‘
خلاصہ یہ کہ خلق کااطلاق تین معنوں پر ہوتاہے۔
(۱)کسی سابقہ مثال کے بغیر کسی چیز کوعدم سے وجودمیں لانا۔
(۲)کسی چیز کوعدم سے وجودمیں لاچکنے کے بعدپھر اسی مادے سے دوسری چیزیں پیداکرتے رہنا۔
(۳)اندازہ کرنا۔
آج انسان اس ترقی یافتہ زمانہ میں قریباً آٹھ لاکھ حیوانات اور چار لاکھ نباتات کے وجودکاپتہ لگاچکاہے لیکن کسی ایک نوع کے بارے میں بھی باوجوداس سائنسی ترقی کے وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتاکہ وہ اس نوع کاخالق ہے۔ خلاق عالم لاکھوں انواع حیات کوبغیر کسی سابق مثال کے وجودمیں لاچکاہے اور پھر ہر نوع کے لاکھوں کروڑوں افرادکوان کی تمام نوعی خصوصیات کے عدم سے وجود میں برابر لارہاہے لیکن حق تعالیٰ شانہ کے علاوہ اور کوئی ایسی ہستی اس کرہ اغبر پر یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ ایساکرسکتی ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم نے چودہ سو سال پہلے جودعویٰ کیاتھاوہ آج بھی صحیح اور صادق ہے کہ :
مفہوم:(الحج:۷۳) ۱۱؎
’’جن لوگوں کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو(ان کی حالت یہ ہے کہ) وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اگرچہ وہ سب اس کام کے لیے جمع ہوجائیں۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں شیخ الاسلام علامہ شبّیر احمدعثمانیؒ فرماتے ہیں :’’یعنی مکھی بہت ہی ادنیٰ اور حقیرجانور ہے، جن چیزوں میں اتنی بھی قدرت نہیں کہ وہ سب مل کر ایک مکھی پیدا کردیں، یا مکھی ان کے چڑھاوے وغیرہ میںسے کوئی چیز لے جائے تواس سے واپس لے لیں ان کو’’خالق السماوات والارضین‘‘ کے ساتھ عبودیت اور خدائی کرسی پر بٹھادینا کس قدر بے حیائی، حماقت اور شرم ناک گستاخی ہے۔ سچ تویہ ہے کہ مکھی بھی کمزور، مکھی سے زیادہ ان کے بت کمزور اور بتوں سے بڑھ کر ان کوپوجنے والاکمزور ہے جس نے ایسی کمزور اور حقیر چیز کواپنا معبوداور حاجت روابنالیا۔‘‘ ۱۲؎؎
آج پوری دنیا ئے سائنس مل کر بھی ایک مکھی یا مچھر پیداکرناتوبہت دور کی بات ہے اس کا ایک ادنیٰ درجہ کا جرثومہ بھی پیدانہیں کرسکتے۔اس طرح سائنس دانوں نے پیوندکاری (Grafting) سے مختلف رنگوں کے گلاب تو پیداکرلیے لیکن زمین کاایک ذرہ پوری دنیائے سائنس مل کر نہیں بناسکی۔
مفہوم:حجر:۸۶) ۱۳؎ ’’بے شک تیرا رب ہی خلاق اور ہمہ دان ہے۔‘‘
’’خلاق عربی زبان میں مبالغہ کاصیغہ ہے جس کے معنی ہیں’’الخالق خلقاً بعدخلق‘‘ یعنی ایک کے بعددوسری مخلوق پیداکرنے والا۔
جس سے پتہ چلا کہ حیوانات اور نباتات کی لاکھوں قسموں کوپیداکرنے والاتیرا رَب ہی ہے کیونکہ وہ’’خلق علیم‘‘ ہے، اس کے علاوہ پوری کائنات میں اورکوئی شخص خواہ وہ ایک ہویاپوری جماعت، کسی نوع کے خلق وآفرینش کادعویٰ نہیں کرسکتا، اور اگر کوئی یہ دعویٰ کرتاہے تووہ اپنے دعویٰ میں جھوٹاہے۔ چنانچہ قرآن حکیم نے واشگاف الفاظ میں کہا :
مفہوم:(رعد:۱۶) ۱۴؎’’کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ(کی خدائی میں) ایسے بھی شریک ٹھہرارکھے ہیں جنہوں نے اللہ کی تخلیق کی طرح کوئی تخلیق کردی ہوجس کی وجہ سے ان کو(ان دونوں قسم کی) تخلیقات میں التباس ہوگیاہو۔ آپ کہہ دیں کہ اللہ ہی ہر شی کاخالق ہے اور وہ اکیلااور قہار ہے۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں ان لوگوں کی بے بسی ان الفاظ میں ظاہر فرمائی :
مفہوم:(فرقان:۳) ۱۵؎’’ان لوگوں نے اللہ کے سوا( ایسے بے بسوںکو) معبودبنالیاہے جوکسی بھی شے کو پیدانہیں کرسکتے بلکہ وہ خود پیداکیے گئے ہیں (لہٰذا جو خود مخلوق ہووہ خالق کیسے ہوسکتاہے اسی وجہ سے) ان کونہ تو اپنے ذاتی نقصان اور نفع کاکوئی اختیار ہے، نہ موت کا، نہ زندگی کااور نہ دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا۔‘‘بتایاکہ اگرچہ ظاہری طور پر انسان مختار نظر آتاہے لیکن وہ اتنا بے بس، درماندہ اور عاجز ہے کہ اگرچہ وہ ستاروں پر کمندیں ڈال رہاہے، ستاروں کی گزرگاہوں کی تلاش میں ہے، لیکن اپنی بے بسی اور درماندگی کی وجہ سے وہ ایک مکھی اور مچھر جیسی حقیر شیٔ بھی پیداکرنے سے قاصر ہے بلکہ جرثومۂ حیات(Protoplasm) کی حقیقت کوسمجھنے تک سے عاجز اور بے بس ہے، تخلیق کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS