عہد رفتہ کی عیدوں کے ناقابل فراموش حقائق : ڈاکٹر مرضیہ عارف

0

ڈاکٹر مرضیہ عارف
(بھوپال)

اپنی ظاہری آنکھیں موند کر تصور کی باطنی آنکھیں کھولئے اور ذہن کی سطح پر اُبھرے 1400 سال قبل کے اس منظر کو دیکھئے یہ مدینہ منورہ ہے اسلامی حکومت کا پہلا دار السلطنت۔ پیغمبر اسلام ؐ کی جائے قیام آج یہاں صبح صادق سے ہی چہل ، پہل جوش وخروش اور مسرت و شادمانی کا ماحول پایا جاتا ہے۔ مدینتہ الرسوم بچوں کی چہلوں ، جوانوں کی تفریحوں اور بوڑھوں کے سنجیدہ مشاغل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔
خوشی کا یہ سمندر یہاں اس لئے لہریں مار رہا ہے کیونکہ مکہ کے تیرہ سالہ ظلم و ستم ، اپنوں کے طعنے ، غیروں کی تکلیفیں اور چھوٹے و بڑوں کی تضحیک و ملامت سے گذر کر مسلمانوں کو آزادی کے ماحول میں خوشی کے کچھ لمحات میسر آئے ہیں۔
صبح کا وقت ہے حضورﷺ مسجد نبوی میں فضائل عید اور احکام عید بیان فرما رہے ہیں، صحابی کرام ؓ محو نظارہ و دید ہیں کچھ دیر بعد سب اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں تاکہ غسل کر کے صاف و ستھرے لباس پہن کر رحمتہ للعالمین کی اقتداء میں عید گاہ کا رُخ کریں۔
اب عید گاہ میں ایک پاکباز و بر گزیدہ امام کی اتباع میں نماز عید ادا ہو رہی ہے پھر جیسے ہی سلام پھرنے کے بعد خطبۂ نبوی ختم ہو کر دعاء مکمل ہوتی ہے تو تکبیر وغلیل کی دھیمی مگر پُر وقار آوازیں ابھرنے لگتی ہیں۔
لیجئے عید گاہ سے واپسی ہو رہی ہے۔جبرائیل امین نورانی فرشتوں کی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ بارگاہ رسالتؐ میں اس روحانی کا استقبال کرنے اور مبارک باد پیش کرتے ہیں کیوں کہ آج مدینہ میں مسلمان پہلی عید منا رہے ہیں۔
ایک دوسرا منظر سامنے آتا ہے ۔ سارے مسلمان مدینہ منورہ کی عید گاہ پہنچ چکے ہیں مگر امیر المؤ منین ابھی تشریف نہیں لائے ہیں جن کا سب کو انتظار ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نہایت اضطراب کی حالت میں امیر المومنین کے حجرہ پر جاکر دستک دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’ جلدی کیجئے نماز کا وقت گزر ا جارہا ہے‘‘۔ مگر حجرہ سے جواب کے بجائے ہچکیوں کی آواز آرہی ہے ابو ہریرہؓ بار بار دستک دیکر پھر کہتے ہیں کہ ’’ اے امیر المومنین آج خوشی کا دن ہے رُونے کا نہیں‘‘ بالآخر جواب ملتا ہے ’’ اے ابو ہریرہ بے شک آج خوشی کا دن ہے مگر مجھ کو فکر ہے اپنے روزے نمازوں کی کہ بارگاہ رب العزت میں اُنہیں شرف قبولیت حاصل ہو ا یا نہیں؟ ان کی قبولیت کے بعد ہی میرے لئے یہ ساعتیں یوم مسرت ہیں ورنہ یہ رُونے اور فکر کرنے کا دن ہے ‘‘۔ یہ جملے ادا کرتے ہوئے امیر المومنین حجرہ سے باہر تشریف لائے اور آپ نے عید گاہ جاکر نمازِ عید الفطر کی امامت فرمائی ۔ یہ قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے والے خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کی عید تھی۔ذہن کی سطح پھر لرزتی ہے اور ایک نیا منظر ابھرتا ہے ۔
موسم گرما کی ایک رات ہے اسپین کی سرزمین پر ساحل سمندر سے کچھ ہی فاصلے پر ایک لشکر نہایت بے سرو سامانی کی حالت میں پڑاو ڈالے ہوئے ہے فضا پوری طرح خدشات و خطرات سے پُر ہے مگر اس لشکر کی بے فکری اور اعتماد کا یہ حال ہے کہ محافظ دستہ کے الائو کے سوا کہیں بھی زندگی کی ہما ہمی نہیں پورا لشکر نیند کے آغوش میں سو رہا ہے اس کے اوپر اس سمندر کی مرعوب اور پُر سکون ہوا ہلکورے لے رہی ہے جس کے سینے پر لشکر کے سردار کے حکم پر جالئے ہوئے جہازوں کے نیم جلے تختے اب تک تیر رہے ہیں ایک ہفتہ تک روزہ اور بھوک و پیاس کے عالم میں اس جانباز فوج نے داد شجاعت دی اور رمضان کے عین آخری دن ایک فیصلہ کن معرکہ میں اسپینی فوج کو شکست فاش دے کر اپنی کامیابی کے پرچم گاڈدئے ہیں جس سے صدیوں تک کے لئے اِس ملک میں اُن کا مستقبل محفوظ ہوگیا ہے اب صبح کو اندلس میں مسلمانوں کی پہلی عید ہے۔
یہ موسیٰ بن نصیر کے حبشی سپہ سالار طارق بن زیاد کی عید تھی۔
منظر پھر بدلتا ہے۔
اپنے وقت کی سب سے وسیع اور بڑی سلطنت جس کے حدود اربعہ اسپین سے چین تک، سندھ سے افریقہ کے صحرا تک پھیلے ہوئے تھے جو تجارت صنعت ،سائنس ، تمدن ، عسکری طاقت خُدا ترشی اور پر ہیز گاری میں اپنی مثال آپ ہے جس کی خوشحالی کا یہ حال ہے کہ زکوٰۃ لینے والے مستحق افراد ا س میں نہیں ملتے اتنی زبردست حکومت کے سربراہ عید کا چاند دیکھ کر نہایت متفکر سے بیٹھے ہیں کیوں کہ ان کے بچوں کے پاس عید کے لئے کپڑے نہیں۔ بیوی کی ترغیب پروہ بیت المال کے افسر کو قرض کی درخواست لکھتے ہیں مگر چند لمحوں کے بعد غلام درخواست کواس نوٹ کے ساتھ واپس کردیتا ہے کہ ’’ اے امیر المومنین ! آپ آنے والے مہینے تک قرض کی ادائیگی کے لئے زندہ رہیں گے اس کی ضمانت درکار ہے‘‘ تحریر پڑھ کر امیر المومنین سکتے میں رہ جاتے ہیں اور گلو گرفتہ آواز میں جزاک اللہ کہہ کر بیوی سے مخاطب ہوتے ہیں کہ ’’ بچوں کے پرانے کپڑے دُھولو انھیں کی عید کی شادمانی سے زیادہ باپ کی عاقبت کی فکر ہونی چاہئے‘‘۔
یہ اپنے زمانے کے سب سے معزز انسان اور سب سے پرہیز گار مسلمان عمر بن عبد العزیز ؓ کی عید تھی۔
تخیل پھر آوارہ ہوتا ہے۔ اپنے دور کے سب سے متمدن شہر سلطنت عباسیہ کے پایۂ تخت بغداد میں عید کا جشن جاری ہے ۔ طلائی طشتوں میں زربفت اور زرکار کے خوان پوشوں سے ڈھکے تحائف و انعامات کی ریل پیل ہے۔
خلیفہ بعد نماز عید اپنے تخت سلطنت پر بیٹھا حاضرین دربار سے عید کی مبارک باد قبول کر رہا ہے کہ دور دراز علاقہ کی ایک ہاشمی عورت دربار میں زار وقطار روتی اور فریاد کرتی حاضر ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ’’ خلیفہ رُومی شہنشاہ نے ہمیں تباہ کر دیا ہے اس نے ہمارے بچوں تک نہیں بخشا‘‘۔
عورت کی فریاد سنتے ہی خلیفہ بے چین ہوجاتا ہے اور برسرِ دربار قسم کھاتا ہے کہ وہ مسلمانوں پر ہوئے اِن مظالم کا ضرور بدلہ لے گا۔ جنگ کی تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں اور جلد خلیفہ رومی شہروں میں سے سب سے مستحکم شہر’’ عموریہ‘‘ کی اینٹ سے اینٹ بجاکر بدہ چکا دیتا ہے۔
دوسری عید آتی ہے اب خلیفہ کا دل پوری طرح مطمئن ہے کہ اس نے اپنا وعدہ وفا کردیا ہے یہ امیر المومنین ہارون رشید کے بیٹے معتصم باللہ کے دور کی عید سے وابستہ ایک جھلک ہے۔
تخیل کی پرچھائیا ں پھر متحرک ہوتی ہیں۔ برہان پور کے دربار میں جشنِ عید سنایا جارہا ہے۔ عرفی شیرازی قصیدہ پڑھنے کھڑا ہوا ہے ۔ پہلے ہی شعر پر پر فلک و شگاف داد آفریں کی صدائوں سے پورا دربار گونج اُٹھتا ہے رونق درباربے چینی سے مسند پر پہلو بدلتے ہوئے حکم دیتا ہے۔
’’ ہمارے خزانے کے سب سے بیش بہا موتیوں سے شاعر کا منہ بھر دیا جائے لاجواب مطلع ہے ‘‘ منہ بھرائی کی رسم ختم ہوتی ہے تو عرفی شکریہ ادا کر کے دوسرا شعر پیش خدمت کرنا چاہتا ہے مگر صاحب دربار کی باوقار آواز اسے روک دیتی ہے۔
ہمیں افسوس ہے کہ شاعر ہم مزید اشعار سے محظوظ نہیں ہوسکیں گے کیوں کہ ہم صرف دکن کے صوبے دار ہیں شہنشاہ ہندوستان نہیں۔ ہم تمہیں صرف ایک ہی شعر کا بدلہ دے سکتے ہیں اور وہ ہم نے سُن لیا ہے‘‘۔
یہ مغلیہ سلطنت کے تیسرے حکمراں اکبر اعظم کے ایک صوبے دار ابراہیم خاں خانخاں کی عید تھی۔
تصور کی سطح پر منظر پھر بدلتا ہے۔ میری رنگا پٹنم کی ایک کہر آلود شام ہے ۔ روزہ افطار کے بعد نمازِ مغرب کی امامت کرکے سلطان کی نگاہیں قلعہ کی بارہ دری سے ہلال عید کی جستجو میں سر گرداں ہیں لیجئے وہ29 ویں کا چاند نظر آگیا سلطان کے ہمراہ تمام مصاحبین بھی دعاء کے لئے ہاتھ اٹھا دیتے ہیں۔ پھر نزدیک کھڑے قاضی القضاۃ سے مشورہ کے بعد صبح عید منانے کا اعلان کردیا جاتا ہے اور سلطان مبارکباد و سلامت کے نعروں کے درمیان سے گزر کر نوافل کی ادائیگی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
درباری امراء میر صادق ، میر قمر الدین اور پُورنیہ قاضی صاحب کی اقتداء میں واپس ہوجاتے ہیں۔ بارہ دری کا زینہ طے کرتے ہوئے میر صادق معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ قاضی صاحب سے کچھ کہتا ہے جس کی نہایت مستعدی سے تائید میر قمر الدین کی جانب سے کی جاتی ہے آخر میں پورنیہ کی پاٹ دار آواز ایک زہر ناک استہزاکے ساتھ ابھرتی ہے۔
’’ دوستو ! فکر مت کرو یہ سلطان کی آخری عید ہوگی‘‘۔
یہ بے بدل انقلابی حکمراں شیرِ میسور سلطان ٹیپو شہید کی آخری عید تھی۔ تصورات کا اپنا ایک دائرہ مکمل ہو رہا ہے جس میں صبح کا اُجالا نصف النہار کی چمک اور شام کی پھیکی روشنی کے مناظر سامنے آچکے ہیں یعنی ابتداء اس کے بعد عروج اور پھر زوال کی منظر کشی آپ دیکھ چکے ہیں اب تاریک رات یعنی دربار کا آخری منظر نمودار ہوتا ہے۔
رنگون کی یخ بستہ صبح ہے موسم برسات کئی دن سے جاری ہے۔چار کمروں کے ایک دو منزلہ لکڑی کے مکان ہیں 16افراد نہایت کسمپرسی کی حالت میں قید و بند کی زندگی گذار رہے میں ان قیدیوں کا سربراہ ایک 86 سالہ نیم اپاہج بوڑھا ہے جس کی عمر گردشِ ایام کے بوجھ سے دوہری ہوتی جاری ہے اس جلا وطن خاندان سے ملا موسلی جی نامی ایک گجراتی ملنے آتا ہے اور اُنھیں خوشخبری دیتا ہے کہ آج رنگون میں عید منائی جارہی ہے ۔ ضعیف شخص کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسورواں ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنی دھند لائی آنکھوں کو کھڑکی سے باہر مرکوز کر دیتا ہے جہاں سپاہی کھڑے نہایت مستعدی سے اس قید خانہ نما عمارت کی نگرانی کر رہے ہیں۔ بوڑھے کے منہ سے ایک سر آہ نکلتی ہے اور وہ اپنے افراد خاندان کو عید کی تیاری کرنے کا حکم دے کر خود لکڑی کے تخت پر نیم دراز ہوجاتا ہے ۔ یہ ہندوستان پر 900 سال حکمرانی کرنے والے خاندان کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفرؔ کی عید تھی۔
ایک عید آج ہم منا رہے ہیں جس میں نہ کوئی اُبلتا ولولہ ہے نہ کوئی جوش و خرو ش اور نہ مسرت و شادمانی بلکہ چاروں طرف خود ہماری توہم پرستی اور زبوں حالی کا دور دورہ ہے مگر ہمارا جشن ِ عید جاری ہے ۔ کاش کہ اس کی نوعیت و کیفیت بدلنے کا احساس ہمارے دل میں جاگ جائے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS