کانگریس کا نیائے پتر اور بی جے پی

0

نیک و بد کی تمیز تو پہلے ہی مٹ چکی تھی، ا ب ذوق پرواز کی آرزو بھارتیہ جنتاپارٹی کو ان ہوائوں میں لے گئی ہے جہاں اس نے سمت کا احساس ہی کھودیا ہے ۔کانگریس کے انتخابی منشور کو مسلم لیگ کا عکس قرار دے کر وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی اسی بے سمتی کا اظہار کیا ہے ۔ لوک سبھا انتخاب 2024 کے سلسلے میں کانگریس کے اعلامیہ اور منشور کو جسے اس نے ’ نیائے پتر‘ کا نام دیا ہے، وزیراعظم نے جھوٹ کا پلندا قرار دیا اور کہا کہ جھوٹ کا یہ پلندا کانگریس کو بے نقاب کرنے والا ہے۔اس کے ہر صفحہ سے ہندوستان کے ٹکڑے کرنے کی بو آ رہی ہے۔کانگریس کے اعلامیہ میں وہی سوچ جھلکتی ہے جو سوچ آزادی کے وقت مسلم لیگ کی تھی۔ مسلم لیگ کے اس وقت کے نظریات کو کانگریس آج انڈیا پر تھوپنا چاہتی ہے۔مسلم لیگ کے عکس والے اس اعلامیہ میں جو بچا کھچا حصہ تھا، اس میں بائیں بازو کے لیفٹسٹ حاوی ہوگئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی کانگریس کے پاس نہ نظریات بچے ہیں، نہ اصول بچے ہیں۔ ایسا لگتا ہے پوری کانگریس پارٹی ٹھیکے پر دے دی گئی ہے۔اس کے بعد اپنے منفرد انداز تخاطب میں وزیراعظم نے بھائیوں اور بہنوںپریہ انکشاف بھی کیا کہ کانگریس کااعلامیہ ہندوستان کو پچھلی صدی میں دھکیلنے کا ایجنڈا ہے۔
راجستھان کے پشکرمیں اپنے فرمودات عالیہ سے وزیراعظم نے جس بے سمتی کو راہ دی تھی، اس پراب بھارتیہ جنتاپارٹی کی دوسری صف کی قیادت سر پٹ دوڑنے بھی لگی ہے۔ متانت، سنجیدگی اور اپنی تمام تر بردباری کو پرے دھکیلتے ہوئے راج ناتھ سنگھ جیسے سیاست داں بھی اسی راہ پر ہولیے اور کانگریس کے منشور کو ’ پس ماندہ دستاویز‘ ٹھہراتے ہوئے کہا کہ کانگریس کامنشور ہندوستان کو پیچھے لے جائے گا ۔اس کے برخلاف اب تک جاری ہونے والے این ڈی اے کے اعلامیہ میں انہیں 2047تک ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کی جھلکیاں بھی ہلکورے مارتی نظرآگئیں۔حسب توفیق بی جے پی کے دوسرے لیڈران نے بھی خوئے فتنہ و فساد اور فن بارودپاشی میں کمال ہنر کا مظاہرہ کیا لیکن یہ بتانے سے قاصر رہے کہ کانگریس کے منشور، اعلامیہ یا ’ نیائے پتر‘ کے مشمولات میں کون سی شق ایسی ہے جو ہندوستان کی ترقی معکوس کا سبب بنے گی ۔
حقیقت یہ ہے کہ ’ہاتھ بدلے گا حالت‘نعرے کے ساتھ ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس نے 2024 کے عام انتخاب کیلئے جو اعلامیہ جاری کیا ہے، وہ ملک کے عوام کو حصہ داری نیائے، یووا نیائے، ناری نیائے، کسان نیائے اور شرمک یعنی مزدور نیائے کے عنوان سے ’پانچ انصاف‘ کے ساتھ 25گارنٹی دیتا ہے ۔اگر دھیان سے مطالعہ کیاجائے تونیائے پتر کے 48صفحات میں تمام ایسے وعدے کیے گئے ہیں جس سے ملک کی ’کایاکلپ‘ممکن ہوسکتی ہے۔ ذاتوں اور ذیلی ذاتوں اور ان کے سماجی و اقتصادی حالات کی گنتی کیلئے ملک گیر سماجی، اقتصادی اور ذات پر مبنی مردم شماری اور اس کے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر مثبت ایکشن کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کیلئے ریزرویشن کی 50 فیصد کی تحدید ختم کرنے اورمعاشی طورپرکمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس) کیلئے ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں 10 فیصد ریزرویشن تمام ذاتوں اور کمیونٹیوں کیلئے بغیر کسی امتیاز کے لاگو کرنے کا وعدہ کیاگیاہے۔ موجودہ غیر منصفانہ حالت کو ختم کرنے کیلئے کانگریس نے اپنے اعلامیہ میں یہ بھی کہا کہ حکومت میں آنے پر پارٹی یہ یقینی بنائے گی کہ ہر شہری کی طرح اقلیتوں کو بھی لباس، خوراک، زبان اور پرسنل لاز کے انتخاب کی آزادی ہو، تاہم پرسنل لاز میں اصلاحات کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور اگر ضروری ہوا تو متعلقہ طبقات کی شرکت اور رضامندی سے اصلاحات کی جائیں گی۔
دراصل انتخاب میں ووٹر ہی سب سے اوپر ہوتا ہے اور وہی آخری فیصلہ ساز بھی ہوتا ہے، اسی وجہ سے انتخاب سے پہلے سبھی پارٹیاں اپنے اپنے منشور سے یہ بتاتی ہیں کہ وہ منتخب ہوکر آنے پر عوام کے حق میں کیا کیا کام کریں گی، کیسے حکومت چلائیں گی اور عوام کو کیا فائدہ ہوگا۔ کانگریس نے کوئی منفرد راہ نہیں اپنائی بلکہ اپنے انتخابی اعلامیہ کو ’نیائے پتر‘ سے معنون کیا ہے ۔کانگریس آج جس حالت میں بھی ہو، اس نے ملک پر طویل عرصے تک حکومت کی ہے،اگر ایسی پارٹی انتخابی وعدوں، ضمانتوں، منشور وغیرہ جیسے نام دینے کے بجائے اپنے انتخابی اعلامیہ کو ’نیائے پتر‘ کا حوالہ دے کر میدان میں اتری ہے تو مودی جی کو ثابت کرنا چاہیے کہ ان کے دور میں عوام کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوئی ہے۔اس کے برخلاف مودی جی اور ہم نوائوں کو اس میں مسلم لیگ کا عکس نظر آرہا ہے۔ اقتدار کو طول دینے کی وحشیانہ خواہش نے انہیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے، جہاں وہ سمت کا احساس ہی کھوچکے ہیں اور یہ بھول رہے ہیں کہ مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا دونوںکی سیاست ایک ہی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS