غیر اعلانیہ ایمرجنسی

0

بی بی سی(برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ) کے دہلی اور ممبئی میں واقع دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس نے بزن بول دیا ہے۔ ہر چند کہ اب تک محکمہ کی جانب سے باضابطہ کوئی بیان نہیںجاری کیاگیا ہے اور نہ ہی یہ واضح ہوسکا ہے کہ یہ کارروائی کن معاملات میں کی جارہی ہے۔لیکن خبریں ہیںکہ محکمہ انکم ٹیکس کے افسران وہاں اکائونٹس بک چیک کر رہے ہیں۔بی بی سی کے دونوں شہروںمیں واقع دفاتر کو اندر سے بند کرکے کارکنوں کا فون اور کمپیوٹر سسٹم بھی قبضہ میں لے لیاگیا ہے۔ کسی کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔حقائق کا پتہ لگنے میں ممکن ہے تاخیر ہو لیکن اس خبرکے بعد سے ملک اور بیرون ملک کے میڈیا میں ایک ہنگامہ بپا ہوگیا ہے۔ بی بی سی کے خلاف اس کارروائی کو حزب اختلاف ’ غیرا علانیہ ایمرجنسی ‘ قراردے رہاہے۔ کہاجارہاہے کہ گجرات فساد اور اس کے پس منظر میں اس وقت کے وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کے سلسلے میں چند ہفتے قبل آنے والی بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی اورپھر اس کے بعد ہورہی یہ کارروائی میڈیا کو ڈرانے کی مذموم کوشش ہے۔
حقائق کیا ہیں ظاہر ہونے میں ممکن ہے کچھ وقت لگے لیکن بظاہر حزب اختلا ف اور حکومت کے ناقدین کا یہ الزام درست ہی نظرآرہاہے کیوں کہ دستاویزی فلم ’’India: The Modi Question‘‘ آنے کے بعد سے حکومت یکے بعد دیگرے بی بی سی کے خلاف جو اقدامات کررہی ہے، اس کا کوئی منطقی جواز نہیں ہے۔ پہلے تو اس دستاویزی فلم کی صرف خبر آنے پر وزارت خارجہ نے بیان جاری کردیااور بی بی سی سیریز کی سخت مذمت کی۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی میدان میں اترآئے اور اس دستاویزی فلم کو جھوٹے بیانیہ کو آگے بڑھانے کیلئے ڈیزائن کی پروپیگنڈہ فلم قرار دیا۔ پھر مرکز نے یوٹیوب اور ٹوئیٹر کویہ دستاویزی فلم شیئر کرنے والے لنکس کو ہٹانے کا حکم دیاجس میں کہا گیا تھا کہ یہ فلم ہندوستان کی خودمختاری اور سالمیت کو نقصان پہنچانے، دوسرے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور ملک کے اندر نقض عامہ کے مقصد سے بنائی گئی ہے۔ بعدازاںہندوستان میں اس کے نشریہ پر ہی پابندی لگادی گئی۔ یونیورسیٹیوں میں اس فلم کو دیکھنے والے طلبا و طالبات کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔جے این یو نے تو باقاعدہ امتناعی حکم بھی جاری کیاتھا اور کولکاتا کی پریسڈنسی یونیورسٹی، جادب پور یونیورسٹی وغیرہ میں تو بجلی ہی منقطع کردی گئی تاکہ طلبا یہ فلم نہ دیکھ سکیں۔اس پس منظر میں محکمہ انکم ٹیکس کے بظاہر ’سروے‘ درحقیقت چھاپے کو دیکھاجائے تو اس سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ یہ کارروائی میڈیا کو ڈرانے کی کوشش ہی ہے۔اس سے قبل بھی حکومت سے سوال کرنے والے میڈیا ہائوسز اور صحافیوں کے خلاف سخت ترین کارروائیاں کی جاچکی ہیں۔ نیوز کلک، نیوز لانڈری جیسے کئی معیاری اور باوقار میڈیا ادارے حکومتی جبر کا شکار ہوچکے ہیں۔ حکومت اور حکمرانوں پر تنقید کرنے والے منظرنامہ سے ’ غائب ‘ کردیے جاتے ہیں۔ تحقیقی صحافت کرنے والے کئی افراد تو اب تک جیلوں میںپڑے سڑ رہے ہیں۔2014 میں بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے پریس کی آزادی انتہائی بدتر ہو گئی ہے اور صورتحال میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں180ممالک کی فہرست میں ہندوستان 10 ویں سے 150 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
گجرات فساد، نریندر مودی اور مسلم اقلیت کی تثلیث کے گرد گھومنے والی بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی اور اس کے بعد اس کے دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس کے چھاپے سے پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ پر بھی اثر پڑا ہے اور اس واقعہ کو عالمی میڈیا نے اپنی شہ سرخیوںمیں جگہ دے کر بتانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں آج آزادیٔ صحافت سنگین خطرہ سے دوچار ہے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ ہندوستان میں صرف آزادیٔ صحافت ہی نہیں بلکہ جمہوریت، شہری حقوق، انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق،مزدوروں محنت کشوں اور عام لوگوں کے حقوق کو زنجیرڈال دی گئی ہے۔ تنقید کرنے والے اور سوال پوچھنے والوں کو ڈرانے اور انہیں ہراساں کرنے کیلئے سرکاری ایجنسیوں کے ظالمانہ استعمال کی وکالت اور حکمرانوں کے ہر فیصلہ کا جوازڈھونڈناقوم پرستی اور اظہار رائے کی آزادی قرار پایا ہے۔
بی بی سی یا کسی بھی میڈیا ہائوس کے خلاف ہونے والی بے جواز کارروائی نہ صرف میڈیا کی آزادی بلکہ یہ ملک میں آئینی جمہوریت پر بدبختانہ حملہ ہے۔حزب اختلاف نے اگر اس کارروائی کو غیرا علانیہ ایمرجنسی قرار دیا ہے توکچھ غلط نہیں کہا ہے۔ویسے بھی حکومت جن راستوں پر چل رہی ہے وہ ملک کو ’وشو گرو ‘کے بجائے بے توقیری اور بدنامی کی منزل سے قریب تر کررہے ہیں۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS