قاہرہ: یروشلم کانفرنس میں چھلکا کرب

0

مسئلۂ فلسطین ایسا مسئلہ ہے جو ایک ملک کے دوسرے ملک کی سرزمین پر قبضے کو ختم کرنے کو لے کر ہے۔ پوری دنیا اصولی طورپر تو جدوجہد آزادی فلسطین کے حق میں ہے مگرعملی طورپر وہ غاصب کے ساتھ ہے۔ مظلوم کی آہ وبکا پر آواز توبلند کرتے ہیں مگر ظالم کے خلاف کوئی ٹھوس اور فیصلہ کن کارروائی نہیں کرتے جو تمام انسانی حقوق، عالمی قوانین اور بین الاقوامی اداروںکی رائے اور مرضی کو نظرانداز کرکے بے دست و پا عوام کو غلام بنائے ہوئے ہے۔ ان کو ایک آزاد ریاست کے اختیار اور انسانی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ سرزمین فلسطین پر دنیا بھر سے لاکر یہودی بسائے جارہے ہیں اور وہاں کے حقیقی شہریوں اور آبادی کو اجاڑا جارہا ہے۔ پچھلے دنوں مصر کی راجدھانی قاہرہ میں عرب وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں مسئلہ فلسطین بطورخاص یروشلم کی حیثیت کو لے کر غورکیا گیا۔ اس اجلاس میں اس بات پر بھی اظہارخیال کیا گیا کہ غاصب طاقت مغربی کنارے پر غیرقانونی طورپر تعمیرات کر رہی ہے اور ان تعمیرات کو قانونی درجہ بھی دے رہی ہے۔ اس پورے اجلاس میں یہ بات بھی نکل کر سامنے آئی کہ تمام عرب ممالک اپنی ذاتی ’مجبوریوں‘ اورضروریات کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ اس کے معاشی اوراقتصادی منصوبوںمیں تعاون کر رہے ہیں اور کچھ ممالک تو فوجی تعاون بھی حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بات کئی مرتبہ نکل کر سامنے آئی کہ اس قسم کے اقدامات سے نہ صرف یہ کہ فلسطینی کاز کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اسرائیل کی بربریت کو روکنے میں بھی رکاوٹ بن رہی ہے۔ بہرکیف اس اہم اجلاس میں اردن کے حکمراں بادشاہ عبداللہ شریک ہوئے جوکہ یروشلم میں بیت المقدس کے کسٹوڈین ہیں اس کے علاوہ یروشلم میں جتنے بھی عیسائی مقدس مقامات ہیں وہ ان کے بھی کسٹوڈین ہیں۔ اردن کے تعلقات اسرائیل سے اچھے ہیں اس کے باوجود کہ اسرائیل نے ان کے سفیر برائے فلسطین کو پچھلے دنوں بیت المقدس میں نماز پڑھنے تک کی اجازت نہیں دی تھی اور ان کے ساتھ نازیبا سلوک کیا تھا۔ اس کے علاوہ میزبان مصر وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے تھے۔ حالانکہ یہ قدم اٹھاکر اس نے اپنے ان علاقوںکوخالی کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی جس میں چھ دن کی جنگ میں فوجی بالادستی کی وجہ سے قبضہ کرلیا تھا۔ حال ہی میں ایک اور ڈیولپمنٹ یہ ہوا کہ افریقہ کے دو ممالک سوڈان اور چاڈ نے اسرائیل کے ساتھ مراسم قائم کرلئے ہیں۔ سوڈان میں حکمراں فوج کے سربراہ عبدالفتح برہان ملک میں انتخابات کو ٹالنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں اورمختلف حیلوںاور بہانوں سے انتخابات کو موخر کر رہے ہیں، وہاں کے جمہوریت پسند عوام، دانشوراور خواتین الیکشن کے انعقاد کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ جمہوریت پسند تحریک کو پوری مدد دے رہا ہے۔ان دونوںملکوں کے حکمراں امریکہ کے منظورنظر نہیں ہیں اور دونوںپر امریکہ نے پابندی عائد کررکھی ہے۔ پچھلے دنوں امریکہ نے آگاہ کیا تھا کہ اسرائیل سوڈان کے حکمراں سے زیادہ قربت حاصل کر رہا ہے اوراس کی وجہ سے وہاں کے ڈکٹیٹر کو جواز فراہم کر رہا ہے۔ مگر اسرائیل کو اس کی پروا نہیں۔ بیت المقدس میں پچھلے دنوں چاڈ کے حکمراں محمددیہی نے بیت المقدس میں نماز ادا کی تو ان کے آس پاس اسرائیلی فوجی کے کارندوںنے حفاظتی گھیرا بنائے رکھا۔ ظاہر ہے یہ تمام صورت حال اہل فلسطین کو تشویش میں مبتلا کرنے والی ہے۔ خیال رہے کہ چاڈ مسلم اکثریتی ملک ہے جس کی 47فیصد آبادی مسلم ہے اور فی الحال فوج نے اقتدارپر قبضہ کررکھا ہے۔مسئلہ فلسطین پر مصر کی میزبانی میں ہونے والی عرب وزرائے خارجہ کی اس کانفرنس کا فوکس یروشلم پر اہل اسلام کے دعوے کو مضبوط کرنا ہے۔ مگر اس قسم کی حرکات سے مسلم اور عرب ممالک اسرائیل یا امریکہ پر کس طرح دبائو ڈال پائیںگے اوریہ چکر ایسے ہی چلتا رہے گا۔ اسرائیل یہ بات سمجھ چکا ہے کہ وہ پوری دنیا کے مسلم اور عرب ممالک سے سفارتی، اقتصادی اور یہاں تک کے دفاعی تعلقات بھی استوار کرے مگر اہل فلسطین پر ظلم ہوتا رہے تو اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پچھلے دنوں قطر میں ورلڈ کپ فٹ بال کے دوران مراقش نے کھیل کے میدان میں اہل فلسطین کے لئے نعرے لگاکر اورجھنڈے بلندکرکے اپنے موقف کا اعادہ کیا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ مراقش اوراسرائیل کے درمیان دفاعی تعلقات کی وجہ سے اسرائیل کو شہہ اور طاقت مل رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مراقش اورالجیریا کے درمیان جو علاقائی سطح پر تنازعات چل رہے ہیں انہوںنے بھی سنگین رخ اختیارکرلیا ہے۔ مراقش الجیریا کو نیچا دکھانے اور اس پر جنگی بالادستی قائم کرنے کے لئے اسرائیل تک سے مراسم بڑھانے میں تامل نہیں کر رہا ہے۔ دونوں ملکوںکے درمیان فوجی مشقیں معمول ہیں۔ یہ تمام صورت حال یہ ظاہر کرتی ہے کہ عرب اورمسلم ممالک کوئی اجتماعی حکمت عملی تیارکرنے میں ناکام ہیں۔ ان کی پالیسیاں ذاتی مفادات اور ضروریات سے متاثر ہیں۔
مصر کے صدر عبدالفتح السلیسی نے اس اجلاس میں اپنے ملک کے موقف کا اظہار کیا ہے کہ عرب ملکوںکا موقف یروشلم کو لے کر ایک ہے۔ ان کے موقف میں یروشلم یا دیگر مقدس مقامات بطورخاص بیت المقدس کو لے کر کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ یہ دونوں مقامات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور عرب اورمسلم ممالک ان مقامات سے دستبربردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ دراصل اس میٹنگ کا مقصد ان دونوں حساس معاملات پر عرب اورمسلم دنیا میں اتفاق رائے قائم کرنا اور راہ ہموار کرنا ہے۔ اس موقع پر اردن، مصر اور فلسطینی اتھارٹی نے کہا کہ دو عرب ملکوں سوڈان او ر چاڈ نے اسرائیل کے ساتھ جو سفارتی تعلقات قائم کئے ہیں وہ کوئی خوش آئند بات نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے بھی مناسب نہیں ہے کہ اسرائیل فلسطینیوںکے مسئلہ کوحل کرنے کے لئے قطعی دلچسپی نہیں لے رہا ہے۔ اسرائیل میں موجودہ نتن یاہو سرکار کے اقتدارمیں آنے کے بعد حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ یہ بات بہت شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ اسرائیل کی سرکار صرف اور صرف یہودی شناخت اور آبادی کو فوکس کر رہی ہے۔ حفاظت کے نام پر ان کو مسلح کر رہی ہے اور عرب اورمسلم دنیا کو مشتعل کررہی ہے۔ بیت المقدس میں اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر کا گھس آنا اور بدسلوکی کرنا اشتعال انگیزی ہے اور مسلم دنیا کو صدمات سے متاثرکرنے کی مکروہ اور قابل مذمت حرکت ہے۔ اس کانفرنس میں عرب دنیا کی دواہم طاقتوںاور سعودی عرب اور یواے ای نے واضح کر دیا ہے کہ وہ فلسطینی کاز کے لئے بندھے ہوئے ہیں اوراسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کوئی بھی استواری اس بات پر منحصرہوگی کہ فلسطینیوںکو کس حد تک ان کے حقوق ملتے ہیں۔
خیال رہے کہ پچھلے دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد پاس ہوئی تھی جس کی رو سے فلسطین کی سرزمین پر جارح اسرائیلی فوج کی غیرقانونی موجودگی اور فلسطینیوں کے سیاسی اورانسانی حقوق کے مسئلہ کو بین الاقوامی عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور جنرل اسمبلی نے عالمی عدالت سے اتفاق رائے سے یہ پوچھا ہے کہ اس معاملے میں اگر غاصب فوج مظلوم عوام کو ان کے سیاسی اور انسانی حقوق فراہم نہیں کرتی تو یہ عظیم ترین عدالت کیاقانونی رول ادا کرسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قرارداد کے پاس ہونے سے غاصب اسرائیل بیک فٹ پر ہے اور پچھلے دنوں اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا ہے اس کے پس پشت اسرائیل کی یہی جھنجھلاہٹ تھی کہ فلسطینی اتھارٹی اپنے محدود وسائل کے باوجود عالمی سطح پر اتنا اہم قدم اٹھاکر اتنی بڑی فوجی طاقت کو پریشان کرنے کے درپے ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی معمولی سے معمولی طاقت دوروز قبل اسرائیل نے اپنی جارحیت کو ایک اور ناانصافی سے جوڑتے ہوئے مغربی کنارے میں یہودیوںکے لئے بنائی گئی کالونیوںکو قانونی قرار دے کر عالمی رائے عامہ کو ٹھینگا دکھایا ہے۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کی بربریت اور توسیع پسندانہ اقدامات کے لئے نہ صرف عرب مسلم ممالک متحد ہوں بلکہ اسرائیل کو لگام لگانے کے لئے عالمی برادری بھی صف آرا ہو تاکہ دنیا میں حق و انصاف کی حکمرانی کویقینی بنایا جاسکے۔
٭٭٭

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS