بے لگام مہنگائی

0

مہنگائی کا طوفان تھمنے کانام نہیں لے رہاہے۔حکومت کے بلند بانگ دعوے اور ریزروبینک آف انڈیا(آر بی آئی) کے اقدامات کے باوجود مہنگائی کی تباہ کاریاں وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں110روپے فی لیٹر پہنچ گئی ہیں جن کا اثر روزمرہ کی تمام اشیائے صرف پر پڑرہا ہے۔ راشن، پھل، سبزی، کھا نے کاتیل، ضرورت کی تمام اشیا کی قیمتیں لگاتار بڑھنے سے عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ غریب سے لے کر متوسط طبقہ تک ہر کوئی پریشان ہے۔ ملک میں مہنگائی کس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کی تصدیق خود سرکاری اعدادوشمار کررہے ہیں۔ سرکار کی جانب سے جاری کیے گئے تازہ اعدادوشمار کے مطابق اپریل میں تھوک مہنگائی کی شرح 15.08 فیصد کی اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جبکہ مارچ 2022 میںیہ14.55فیصد پر تھی۔ سال 1998 کے بعد پہلی بار ہوا ہے جب تھوک مہنگائی15فیصد سے پار پہنچی ہے۔ دسمبر1998میں یہ 15.32فیصد تھی۔ گزشتہ سال کی اسی مدت میں تھوک مہنگائی 10.74 فیصد تھی۔ جب کہ فروری میں13.11فیصد تھی۔یہ مسلسل 13واں مہینہ ہے جب تھوک مہنگائی دوہرے ہندسے میں ہے۔ ماضی میں خردہ افراط زر بھی 8سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ خردہ مہنگائی مسلسل چوتھے مہینے ریزرو بینک کے افراط زر کے ہدف سے اوپر رہی ہے۔ افراط زربھی ایک سال سے زائد عرصے سے10 فیصد سے اوپر ہے۔ اس سال مارچ کے مقابلے اپریل کیلئے تھوک قیمت کا اشاریہ2.08 فیصد بڑھ گیا۔اس وقت خردہ افراط زر کا دباؤ بھی زیادہ ہے۔ اپریل میں خردہ افراط زر بڑھ کر 7.79 فیصد ہو گیا، جو آر بی آئی کے 2.6فیصد کے ہدف سے بہت زیادہ ہے۔ روپیہ کی قدر روزبروز گررہی ہے۔ منگل کو آنے والی رپورٹ کے مطابق ہندوستانی روپیہ مزید14پیسے گر کر امریکی ڈالر کے مقابلے 77.69 روپے کی ریکارڈ نچلی سطح پر پہنچ گیاہے۔
خردہ کے بعد تھوک مہنگائی میں اس بڑے اضافے پر وزارت تجارت اور صنعت نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اپریل 2022 میں مہنگائی کی بلند شرح کی بنیادی وجہ معدنی تیل،بنیادی دھاتیں، خام پیٹرولیم، قدرتی گیس، غیر خوردنی اشیا اور کیمیکلز کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
وزارت بیان جاری کرنے کی رسم نہ بھی نبھائے تو عوام یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تیل، گیس اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی پر کیا اثر ڈال رہا ہے۔عوام تو دراصل یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ مہنگائی ختم کیسے ہوگی، نیچے کب آئے گی اوران کی جیب اور اخراجات کا توازن کب درست ہوگا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت نے اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ حکومت، عوامی املاک کی نجکاری کرکے اپنے لیے بھاری رقم اکٹھی کررہی ہے لیکن عام آدمی کا خالی پن بڑھتا ہی جارہا ہے۔جیب کی طرح اب دھیرے دھیرے پلیٹ سے کھانے پینے کی چیزیں بھی غائب ہورہی ہیں۔ایک مہینہ قبل وزیراعظم نریندر مودی نے پوری دنیا کی شکم پری کا بلند بانگ دعویٰ کیا تھا۔وزیراعظم مودی نے کہا تھا کہ غذائی بحران پر امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ان سے تشویش کا اظہار کیا تھا جس پر انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر ڈبلیو ٹی او اجازت دے تو ہندوستان کل سے ہی دنیا کو خوراک کا ذخیرہ فراہم کرنے کیلئے تیار ہے کیوں کہ ہندوستان میں پہلے سے ہی اپنے لوگوں کیلئے کافی خوراک موجود ہے اور ہندوستان کے کسان دنیا کو کھلانے کے انتظاما ت کررہے ہیں۔لیکن اس کے چند ہفتوں کے بعد ہی ہندوستان کو گندم کی برآمد پر پابندی لگانی پڑی۔
حقیقی صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان میں کھانے پینے کی اشیا عوام کی رسائی سے دور ہورہی ہیں۔یہ رفتار اگر جاری رہی تو کچھ عجب نہیں یہاں بھی سری لنکا جیسے حالات پیدا ہوجائیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ مہنگائی کم کرنے کے اقدامات جنگی پیمانے پر کیے جائیں۔ جمع خوری اور منافع خوری کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے جوایک طویل عرصہ سے ضروری سامانوں کی جمع خوری کرکے بازار میں اس کی مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں اور پھر بھاری منافع کماتے ہیں۔ افراط زر کے بے لگام ہونے سے پہلے بڑھتی قیمتوں کو تھامنا حکومت اورآربی آئی کی پہلی ترجیح ہونی چاہے۔آسمان چھوتی قیمتوں اور مہنگائی پراگرا ب بھی لگام نہیں لگائی تو ہندوستان میں بھی حالات دھماکہ خیز ہوسکتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS