یو اے پی اے ایکٹ2019

0

یو اے پی اے ایکٹ2019کی بعض دفعا ت کے خلاف دائر عرضی کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے کل مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کردیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ نے یہ نوٹس سماجی کارکن ہرش مندر اور 11 سرکاری افسران جن میں سابق آئی پی ایس جولیو فرانسس ریبیرو، وجاہت حبیب اللہ، کمل کانت جیسوال اور امیتابھ پانڈے شامل ہیںکی طرف سے دائر کی گئی عرضی پر جاری کیاہے۔عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایکٹ اصل مقاصد کو حاصل کرنے کے بجائے ملک میں ’اختلاف رائے کو روکنے‘ کیلئے من مانے طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 32 کے تحت دائر کی گئی اس عرضی میں درخواست گزاروں نے یو اے پی اے ایکٹ2019پر چار اہم نکات اٹھائے ہیں۔ ان میں ’’دہشت گرد‘‘قرار دیے جانے والے یا ’’غیر قانونی سرگرمیوں‘‘ کے الزام کا سامنا کرنے والے افراد کے حقوق کے تحفظ کا فقدان، ضمانت دینے پر پابندی ا ور فرد کے دیگر بنیادی حقوق سلب کیے جانے جیسے نکا ت شامل ہیں۔
سماعت کیلئے اس عرضی کی منظوری اور پھر مرکزی حکومت کو عدالت کی جانب سے نوٹس کا اجرا یہ بتاتا ہے کہ اس قانون پر عدالت کو بھی تحفظات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اسی یو اے پی اے کے تحت کئی ایک الزامات کا سامنا کررہے پیپلز یونین فار سول لبرٹیز کے رکن اور ایڈووکیٹ مکیش، نیشنل ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے سکریٹری ایڈووکیٹ انصار اندوری اور نیوز کلک کے صحافی شیام میرا سنگھ کی درخواست پر تریپورہ پولیس کو کارروائی نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ سپریم کورٹ نے تریپورہ پولیس سے کہا ہے کہ ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد پر تبصرہ کرنے پر جن وکلا اور صحافیوں کے خلاف یو اے پی اے ایکٹ کے تحت مقدمہ دائر کیاگیا ہے ، ان کے خلاف کوئی تعزیری کارروائی نہ کرے۔چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس سوریہ کانت کی بنچ نے تریپورہ حکومت کو بھی نوٹس جاری کیاہے۔
1969میں بنائے گئے اس قانون میں اب تک مختلف حکومتیں اپنی اپنی ضرورت کے مطابق نصف درجن بار ترمیم کرچکی ہیں۔ لیکن 2019میں ہونے والی ترمیم اور اضافہ کے بعد سے اس امتناعی قانون نے تنازع پیدا کردیا ہے۔جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ371 سوخت کیے جانے سے فقط تین دن قبل حزب اختلاف کی مزاحمت اورسخت احتجاج کے باوجود ملک کی مودی حکومت نے اس قانون میں ترمیم کی اور یہ اختیار حاصل کرلیا کہ و ہ بغیر کسی ٹرائل کے کسی بھی فرد کو دہشت گرد قرار دے سکتی ہے اور جسے چاہے گرفتار کرسکتی ہے۔اس قانون کے تحت گرفتار کیے جانے والے افراد کی ضمانت بھی نہیں ہوسکتی ہے۔اس قانون میں ترمیم کی منظوری سے حکومت کو ایک بے نیام تلوارمل گئی اور وہ اس تلوا ر سے اپنے مخالف کی گردن قلم کررہی ہے۔عرضی گزاروں نے اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے عدالت سے کہا ہے کہ یہ ایکٹ اصل مقاصد کو حاصل کرنے کے بجائے ملک میں ’اختلاف رائے کو روکنے‘ کیلئے من مانے طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
یو اے پی اے ایکٹ2019کے اب تک استعمال کے اعداد وشمار سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ حکومت اس قانون کو اس کے اصل مقاصدکے بجائے اختلافات کو دبانے اور ختم کرنے کیلئے ہی استعمال کررہی ہے۔ اس کی تازہ مثال تریپورہ کی ریاستی حکومت نے پیش کی جہاں فرقہ وارانہ تشدد پر بولنے اور لکھنے والے صحافیوں و سماجی کارکنوں پر اس قانون کے تحت مقدمہ درج کردیا گیا کیوں کہ ان وکلا نے فساد سے متعلق ’ فیکٹ فائنڈنگ‘ رپورٹ جاری کردی تھی۔ ’ تریپورہ میں انسانیت پر حملہ‘ اور ’مسلم لائیوز میٹرس‘( یعنی مسلمانوں کی زندگی بھی معنی رکھتی ہے) کے نام سے جاری اس رپورٹ میں ٹارگیٹڈ تشدد سے متعلق حقائق بے نقاب کیے گئے ہیں اور ریاست کی بی جے پی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایاگیاہے۔ ’ تریپورہ جل رہاہے‘ ٹوئٹ کرنے والے پر بھی اس قانون کا اطلاق یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ حکومت یو اے پی اے ایکٹ2019کو مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت عدالت کے نوٹس کا کیا جواب دیتی ہے۔
بہرحال کوئی بھی مہذب معاشرہ ایسے کسی قانون کی تائید نہیں کرسکتا ہے جس سے حکومت کو لامحدودا ختیارات حاصل ہوجائیں اور فرد کی آزادی اور تحفظ سنگین خطرات سے دوچار ہو۔اسی لیے حکومتوں کے بنائے گئے امتناعی قوانین کو کبھی بھی پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھاگیا ہے۔ امتناعی قوانین حکومت کو امکانات اور خدشات کی بنیاد پر فرد کی گرفتاری، تشدد، مقدمہ ، سزااور تادیب کے بے لگام اختیارات دے دیتے ہیں۔ منتخب جمہوری حکومت کو ملنے والے یہ اختیارات ایک طرح سے جمہوریت ، بنیادی انسانی حقوق حتیٰ کہ فرد کی آزادی کی نفی ہیں۔ ملک کی مختلف حکومتوں نے اپنے اختیارات میں اضافہ اور کھل کر کھیلنے کیلئے درجنوں ایسے قوانین بنائے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ متنازع قانون’ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ‘ یعنی یو اے پی اے ہے۔ضرورت ہے کہ اس کی بعض متنازع دفعات پر نظرثانی کی جائے اوراس میں حکومت کی ضرورت کے بجائے ملک کی ضرورت کو پیش نظر رکھاجائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS