اردو صحافت کے دو سو سال:مسائل اور مواقع

0
اردو صحافت کے دو سو سال:مسائل اور مواقع

عبدالماجد نظامی

اردو صحافت کے دو سوسال پورے ہونے کا جشن ایسے موقع پر منایا جا رہا ہے جب کہ ہندوستانی صحافت عمومی طور پر بہت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔2021 میں رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس نے جو ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس تیار کیا ہے، اس میں180ممالک کے اندر صحافت کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس پریس انڈیکس کے مطابق 2020 میں ہندوستان142ویں مقام پر اپنی جگہ بنا پایا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لیے ایسی رینکنگ نہایت افسوسناک ہے۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق ہندوستان صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ ہے اور وہ آزادی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتے۔ انہیں مختلف قسم کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سیاسی دباؤ اور ان کے خلاف تشدد اور دھمکیوں کا استعمال بھی شامل ہے۔ خود پولیس اور انتظامیہ صحافیوں کے خلاف اس تشدد میں شامل پائے جاتے ہیں اور انہیں اپنی جان کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ صرف2020میں چار صحافیوں کو اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے دوران جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 2022کے ابھی صرف دو مہینے گزرے ہیں اور ایک صحافی کا قتل عمل میں آ چکا ہے۔ اس سے قبل گوری لنکیش کو مبینہ طور پر ہندوتو عناصر نے بڑی بے دردی سے قتل کردیا اور کپن اس وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں جبکہ دیگر صحافیوں کے خلاف یو اے پی اے جیسے سیاہ قانون کا استعمال بڑی آسانی سے کرکے انہیں ہراساں کیا جاتا ہے اور جمہوریت کے اس چوتھے ستون کو مسلسل کمزور کرنے کی سعی جاری ہے۔ رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس کے مطابق ہندوستان میں صحافت کا معیار تب سے زیادہ زوال پذیر ہوا جب سے ہندوتو کی سیاست کو ملک میں عروج حاصل ہوا۔ اس بات کا اندازہ 2016 میں جاری پریس فریڈم انڈیکس سے لگایا جاسکتا ہے۔2016 میں ہندوستانی صحافت کی رینک 133تھی جس میں لگاتار گراوٹ آتی رہی اور آج وہ 142 ویں مقام پر سامان عبرت بنی کھڑی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صحافیوں کو اپنا کام ایمان داری سے کرنے کی پاداش میں اپنی جان کی قیمت آج ہی کے دور میں پیش کرنی پڑ رہی ہے، اردو صحافت کو یہ اعزاز اور امتیاز حاصل ہے کہ حق گوئی و بیباکی کی راہ میں شہادت کا نذرانہ اس نے اس وقت پیش کیا تھا جب برطانوی سامراج اپنی قوت و سطوت کے عروج پر کھڑا تھا۔ یہ امتیاز مولانا محمد حسین آزاد کے والد اور ’’دہلی اردو اخبار‘‘کو دہلی سے شائع کرنے والی شخصیت مولوی محمد باقر کو حاصل ہے۔ ان کے اس اخبار کو دہلی کا پہلا اردو اخبار کہلانے کا امتیازی نشان بھی حاصل ہے۔ اس اخبار کا پہلا نام ’’اخبار دہلی‘‘ تھا جس کو10مئی1840ء کو ’’دہلی اردو اخبار‘‘کر دیا گیا۔اس اخبار میں کھل کر انگریزی سرکار اور اس کے اقدامات کی مخالفت کی جاتی تھی اور اسی ضمن میں جنگ آزادی کی ناکامی اور مغلیہ سلطنت کی تاراجی کے ساتھ انگریزوں کی جانب سے مولوی باقر کو شہید کردینے کے بعد بالآخر اس اخبار کی زندگی بھی13دسمبر1858کو ختم ہوگئی جیسا کہ اقدس علی ہاشمی نے اس کے بارے میں تبصرہ کیا ہے۔
ہندوستان میں آج اردو اور مسلمان دونوں نشانہ پر ہیں اور ان کا صرف عرصۂ حیات ہی تنگ نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ زندگی سے ان کا رشتہ کاٹ دینے کی لگاتار کوشش ہو رہی ہے۔ زبان کو مذہب سے جوڑ دیا گیا ہے۔ یہ سراسر ناانصافی اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی شاندار تاریخ کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ اردو صحافت کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ27مارچ1822ء کو کلکتہ سے شائع ہونے والا پہلا اردو اخبار ’’جام جہاں نما‘‘ تھا اور اس کے مالک اور ایڈیٹر دو بنگالی ہندو بھائی ہری ہردت اور سدا سکھ دیو تھے۔ اس اخبار نے بھی حق گوئی کی مثال قائم کی تھی اور فرنگی حکام کے خلاف دہلی کے عوام کا غصہ اور بیزاری کے واقعات کو پوری جرأت اور دلیری کے ساتھ شائع کیا کرتا تھا اور اسی وجہ سے 23جنوری1828کو اسے بند کر دیا گیا۔ ’’جام جہاں نما‘‘ کے علاوہ راجہ رام موہن رائے کی ادارت میں شائع ہونے والا دوسرا اردو اخبار ’’مرأۃ الأخبار‘‘ بھی ایک ہندو کی سعی و دلچسپی کا نتیجہ تھا۔ 20اپریل1822کو منصۂ شہود پر جلوہ گر ہونے والا یہ اخبار ہفت روزہ تھا۔ اس کی عمر گرچہ بہت مختصر تھی اور محض ایک سال کے بعد 1823کو بند ہوگیا لیکن قارئین کے ذہن و دماغ پر اپنے گہرے نقوش چھوڑنے میں کامیاب رہا۔ اسی طرح1871ء میں لاہور سے جاری ہونے والے اردو اخبار ’’اخبار عام‘‘ کے مالک پنڈت مکند رام اور اس کے پہلے ایڈیٹر پنڈت گوپی ناتھ بھی ہندو ہی تھے۔ لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستانی ثقافت میں فرقہ واریت کا زہر سرایت نہیں کر پایا تھا اور زبان و مذہب کے نام پر سیاسی قوت کا حصول معیوب مانا جاتا تھا۔ اردو اور مسلمانوں کی طرح سیکولرزم کا نظریہ بھی عتاب کا شکار ہے لیکن یہ بھی کیسا تمغۂ امتیاز ہے کہ اردو اخبار نے ہی سب سے پہلے سیکولرزم کے نظریہ کو رواج دیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سیکولرزم کے تصور سے ابھی ہندوستانی کان آشنا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اس کو روشناس کرانے والی شخصیت کا نام مولانا برکت اللہ بھوپالی ہے جنہوں نے1910ء میں ٹوکیو، جاپان سے ’’اسلامک فریٹرینٹی‘‘ نامی اپنا اخبار شائع کرنا شروع کیا۔ اس ہندوستانی انقلابی شخصیت کی ساری ہمدردیاں گرچہ پین اسلامی تحریک کے ساتھ تھیں لیکن انہوں نے سیکولر نظام حکومت کے تصور سے باشندگان ملک کو آشنا کروایا اور اس کی اہمیت پر مضامین لکھے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اردو کا دائرہ صرف ہندوستان کی سرحدوں تک محدود نہیں تھا بلکہ جاپان اور ماریشس تک اس کے قارئین اور شائقین موجود تھے۔ اردو زبان کی اسی گہرائی و گیرائی کا اثر تھا کہ بعد میں اسے مولانا ابوالکلام آزاد اور عبدالماجد دریا بادی جیسے نابغۂ روزگار ادیب صحافی میسر آئے جنہوں نے ’’الہلال‘‘ پھر ’’البلاغ‘‘ اور ’’صدق جدید‘‘ کے ذریعہ اس کا معیار اس قدر بلند کر دیا کہ انگریزی صحافت آج تک اس بلندی کو ترستی ہے۔ البتہ یہ افسوسناک پہلو ہے کہ اردو صحافت اپنے اس معیار کو قائم نہیں رکھ پائی اور انگریزی صحافت کے مقابلہ اس کی رفتار سست پڑ گئی۔ آج یہ موقع پھر سے اردو صحافیوں کو حاصل ہو رہا ہے کہ وہ اس معیار کو بحال کرلیں کیونکہ آج ہندی اور انگریزی صحافت سیاسی زنجیروں میں مقید ہے اور نفرت کی سیاست کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ یہی وقت ہے جب وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان میں حق گوئی و بیباکی سے اپنی بات کہنے اور سیکولرزم کے اصولوں کو زندہ رکھنے کا وہی جنون باقی ہے جس کی داغ بیل مولانا برکت اللہ بھوپالی نے ڈالی تھی۔ میڈیا کی یہ اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس کا رویہ منصفانہ، اس کا طرز عمل غیر جانب دارانہ اور حقائق کو پیش کرنے کے تئیں اس کا لگاؤ اٹل اور غیر متزلزل ہو۔ آج جبکہ میڈیا چند طاقتور ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے اور ایک خاص سیاسی و سماجی نظریہ کی ترویج اس کا خاص مقصد بن کر رہ گیا ہے، ایسے حالات میں اردو صحافت کو اخلاقی بلندی کا وہی نمونہ پیش کرنا ہوگا جو اس کے بانیین کا امتیازی وصف تھا۔
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS