ش۔شکیل
ایک گائوں تھا جس کا نام برہان پور تھا۔اُس گائوں میں دیگر لوگوں کے ساتھ ایک آدمی رہتا تھا جس کا نام اختر تھا۔ اُس کی ایک بیوی اور دو بیٹے تھے۔ بیوی کا نام سکینہ تھا ۔بڑے بیٹے کا نام انور تھا اور چھوٹے بیٹے کا نام عثمان تھا۔اختر شراب پینے کا عادی تھا۔وہ جو کچھ بھی کماتا تھا، اُس میں سے آدھی کمائی کی شراب پیتا تھا ۔آدھی کمائی سے بیوی اور بیٹوں کی ضروریات کو پورا کرتا تھا۔یہاں تک ہی وہ محدود نہیں تھا۔ہر روز نشے کی حالت میں بیوی بچوں کو مارتا پیٹتا تھا۔ گالی گلوچ اور طعنے دیا کرتا تھا۔اس طرح اُن کی زندگی گزر رہی تھی۔
دونوں بیٹے اب بڑے ہوگئے تھے۔ شراب پینے کی وجہ سے اختر کو بیماری نے پکڑلیا، دوسری طرف بیوی کی طبیعت بھی مار کھانے سے اور اچھی غذا نہ ملنے کی وجہ سے خراب ہوتی گئی۔ایک دن آگے پیچھے اختر اور سکینہ اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔
انور نے محنت مزدوری کرکے پیسے جمع کیے اور شادی کرکے گھر بسا لیا۔ شادی کے بعد اس نے کاروبار کیا، جس میں بہت منافع ہوا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے بڑا بیوپاری بن گیا۔دوسری طرف عثمان نے بھی محنت مزدوری کرکے ایک غریب گھر کی لڑکی سے بیاہ رچا کر گھر بسا لیا تھا۔لیکن وہ باپ کی طرح شرابی بن گیا تھا۔وہ باپ کی طرح گھر میں بیوی بچوں کو مارا اور پیٹا کرتا تھا۔
گائوں کے لوگ اکثر آپس میں باتیں کیا کرتے تھے۔ ’’یہ کیسا عجوبہ ہو گیا۔اختر کا ایک بیٹا بڑا بیوپاری بن کر کامیاب زندگی گزر رہا ہے اور دوسرا بیٹا باپ کے نقش قدم پر چل پڑا ہے۔‘‘
ایسا کیوں ہوا ؟ اس کا تجسس گائوں کے تمام لوگوں کو تھا۔ایک دن کچھ بڑے بزرگ پہلے عثمان کے پاس گئے اور اُس سے پوچھا: ’’تو ایسی کیسی زندگی گزر رہا ہے؟تیرا بھائی تو بڑا بیوپاری بن گیا ہے،خود کا گھر بنا لیا ہے۔ہنسی خوشی زندگی گزار رہا ہے۔ ‘‘ اس پر عثمان بولا:’’ مجھے کچھ نہیں معلوم یہ کیوں کر ہوا ؟مجھے میرے باپ نے جو سیکھایا، وہ سیکھ کر میں بن گیا ہوں۔ یعنی جب مجھے تھوڑی بہت سمجھ آگئی تو میں نے ذہن میں یہ بات بیٹھا لی کہ میں اپنے باپ کی طرح بن جائوں گا۔ اس لیے ہر روز شراب پیتا ہوں۔بیوی بچوں کو روز مارتا اور پیٹتا ہوں جس طرح ہمارا باپ ہمیں مارا اور پیٹا کر تا تھا۔‘‘
اس کے بعد وہ لوگ انور کے پاس گئے۔ اُس سے بھی یہی سوال کیا تو انور نے کہا: ’’میں نے یہ سب باپ سے سیکھا ہے۔ ‘‘تمام لوگ حیرت اور تعجب سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے: ’’لیکن یہ کیسے ممکن ہے تمہارا باپ تو شرابی تھا اورتم تو شراب پینا تو درکنار ہاتھ بھی نہیں لگاتے، پھر یہ سب کیسے ہوا؟‘‘
اس پر انور نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’جب مجھے تھوڑی بہت سمجھ آئی تو میں نے ایک بات ذہن میں بیٹھالی کہ چاہے کچھ ہو جائے مجھے میرے باپ جیسا نہیں بننا ہے ۔نہ شراب پینا ہے اور نہ ہی بیوی بچوں کو مارنا پیٹنا ہے۔اس لیے میں نے بیوپار شروع کیا اور بڑا بیوپاری بن گیا ہوں۔‘‘
اس سے ہمیں معلو م ہوتا ہے کہ ہم جو چاہے بن سکتے ہیں۔بس ہمیں اپنی عقل اور سوجھ بوجھ کا استعما ل کرنا ہوگا۔ کسی بھی برائی اور اچھائی کو دیکھنے کا ہمارا نظریہ ہماری آئندہ زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔
[email protected]
دو بھائی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS