ٹوٹی ہوئی چپل

0

ڈاکٹر عمران مشتاق
قاسم نے زور سے چیخ ماری: ’’ہائے، میں مر گیا۔ ‘‘ماں کی پھینکی ہوئی جوتی زور سے اس کی کمر پہ پڑی تھی۔
ماں پریشان ہو گئی: ’’کیا ہوا، زیادہ زور سے لگ گئی کیا؟ ‘‘
قاسم نے منھ بناتے ہوئے کہا: ’’نہیں، مجھے تو ویسے ہی شور مچانے کا شوق ہے۔‘‘
ماں نے اس کی کمر سہلاتے ہوئے کہا: ’’ تو باز کیوں نہیں آجاتا؟ ہر وقت کی شرارت اور مذاق۔ آخر تو کب سُدھرے گا؟ ‘‘
قاسم نے سر اُٹھایا تو اس کے سامنے ایک عجیب منظر تھا۔ اس کادل اُچھل کے جیسے حلق میں آگیا ہو۔ وہ اپنا درد اور تکلیف بھول گیا۔ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ ماں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس نے اپنی قمیص کے دامن سے ماں کے آنسو پونچھے تو ماں نے اسے سینے سے لگالیا۔
ہمیشہ ہی ایسا ہوتا، ماں اسے مارتو لیتی لیکن پھر اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔
قاسم ابھی تین سال کا بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کا باپ ٹریفک کے حادثے میں چل بسا تھا۔ ماں نے محنت مزدوری کر کے اس کا اور اپنا پیٹ پالا تھا۔ ماں اسے اسکول بھی بھیجتی تھی۔وہ چاہتی تھی کہ قاسم پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پہ کھڑا ہوجائے۔
قاسم پوچھتا تھا: ’’ماں!تم ہمیشہ یہ کہتی ہو کہ بس میں اپنے پیروں پہ کھڑا ہو جاؤں۔ یہ کیوں نہیں کہتی کہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن جاؤں؟‘‘
ماں بڑے دلار سے کہتی: ’’یہ ایک محاورہ ہے بیٹا!تواگر پڑھ لکھ جاتا ہے اورباعزت روزگار کمانے لگتا ہے تو یہ بھی مجھ بیوہ پر اللہ پاک کا بڑا احسان ہو گا۔‘‘
قاسم پوچھتا: ’’میں ایک بڑا آدمی بنوں گا کیسے؟ ‘‘
ماں آرام سے کہتی: ’’ اللہ پاک کچھ بھی کر سکتا ہے، اس کی رحمت ہو اور اگر تو محنت کرے تو ایسا ہو بھی سکتا ہے ۔‘‘ قاسم ایسی باتیں کرتا رہتا، مگر شرارتوں سے باز نہ آتا محلے بھر سے اس کی شکایتیں آتیں۔
ماں سمجھاتی، وہ ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے اسے نکال دیتا۔ ایک دن قاسم نے ایک عجیب منظر دیکھا،سیٹھ حامد اس کی ماں کو غصے سے ڈانٹ ڈپٹ کر رہا ہے، اس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا، وہ جیسے اُڑتا ہوا سیٹھ حامد پر جا پڑا۔ ماں نے بڑی مشکل سے اسے قابو میں کیا۔
سیٹھ حامد ماں اور قاسم کو دھمکیاں دیتا ہوا رخصت ہوگیا۔ سیٹھ حامد کے جانے کے بعد ماں نے نہ آؤ دیکھا اور نہ تاؤ، بس اس پہ پل پڑی۔ ماں کی جوتیاں ایک تواتر سے قاسم پر برسنے لگیں، قاسم کی دو ایک بار ہلکی سی آہ نکلی اور وہ خاموشی سے پٹتا رہا۔
ماں مارتے مارتے ہاپننے لگی تھی، بولی: ’’سیٹھ حامد اپنے کام کا تقاضا کررہا تھا، میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ کام بدھ کو تیار ملے گا اور آج ہفتہ ہے، مجھ سے کوتاہی ہوگئی۔‘‘ ماں کپڑوں پہ بڑی خوب صورتی سے موتی ٹانکنے کا کام کرتی تھی، اس کے کام میں بڑی نفاست تھی۔
سیٹھ حامد اسے معقول رقم دے کر چیزیں خریدتا تھا، البتہ تاخیر ہو جائے تو وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاتا تھا۔ قاسم نے منہ بسورتے ہوئے کہا: ’’مگر اسے ہماری بے عزتی کرنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘
ماں نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور کہا: ’’تو چاہتا ہے کہ وہ آئندہ سے میری بے عزتی نہ کرے تو تو پڑھ اور جلدی سے کسی قابل ہو جا، تاکہ وہ ہمارے ساتھ اونچی آواز میں بات نہ کرے۔‘‘
قاسم نے ماں کی بات سنی، وہ گھر کے اکلوتے کمرے میں گیا اور ایک ٹوٹی ہوئی چپل لے کر باہر نکلا۔ قاسم نے وہ چپل ماں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: ’’لو ماں!اسے سنبھالو۔‘‘ وہ گھر سے باہر نکل گیا، ماں اب بھی ہاتھ میں پکڑی ہوئی چپل کو حیرت کے عالم میں دیکھ رہی تھی۔
قاسم اس دن کے بعد سے بدل گیا، اس کا ہنسی مذاق اور شرارتیں کم ہو گئیں۔ وہ پڑھائی کی طرف توجہ دینے لگا۔ اس دن اس سے پھر ایک شرارت سرزد ہوگئی، شکایت ماں تک پہنچ گئی۔ قاسم گھر آیا تو ماں کے تیور بدلے ہوئے پائے۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اسے چپل نظر نہ آئی۔
وہ کمرے میں گیا اور واپسی پر چپل اس کے ہاتھوں میں تھی۔ اس نے وہ ماں کو پکڑائی، ماں تو غصے میں ہی بیٹھی تھیں، انہوں نے چپل اُٹھا کر کمر پر جڑ دی۔ قاسم کی آہ نکل گئی جیسے اس نے بڑی مشکل سے اپنی چیخ کو روکا ہو۔ قاسم نے پھر چپل اُٹھائی اور لا کر ماں کو پیش کردی۔ماں نے چپل اس کی کمر پر برسانا شروع کر دی۔ قاسم کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ ماں نے چپل نیچے پھینک دی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ قاسم اپنا درد بھول گیا تھا: ’’ماں! رو نہیں تمہارے رونے سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
ماں بے بسی سے بولی: ’’تو ایسی حرکتیں کیوں کرتا ہے؟‘‘ قاسم بے چارگی سے بولا: ’’ماں!میں کوشش تو کر رہا ہوں مگر کیا کروں، کبھی کبھار بس شرارت ہو جاتی ہے۔ ‘‘
ماں کچھ دیکھ تک کچھ سوچتی رہی اور پھر اس نے زمین پہ جھک کر ٹوٹی ہوئی چپل اُٹھائی۔ ماں نے پوچھا: ’’قاسم!مجھے یہ تو بتا کہ تو نے مجھے یہ ٹوٹی ہوئی چپل ہی کیوں دی تھی اور یہ کیوں کہا تھا کہ آئندہ میں صرف یہی چپل استعمال کروں؟‘‘
قاسم آہستہ سے بولا: ’’تاکہ آپ اس سے پٹائی کر سکیں۔‘‘
’’مگر ٹوٹی ہوئی چپل ہی کیوں؟ ‘‘
’’ماں!تاکہ مجھے کم چوٹ لگے، میری چیخ نہ نکلے اور اگر نکلے بھی تو آدھی چیخ سے زیادہ نہ ہو، تاکہ آپ کو کم دکھ ہو۔‘‘
’’مگر تو سدھر کیوں نہیں جاتا؟ ‘‘
قاسم بے بسی سے بولا: ’’ماں!سدھر نے کی کوشش کر رہا ہوں ، مگر اس میں وقت لگے گا۔ ‘‘
’’میرا دل نہیں چاہتا، مگر تو مجھے مجبور کر دیتا ہے کہ تیری پٹائی کروں۔‘‘ماں بے بسی سے بولی
قاسم شوخی سے بولا: ’’اسی لیے تو تجھ سے کہتا ہوں کہ ٹوٹی ہوئی چپل سے مارنا، تاکہ مجھے کم چوٹ لگے۔ کم چوٹ لگے گی تو میں زور سے چیخوں گا نہیں۔‘‘ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیاا ور وہ تیزی سے گھر سے نکلتا چلا گیا۔ماں اس کے جانے کے بعد خود سے بولی: ’’پگلے تو سمجھتا ہے کہ ماں کو پتا نہیں کہ تو مجھے تکلیف سے بچانا چاہتا ہے۔تو میری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔تجھے جب تکلیف ہوتی ہے اور تو چیختا ہے تو میرا کلیجا شق ہو جاتا ہے، چوٹ تو چوٹ ہے چاہے چپل پوری ہو یا ٹوٹی ہوئی۔‘‘ ماں اپنی ٹوٹی ہوئی چپل کو بڑے پیار سے سہلا رہی تھی۔
یہ ایک ملک کے سب سے بڑے ماہر تعمیرات کی کہانی ہے جو بے پناہ دولت کا مالک ہے۔وہ ٹوٹی چپل اس نے اب بھی سنبھال رکھی ہے اور کبھی کبھی ماں سے مذاق میں کہتا ہے: ’’ماں!بہت دنوں سے تم نے یہ ٹوٹی چپل استعمال نہیں کی، اب تو میں چیخوں گا بھی نہیں۔‘‘
اور ماں اس کی شرارت پر زیرِ لب مسکرا دیتی ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS