فیروز بخت احمد
حضرت امیر خسروؒجن کا پورانام ابوالحسن یامین خسرو تھااور جن کی پیدائش 1235 ء میں ہوئی تھی، نہ صرف اپنے صوفیانہ شاعری بلکہ اس شاعری کے ذریعہ دئے گئے مذہبی واخلاقی پیغام کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جب ہندوستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو حضرت امیرخسروؒ کانام اپنی خدمات کی وجہ سے نمایاں رہے گا۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ نہ صرف امیرخسروؒ کے پیر تھے بلکہ استاد بھی تھے۔آپ سلطان جی کی بڑی عزت کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت امیر خسرو نے ایک غزل خواجہ صاحب کے سامنے پڑھی۔ غزل سن کر خواجہ نظام الدینؒ صاحب بہت خوش ہوئے اور امیر خسرو سے کہا کہ کہو کیا مانگتے ہو ۔ انھوں نے کہا کہ میر ی خواہش ہے کہ میرے اشعار میں شگفتگی آجائے۔ خواجہ صاحب نے کہا اچھا جائو اور میری پوشاک کے نیچے سے ایک طشتری ہے لے آئو۔ خسروؒ طشتری لے آئے جس میں کچھ چینی تھی ۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے خسرو سے کہا کہ اس چینی میں سے کچھ کھالو اور کچھ سرپر اندھیل لو۔ خسرو نے حکم کی تعمیل کی ۔اس دن کے بعد سے خسرو کے مطابق ان کی شاعری میں شگفتگی اور مٹھاس بڑھ گئی۔ اس کے بعد امیر خسرو کی حضرت نظام الدین اولیا کے ساتھ الفت اور وابستگی اور بھی بڑھ گئی۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ غریب شخص خواجہ نظام الدین اولیا کے پاس آیا اور عرض کیا کہ حضور کچھ مدد فرمائیے۔ خواجہ جی کے پاس اس وقت کچھ نہیں تھا ۔فقیر نے اپنی بیچارگی کو اس انداز میں پیش کیا کہ خواجہ صاحب نے خانقاہ میں کچھ نہ ہوتے ہوئے آخر کا راپنے جوتے اس فقیر کو عنایت فرمادی۔ فقیر کے پاس اس کے علاوہ چارہ بھی کوئی نہ تھا اس لئے وہ خواجہؒ صاحب کے جوتے بغل میں دبائے خانقاہ سے روانہ ہوگیا۔ جس وقت وہ شہر کی جانب جارہا تھا تو راستے میں اس کی ملاقات امیر خسروسے ہوگئی۔ امیر خسرو تجارتی اونٹوں اور گھوڑوں سے لیس واپس آرہے تھے ۔خسرو جب اس فقیر سے ملے تو انھیں عجیب احساس ہوا اور کہنے لگے کہ انھیں اس کے اندر سے اپنے شیخ کی خوشبو آرہی ہے ۔اس فقیر نے خانقاہ کا تمام قصہ انھیں سنادیا۔ حضرت امیر خسرو نے اپنے تمام مال کے عوض وہ جوتے لے کر اپنی دستار میں رکھ لئے ۔
حضرت امیر خسرو کی پیدائش 1253ء میں دہلی میں ہوئی تھی۔ انھوں نے سات بادشاہوں اورتین شہزادوں کی خدمت سلطان بلبن سے لے کر محمد بن تغلق تک کی ۔انھیں دہلی سے بڑی رغبت تھی ۔ ایک مرتبہ جب ان کا ٹرانسفر پٹیالی میں ہوگیا تھا تو ان کے دل کو اتنا برا لگا کہ انھوں نے اس پر ایک مثنوی لکھ ڈالی جس کا عنوان تھا ’’شکایت نامہ پٹیالی‘‘ ۔اس میں انھوں نے دہلی کی جو تعریف کی تھی اور پٹیالی سے شکایات ظاہر کی تھی۔انھوںنے دلی کو قوت الاسلام کا نام دیا تھا ۔جب ان کی پیدائش ہوئی تب ان کے والد انھیں دہلی کے ایک خداترس درویش کے پاس لے گئے ۔درویش نے ان کو والد کو بتایا کہ وہ ایک ایسے بچے کو لائے ہیں کہ جو آگے جاکر خاقانی ہندبنے گا ۔ آگے ایسا ہی ہوا اور اپنی آواز کی چاشنی سے حضرت امیر خسرو نے انسانیت کی خدمت کی ۔ جس قسم کی شاعری انھوں نے ایجاد کی ،وہ ’’ہندوی ‘‘کہلاتی تھی۔
امیر خسروؒ نے بہت سے راگ اور راگنیوں کوبھی ایجاد کیا ۔ انھوں نے قول،قلبنا اور ترانہ بھی ایجاد کیا ۔آج بھی ان کی ہندوی زبان کی نعتیں اور قوالیاں کہی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج حضرت امیر خسروؒ کو ہندوستانی موسیقی میں ایک خاص مقام حاصل ہے ۔
حضرت امیر خسروؒ نے بچپن میں مفتی معیز الدین غریفی اور حضرت نظام الدین اولیاؒ کو اپنا استاد جانا۔انھیں بچپن میں تعلیم دی گئی کہ وہ اپنی شاعری کو سعدی اور کمال اصفہانی کی طرز پر ڈھالیں اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ انھیں صوفیانہ شاعری پر نہ صرف عبور حاصل ہوا بلکہ وہ کم عمر میں بہترین قطعات کہنے لگے۔یہاں تک کہ کم عمری میں انھوں نے حسن دہلوی کو بھی قطعات کے معاملہ میں پیچھے چھوڑدیا تھا۔آپ کے قطعات تین دیوانوں میں محفوظ ہیں ۔
اپنی خانقاہ میں وہ لوگوں کو برکتیں دینے کے لئے، تصوف اور ترک کا علم دینے کے لئے بلایا کرتے تھے ۔ان کی خانقاہ میں ہر قسم کا آدمی آتا تھا جس میں نیک ،بے ایمان،ڈاکہ زن ، جواری،شراب خور، غرضیکہ ہر قسم کا انسان ہوتا تھامگر کچھ ہی روز کے بعد وہ وہاں سے اچھے اور خداترس انسان بن کر نکلتے تھے۔
حضرت امیر خسروؒ نے تصوف پر کچھ بڑی اچھی تصانیف بھی کی ہیں جیسے ’’فوائد الفواد‘‘ ، ’’قط القلوب‘‘، ’’احیاء العلوم‘‘، ’’کشف المحجوب‘‘ ، ’’ملفوظات‘‘،’’غرہ الکمال ‘‘وغیرہ۔آپ نے ایک نظم ’’خالق بری‘‘ بھی تحریر کی جس میں آپ نے عربی ، فارسی، ترکیہ اور ہندوی زبانوں کا استعمال کیا ۔ آپ کی تصانیف حقوق العباد اور سلوک پر بھی ہیں ۔آپ کے زمانہ میں لوگ صوفیانہ طرز عمل کی جانب اس قدر مائل ہوگئے کہ اس دور میں لوٹے اور طشت کی کمی ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تمام صوفیاء کرام کی زندگی کا بس یہی سامان ہواکرتاتھا، نہ ان کے بینک بیلنس ہوتے اور نہ ہی ان کے محل وقلعے ہواکرتے تھے۔
کم ہی لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ ’’امیر خسروؒ کا ہندوی کلام ایک ایسی تصنیف ہے جس میں 144پہیلیاں ہیں۔آپ کی پہیلیوں کا جواب نہ تھا ان پہلیوں کے ذریعہ آپ نے ہندومسلم ایکتا کا پیغام بھی دیا ۔ مثال کے طور پر ایک پہیلی کچھ اس طرح ہے: ’’آدھا بکرا سارا ہاتھی، ہاتھ بندھا دیکھ یک ساتھی‘‘۔ اس کا جواب ہے ’’گجرا‘‘اب دیکھئے آدھابکرا یعنی بک+را=بکرا ۔ بکرا کا آدھا ہوا ’’را‘‘ ۔اسی طرح سے ہاتھی کو سنسکرت میں ’’گج‘‘ کہا جاتا ہے ۔سارا ہاتھی یعنی ’’گج‘‘۔اسی طرح کی بڑی اچھی تعلیمی پہلیاں ہواکرتی تھیں حضرت امیر خسروؒ کی ۔
حضرت امیر خسروؒ کی عمر جب آٹھ سال کی تھی تو آ پ کے والد فوت ہوگئے۔ آپ کی والدہ آپ کو آپ کے داد اکے پاس دہلی لے کر چلی گئیں۔ آپ کے دادا عمادالملک،غیاث الدین بلبن کے دربار میں ملازم تھے۔دہلی جیسے شائستہ اور پررونق شہر میں نوجوان امیر خسرو نے اپنے دادا کے مکان میں شاعری اور تخلیقی کاموں سے ملک میں اپنا مقام بنانا شروع کردیا۔ محض 16سال تک کی عمر میں حضرت امیر خسرو کے ہاتھ جو بھی کتاب لگی اس کو انھوں نے نہ صرف پڑھ ڈالا بلکہ اپنی تحریر میں اس کا نچوڑ بھی محفوظ کرلیا۔آپ کا پہلا دیوان ’’تحفہ العفر‘‘ تھا ۔1279ء میں حضرت امیر خسرو نے اپنی دوسری کتاب ’’وسط الحیات‘‘ تحریر کی۔آپ کی پہلی تاریخی مثنوی 1288ء میں جلال الدین فیروز خلجی کے دور میں مرتب کی گئی ۔آپ کی دوسری مثنوی، ’’مفتاح الفتوح‘‘ بھی اسی اثناء لکھی گئی۔ آپ کی وابستگی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء سے 1310ء میں ہوئی ۔
حضرت امیر خسروؒ حضرت نظام الدین اولیاء سے جس انداز میں ملے وہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ آپ حضرت جی کی خانقاہ میں پہنچے فوراً ہی داخل ہونے کے بجائے دروازہ پر بیٹھ کر کچھ اشعار لکھے اور اندر بھیج دئے۔ اس کے جواب میں حضرت نظام الدین نے بھی اشعار لکھ کر بھیجے۔ حضرت جی کے اشعار پڑھ کر امیر خسروؒ سمجھ گئے وہ ایک ٹھیک جگہ پر پہنچے ہیں۔ حضرت امیر خسروؒ دن میں تو شاہی دربار میں خدمات انجام دیا کرتے تھے مگر رات کو وہ خواجہ صاحب کے پاس تزکیۂ نفس کرتے۔ کچھ لوگوں کو اس بات سے اختلاف ہے کہ حضرت امیر خسروؒ شاید روایتی صوفی نہیں تھے اور یہ کہ انھیں خواجہ حضرت نظام الدین اولیاؒ ء سے خلافت نہیں ملی تھی۔ یہ ایک فضول سی بحث ہے۔حضرت امیر خسرو نے شاہی دربار اور خانقاہ دونوں کے درمیان ایسا رویہ رکھا ہوا تھا کہ جس سے دونوں جگہ کام چلتا رہے اور وہ برابر سے دونوں مقامات پر ممتاز رہے۔ خواجہ صاحب کو امیر خسروؒ کی یہ بات بہت پسند آتی ۔
ان کے دل میں اپنے استاد وپیر کی کتنی تعظیم تھی، وہ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے ۔ ایک دن کی بات ہے کہ سلطان جلال الدین خلجی نے خسرو سے کہا کہ وہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ سے ملنا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ شرط لگادی کہ خواجہ صاحب کو ان کے آنے کی اطلاع نہیں کی جائے۔ امیر خسرو یہ سن کر شش وپنج میں پڑگئے ۔لیکن پھر بھی خواجہ نظام الدین اولیاء سے اس بات کا ذکرکردیا۔ خواجہ نظام الدین اولیاء سلطان سے ملنا نہیں چاہتے تھے اور وہ خانقاہ سے چلے گئے۔ جب سلطان کو اس بات کا پتہ چلا تو امیرخسرو سے پوچھ تاچھ کی گئی کہ انھوں نے سلطان سے بدعہدی کیوں کی ۔ امیرخسرو نے جواب دیا کہ بادشاہ وقت سے بے وفائی کرکے اس دنیا میں خطرہ لاحق ہوسکتا تھا مگر خواجہ صاحب سے بے وفائی کرکے وہ دین اور دنیا دنیا دونوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے جو انھیں کسی حالت میں بھی گوارہ نہیں تھا ۔ اس بات کا سلطان پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے انھیں فوراً ہی معاف کردیا۔ کیا ہی بہتر ہو کہ آج کے شاگرد امیر خسرو سے سبق لیں۔
[email protected]
طوطئی ہند حضرت امیر خسروؒکی تعلیمات: فیروز بخت احمد
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS