سویڈن اور فن لینڈ کی ناٹو میں شمولیت پر ترکی کا اعتراض

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

یوکرین پر روس نے جب 24 فروری 2022 کو ملٹری مشن کا آغاز کیا تو اس واقعہ سے دنیا میں بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔ سب سے پہلی تبدیلی تو یہ آئی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ یوروپ کو اپنی سرزمین پر جنگ کی ہولناکیاں دیکھنے کو ملیں اور ان کے نتیجہ میں یوکرینی پناہ گزینوں کی کھیپیں یوکرین کے پڑوسی ممالک میں پہنچنے لگیں۔ پناہ گزینوں کے سلسلہ میں بھی یورپ کا نفاق اور دوہرا معیار دنیا کے سامنے آیا کیونکہ انہی یوروپی ممالک کا رویہ کبھی مشرق وسطیٰ کے جنگ سے متاثر پناہ گزینوں کے ساتھ نہایت غیر انسانی اور قابل مذمت تھا۔ دوسری بڑی تبدیلی عالمی پیمانہ پر یہ سامنے آئی کہ اقتصاد کے محاذ پر کئی ممالک کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا خاص طور پر ان ملکوں میں غذائی اجناس کی سخت کمی پائی گئی جن کا انحصار روس اور یوکرین پر بہت زیادہ تھا۔ اس فہرست میں مصر، سوڈان، مراکش، لبنان اور الجزائر جیسے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔ خود یوروپ کے جن ملکوں کا انحصار روس کے تیل اور گیس پر تھا انہیں بھی متبادل کی تلاش ہے لیکن اب تک ناکامی ہی ہاتھ آئی ہے۔ تیسری اور اہم تبدیلی یہ آئی ہے کہ یوکرین پر روسی جارحیت کے مابعد عہد میں رونما ہونے والے نئے ورلڈ آرڈر نے ناٹو کی توسیع کا راستہ کھول دیا ہے۔ اس کو عجیب اتفاق ہی کہیں گے جس ناٹو کی توسیع روکنے کی غرض سے روس نے یوکرین پر فوجی کارروائی شروع کی تھی اس کا بالکل برعکس نتیجہ سامنے آیا ہے۔
1949 میں سوویت یونین کے خلاف ناٹو کے نام سے قائم ہونے والا مغربی محاذ ایک سیکورٹی تنظیم کے طور پر کام کرتا ہے اور اس کا مقصد ممبر ممالک کو جارحیت سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس تنظیم میں اب تک تیس ممبران ہیں اور ترکی واحد مسلم ملک ہے جسے اس میں ممبرشپ حاصل ہے۔ ترکی نے ناٹو کے قیام کے محض تین سال بعد ہی 1952 میں ناٹو کے اندر عضویت حاصل کرلی تھی۔ البتہ بالٹک خطہ سے تعلق رکھنے والے ممالک فن لینڈ اور سویڈن اس تنظیم کا حصہ نہیں بنے تھے کیونکہ انہوں نے سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان جاری سرد جنگ سے بہت قبل ہی اپنے خاص تاریخی اسباب کی بنا پر کسی بھی خیمہ کا حصہ بننا گواراہ نہیں کیا تھا۔ لیکن یوکرین پر روسی جارحیت کے بعد عالمی نظام میں جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے اس کے پیش نظر فن لینڈ اور سویڈن نے یہ محسوس کیا ہے کہ اب غیر جانبدار رہنا ان کے حق میں نہیں ہے اور اسی لئے دوسو سال میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ فن لینڈ اور سویڈن وسیع مغربی خیمہ میں پناہ لینے میں ہی اپنی عافیت محسوس کر رہے ہیں اور اسی غرض سے انہوں نے 19 مئی 2022 کو باضابطہ طور پر ناٹو میں شمولیت کے لئے درخواست پیش کر دی اور دوسرے ہی دن سویڈن کی وزیر اعظم ماگڈالینا انڈرسن اور فن لینڈ کے صدر ساؤلی نینستو نے امریکی صدر سے ملاقات کرکے شمولیت کی کارروائیوں کے آغاز کے لئے گفتگو بھی شروع کر دی ہے۔ البتہ اس معاملہ میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے۔ ترکی کو فن لینڈ اور سویڈن کی ناٹو میں شمولیت پر سخت اعتراض ہے اور ناٹو کے قانون کے مطابق کسی بھی نئے ممبر کی شمولیت کے لئے لازمی شرط یہ ہے کہ تمام ممبران متفقہ طور پر اپنی رضامندی ظاہر کریں۔ ایسی صورت میں فن لینڈ اور سویڈن کو تب تک ناٹو میں شامل نہیں کیا جا سکتا جب تک ترکی اپنا اعتراض واپس لے کر ان کے لئے راہ ہموار نہ کردے جیسا کہ یونان نے مقدونیا کو ناٹو کا ممبر اس وقت تک بننے نہیں دیا تھا جب تک مقدونیہ نے یونان کے مطالبہ کو قبول نہیں کر لیا تھا۔ فن لینڈ اور سویڈن کی ناٹو میں شمولیت سے متعلق ترکی کا کہنا یہ ہے کہ ان دونوں ممالک نے ایسے لوگوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دے رکھا ہے جن کا تعلق ان تنظیموں سے ہے جو ترکی کی نظر میں دہشت گرد ہیں اور ترکی کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ آخر یہ کون لوگ ہیں جنہیں ترکی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل رکھے ہوئی ہے؟ دراصل ان لوگوں کا تعلق کرد تنظیم پی کے کے اور فتح اللہ گولن کی تحریک سے ہے جن پر یہ الزام ہے کہ وہ 2016 میں صدر طیب اردگان کے خلاف فوجی بغاوت کی کوششوں میں شامل تھے۔ اس فوجی بغاوت کے نتیجہ میں کئی جانیں تلف ہوئی تھیں اور فوجی بغاوت کے ناکام ہوجانے کے بعد بڑے پیمانہ پر ترکی کی داخلی سلامتی کے معاملوں میں تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریاں عمل میں آئیں اور فتح اللہ گولن کی تحریک کو خاص طور سے بغاوت کا ملزم مانتے ہوئے اس سے وابستہ اداروں اور افراد کو سرکاری عتاب کا شکار ہونا پڑا تھا۔ ترکی کا موقف پی کے کے اور فتح اللہ گولن تحریک کے تئیں بہت سخت ہے۔ اسی لئے جب فن لینڈ اور سویڈن نے ناٹو میں شمولیت پر ترکی کے اعتراض کو رفع کرنے کی خاطر اپنے سفارتی وفود بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا تو ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ترکی کو مطلوب دہشت گرد اس کے حوالہ نہیں کر دیئے جاتے تب تک وہ یہ امید نہ رکھیں کہ ان کی درخواست پر ترکی کی منظوری مل پائے گی۔ صدر اردگان نے مزید کہا کہ آپ اپنے سفارتی وفود ہمیں منانے کے لئے تبھی ترکی روانہ کریں جب آپ ان دہشت گردوں کو ہمارے حوالہ کرنے کا عزم رکھتے ہوں۔ ترکی نے جن مبینہ ’دہشت گردوں‘کو سونپنے کا مطالبہ گزشتہ برس کیا تھا ان کی کل تعداد 33 ہے اور جنہیں اب تک فن لینڈ اور سویڈن نے ترکی کے حوالہ نہیں کیا ہے۔ ترکی کے صدر کا کہنا ہے کہ ناٹو ایک سیکورٹی تنظیم ہے لہٰذا جو بھی ملک اس میں شمولیت کا خواہشمند ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دیگر ناٹو ممبران کی سلامتی کا بھی اتنا ہی خیال رکھے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو تنظیم کی معنویت پر منفی اثر پڑے گا۔ ترکی کو فن لینڈ اور سویڈن سے ایک دوسری شکایت یہ ہے کہ ان ملکوں نے 2019 سے ترکی کو ہتھیار فروخت کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 2019 میں جب ترکی نے اپنے شامی حلیف جماعتوں کے ساتھ مل کر شام کے شمال مشرقی حصہ پر قابض وائی پی جی سے اس علاقہ کو حاصل کرنے کے لئے حملہ کیا تھا تو اس کے ردعمل کے طور پر فن لینڈ اور سویڈن نے ترکی کو ہتھیار فروخت کرنا بند کر دیا تھا۔ وائی پی جی کا تعلق کرد ملیشیا گروپ پی کے کے سے ہے۔ یہ دونوں جماعتیں ہی ترکی میں دہشت گرد مانی جاتی ہیں اور ترکی اس سلسلہ میں ادنیٰ سمجھوتہ کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ وائی پی جی کے مسئلہ پر ہی ترکی اور امریکہ کے تعلقات بھی خراب ہوئے جس میں ایک دوسرا پہلو یہ بھی شامل ہوگیا کہ ترکی نے روس سے S-400 میزائل کا سودا کرلیا اور اس کے نتیجہ میں امریکہ نے F-35 میزائل پروگرام سے ترکی کو باہر کر دیا۔ ترکی کا اپنے ناٹو حلیفوں پر اعتراض ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کبھی بھی ترکی کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ بطور خاص امریکہ سے شکایت یہ ہے کہ وہ پی کے کے کو تو دہشت گرد تنظیم مانتا ہے جب کہ وائی پی جی کو دہشت گرد نہ مان کر انہیں ہتھیار سپلائی کرتا ہے جس سے ترکی کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ترکی کو اس بات کی تکلیف بہت زیادہ ہے کہ 2019 میں جب اس نے شام کے شمال مشرق میں وائی پی جی سے حاصل کی گئی زمین پر دس لاکھ ان شامی باشندوں کو بسانے کی کوشش کی تھی جو ترکی میں پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے تھے تو بین الاقوامی طور پر انہیں تعاون نہیں ملا تھا۔ ترکی نے اپنے موقف کو امریکہ کے سامنے بھی واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ جب تک ترکی کے خدشات کو دور نہیں کیا جاتا تب تک فن لینڈ اور سویڈن کی عضویت کو منظوری نہیں مل سکتی ہے۔ اسی بات کو ترکی کے وزیر خارجہ چاؤش اوگلو نے نیویارک میں اپنے امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن سے اپنے حالیہ امریکی دورہ کے موقع ہر دہرایا تھا اور اسی موقف کو مزید وضاحت سے صدر اردگان کے مشیر برائے خارجہ پالیسی ابراہیم قالین نے فن لینڈ، سویڈن اور امریکہ کے اپنے ہم منصبوں سے بھی بیان کر دیا ہے۔ ترکی کے اعتراض پر امریکی صدر نے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ سب ٹھیک ٹھاک ہوجائے گا اور ترکی کا اعتراض رکاوٹ ثابت نہیں ہوگا۔ ناٹو کے چیف نے بھی ایسی ہی امید ظاہر کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ترکی کی رضامندی حاصل کرنے کے کیا طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ شاید ترکی بھی اس موقع کو اپنے مفاد میں بہتر ڈھنگ سے استعمال کرکے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کی گتھی کو سلجھانا چاہتا ہے اور امکان یہی ہے کہ ترکی کو اس میں کامیابی بھی مل جائے گی۔ یوکرین پر روسی جارحیت کے نتیجہ میں مزید کیا تبدیلیاں نیو گلوبل ورلڈ آرڈر میں ہونا باقی ہیں اس کے لئے انتظار کرنا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کوئی حتمی بات کہہ پانا اس وقت ممکن نہیں ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS