تاریخ کے نازک دوراہے پرہے ترکیہ

0
تاریخ کے نازک دوراہے پرہے ترکیہ

شاہنواز احمد صدیقی

ایک زمانے میں مسلم دنیا کی سب سے بڑی طاقت ترکی میں الیکشن نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے اور وہاں پہلے مرحلے کی پولنگ میں کوئی بھی سیاسی پارٹی، سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کو 50فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے دوبارہ الیکشن ہورہے ہیں، یہ الیکشن رجب طیب اردگان کی خارجہ، داخلی پالیسی اور اقتصادی پالیسی پر ریفرنڈم بھی کہہ سکتے ہیں، اس الیکشن میں دو دہائی سے زیادہ عرصہ تک برسراقتدار رہنے والے طیب اردگان ترکیہ کی موجودہ عالم سیاست میں موجودگی پر عوام کی رائے بھی اجاگر ہوکر سامنے آجائے گی۔ ترکیہ اس وقت کئی ملکوں میں اپنی فوجیں بھیج چکا ہے اور یوروپ اور امریکہ اس کی اس خارجہ اور دفاعی پالیسی سے نالاں ہے کیونکہ طیب اردگان سے قبل کسی بھی ملک میں خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد اس طرح کھلم کھلا اپنی فوجیں غیرممالک میں تعینات نہیں کیں۔ ترکیہ کے کئی حلقوں میں اس بات پر ناراضگی ہے کہ گھریلو سطح پر اس قدر مسائل کے باوجود موجودہ صدر غیرممالک عراق، شام، لیبیا اور افریقہ کے کئی ممالک میں عمل دخل کیوں کررہے ہیں۔ صدر طیب اردگان مغربی ممالک سے جداگانہ خارجہ سیاسی پالیسی اپنارہے ہیں جبکہ ان کے حریف کمال خلیق اوگلو کا کہناہے کہ وہ مغربی ممالک امریکہ اور یوروپ کے تئیں عدم تصادم اور دوستانہ پالیسی اختیار کریں گے وہ جدیدترکی کے خالق اور مغرب پرست کمال اتاترک کے نظریات کے حامی ہیں اور انھوںنے ترکیہ کے مغرب پسند اور جدید نظریات کے حامل طبقہ کو اپنا ٹارگیٹ بنا کر انتخابی پالیسی اختیارکی ہے۔ ان کی انتخابی پالیسی میں نئی نسل اور تعلیم یافتہ طبقہ پرفوکس کیاگیا ہے۔ کمال خلیق اوگلو ایک ماہر اقتصادیات ہیں اور انھوں نے ترکی میں کرپشن کے خلاف مہم چلا کر انصاف پسند اور شفاف نظام حکومت کے حامیوں کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ طیب اردگان کا کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف بہت سخت موقف ہے، وہ علیحدگی پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کرتے رہے ہیں۔ اندرون ملک دہشت گردانہ کارروائیوں پربھی انھوں نے سخت ردعمل ظاہر کیاہے اور عراق اورشام میں کردوں کے خلاف ان کی فوج مورچہ لیے ہوئے ہے۔ کرد آبادی کو زیادہ چھوٹ، مدد اور اقتصادی اور عسکری تعاون دینے کی وجہ سے امریکہ اور مغربی ممالک پر طیب اردگان نکتہ چینی کرتے رہے ہیں اور ناٹو کا ممبر ہونے کے باوجود یوروپ کی ترکیہ کے تئیں پالیسی کافی حد تک جانبدارانہ اور متعصبانہ رہی ہے۔
خیال رہے کہ یوروپی یونین میں ترکی کو ممبرملک کا مکمل درجہ حاصل نہیں ہے۔ اس لیے الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ ترکیہ نے آرمینیا میں نسلی تطہیر کی تھی جس میں ہزاروں بے گناہ افراد مارے گئے تھے، ترکیہ اس بابت اپنے آپ کو قصوروار قرار نہیں دیتا ہے۔ مغربی ممالک ایسے مبینہ قتل عام کو قتل عالم تسلیم کرنے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے اور متاثرین کے دکھوں کا ازالہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے ہیں اور ترکیہ کی یوروپی یونین میں مکمل رکنیت کو اس سے مشروط کرتے ہیں۔ یہ درجہ حاصل کرنے کی مسلسل کوششوں کے باوجود ارباب اقتدار کو مکمل رکنیت نہیں مل پائی ہے اور بڑی قومی طاقت اور عالم اسلام اور عالمی سیاست اور سفارتی دنیا میں سرگرم رول ادا کرنے کے باوجود ترکیہ کو اٹلی، فرانس، جرمنی وغیرہ کی طرح کی مراعات اور سہولیات حاصل نہیں ہیں۔
بہرکیف، ترکیہ کے حالیہ الیکشن میں اب صرف دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے کیونکہ تیسرے صدارتی امیدوار سینن اوگان نے 28مئی کی پولنگ میں طیب اردگان کو حمایت دینے کا اعلان کیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلہ کے پس پشت طیب اردگان کو اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ اب ایسے میں وہ نہیں چاہتے کہ پارلیمنٹ کی اکثریت جس میں 1600ارکان ہوتے ہیں اور صدر کے عہدے پر دو الگ الگ اتحادوں اور سیاسی مکاتب فکر کے افراد فائز ہوں، اس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور تصادم میں اضافہ ہوگا۔ طیب اردگان کو 14مئی کی پولنگ میں 49.52فیصد ووٹ ملے جبکہ ان کے حریف کو ان سے کافی کم 44.79فیصد ووٹ ملے۔ صدارتی الیکشن میں امیدوار کو واضح اکثریت یعنی 50فیصد ووٹ ملنے چاہئیں۔ اب سینن اوگان کی حمایت ملنے سے طیب اردگان کو ووٹروں کی واضح اکثریت ملنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ اوگان کو 5.17فیصد ووٹ ملے تھے۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ اوگان کو اردگان کی حمایت کے اعلان سے قبل کنگ میکر کہا جارہا تھا۔ اب کنگ میکر نے موجودہ صدر کوحمایت دے کر سیاسی رخ کو واضح طور پر اہمیت دے دی ہے۔ اوگان مذہب پسند دایاںبازو کی جماعتوں اے ٹی اے اتحاد کے امیدوار تھے، ان کی خود کی پارٹی وکٹری (Victory Party)مہاجرین مخالف پارٹی سمجھی جاتی ہے۔ مغربی ایشیا میں سیاسی اتھل پتھل، خانہ جنگی بطور خاص عراق، شام وغیرہ میں برادرکشی کے بعد بڑی تعداد میں مہاجرین ترکیہ میں داخل ہوگئے تھے اور جس کی وجہ سے معیشت پربرااثر پڑا تھا۔ عام ترک شہری اس سرزمین پر تقریباً چارملین مہاجرین ہیں اور اس الیکشن میں مہاجرین کی شام واپسی ایک بڑاایشو ہے۔ طیب اردگان چاہتے ہیں کہ مہاجرین کی مرضی پر واپسی کا اختیار چھوڑ دیا جائے جبکہ کمال خلیق اوگلو کو مہاجرین کو دلچسپی لے کر واپس بھیجنے کے موقف کے حامی ہیں۔ وکٹری پارٹی کی قیادت والے اتحاد کے لیڈر نے دوسرے مرحلے میں طیب اردگان کی سیاسی پارٹی اے کے پی کی قیادت والے اتحاد کو حمایت کا فیصلہ اسی لیے کیا ہے اس کو لگتا ہے کہ عوام طیب اردگان کے ساتھ ہیں اور صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں موجودہ صدر کو ہی کامیابی ملے گی۔ علاوہ ازیں اے ٹی اے اتحاد نظریاتی طورپر اسلام پسند ہے اور دونوں اتحادوں کے درمیان یہ قدرے مماثل ہے۔n
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS