مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ٹکراؤ

0

ہندوستان میں ویسٹ منسٹر پارلیمانی طرز حکومت قائم ہے اور آئین میں مرکز اور ریاستوں کے درمیان حقو ق کو فرائض کی وضاحت کی گئی ہے مگر روز مرہ کی نظام میں کچھ ایسے امور ہیں جو کبھی حقیقی ہوتے ہیں اور کبھی جان بوجھ کر پیدا کیے جاتے ہیں جو سیاسی کشمکش کی غمازی کرتے ہیں۔ اس تصادم کو ٹالنے کے لیے اس سلسلہ میں ہندوستان میں مرکز اور ریاستوں کے درمیان حقوقوں کی فرائض کی ایک فہرست ہے اور ایک ایسی بھی فہرست ہے جسے Concurrent Listیعنی مشترکہ کہتے ہیں جو اس بات کی متقاضی ہے کہ اقتدار کے دونوں مراکز آپس میں افہام وتفہیم کے ذریعہ ان امور کو حل کرسکتے ہیں۔ پچھلے دنوں دہلی سرکار یعنی National Capital Terrotiry این سی ٹی اور مرکزی سرکار کے درمیان اختلاف رائے کا ایک اور ایشو نکل آیا اور مرکز نے ایک آرڈیننس کے ذریعہ دہلی کی حکومت کو ان حقوق سے محروم کردیا جو سپریم کورٹ نے اس کو ایک حالیہ فیصلہ میں دیے تھے۔ یہ معاملہ افسران کی تقرری اور ٹرانسفر کو لے کر تھا۔ اس معاملہ کو لے کر دہلی کے وزیراعلیٰ جو کہ کئی محاذوں پر مرکزی سرکار سے متصادم ہے۔ پورے ہندوستان میں گھوم رہے ہیں او رمختلف پارٹیوں اور وزرائے اعلیٰ سے ملاقات کرکے اس معاملہ کو مرکز اور ریاستو ںکے درمیان حقوق اور فرائض کی کشمکش کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ اروند کجریوال کا یہ کہناہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی دہلی میں اس کی حکومت کو بے اثر کرنے عوامی خدمات کے ڈلیوری کو متاثر کرنے کے لیے جابندارانہ طریقے سے کام کررہی ہے اور اس کے کام کاج میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ جبکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس کے حق میں آیا تھا اور ملک کی عظیم ترین عدالت نے اس کی حکومت میں کام کرنے والے افسران کی تقرری اور ٹرانسفر کو ایک منتخب سرکار کا حق قرار دیا تھا۔ مرکزی سرکار نے اس کے کام کاج میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے گورنمنٹ آف نیشنل کیپٹیل ٹیریٹری آف دہلی (ترمیم ) آرڈیننس 2023جاری کرکے دہلی شہر میں جس کو ایک ریاست کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے۔ ایک ایسا آزاد ادارہ دے دیاہے تاکہ اس ادارے کے ذریعہ افسران کی تقرری اور ٹرانسفر کی ذمہ داری سونپنے کی تجویز ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ادارے کے قیام کے ذریعہ مرکزی سرکار سپریم کورٹ کے فیصلہ ہونے والے ’ نقصان ‘کا ازالہ کرنا چاہتی تھی۔ جس کے بعد دہلی کی حکومت کو کنٹرول کرنے کا موقع نکل گیا۔ دراصل بی جے پی کی سرکار دہلی سرکار کو ’بے لگام‘ چھوڑنا نہیں چاہتی اور اسی لیے دہلی کے لیفٹننٹ گورنر کو اس بات کا پورا اختیار دینا چاہتی ہے کہ وہ دہلی کی بیورو کریسی پر کنٹرول کریں۔ اب اروند کجریوال اس ایشو کو اٹھا کر مرکز کی بی جے پی سرکار کے خلاف ایک محاذ کھڑا کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ دو روز قبل مہاراشٹر میں تھے جہاں ان کی ملاقات این سی پی کے صدر شرد پوار سے ہوئی۔ اس کے علاوہ انہوںنے ادھوٹھاکرے کی شیو سینا کے لیڈر سے ملاقات کی۔ ظاہرہے کہ یہ دونوں پارٹیاں بی جے پی مرکزی سرکار کے حریفوں میں شمار ہوتی ہیں اور اروندکجریوال بی جے پی او راین ڈی اے کے حریف جماعتوں کو اپنے ساتھ میں لا کراس ایشو کو قومی اور اہم ایشو بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار سے بھی ملاقات کرچکے ہیں اوران کی ملاقات راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر اور بہار کے نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو سے بھی ملاقات کی۔
اس ترمیمی آرڈیننس کے ذریعہ گروپ اے افسران اور دہلی انڈمان، نکوبار لکشدیپ ، دمن اینڈ دیو ، اینڈ دادر نگر حویلی سول سروس Delhi, Andaman & Nicobar Lakshadeep / Daman & Diu and Dadar & Nagar Haveli Civil Serviceکے ذریعہ لیفٹننٹ گورنر کو انتظامی امور میں زیادہ اختیارات دیتا ہے۔ اس آرڈیننس کے ذریعہ نہ صرف گورنر کو یہ اختیار مل جائے گا کہ وہ افسران کی پوسٹنگ ٹرانسفر کو اپنی مرضی کے مطابق کرے بلکہ ویجلینس افسران کی بھی تقرری اور ٹرانسفر میں اس کو مکمل اختیار حاصل ہو جائے گا۔ اس آرڈیننس کے ذریعہ وزارتوں کے سکریٹریوں کے اختیارات بڑھ جائیں گے۔ وہ آزادانہ طریقہ سے کام کریں گے اور دہلی کی حکومت کا کنٹرول کم ہوگا تو ان کی منمانی بڑھے گی اور اس طرح کافی حد تک وزیروں کی حیثیت کم ہوگی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اختیارات دے کر سی ایم کو محض ایک دستخط کرنے والا سربراہ بنا کر رکھ دیا جائے گا اور تمام اختیارات بیورو کریسی اور اگر ہم عام زبان میں کہیں تو عوامی طور پر منتخب حکومت بے دست وپا ہوں جائے گی اور بیورو کریسی لیفٹننٹ گورنر کے دست نگر بن کر رہ جائے گی۔ یہی مودی سرکار کی منشا بھی ہے۔
دہلی کے وزیراعلیٰ کجریوال نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس آڈریننس کے خلاف اعلیٰ ترین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور آرڈیننس قانون کی شکل نہ لے اس لیے اپوزیشن پارٹیوں سے اپیل کریں گے کہ وہ راجیہ سبھا میں اس بل کو پاس نہیں ہونے دے۔ کئی پارٹیاں اس معاملہ کو ریاستی حکومتوں کے کام کاج میں مداخلت سے تعبیر کرتی ہیں اور 2023کے لوک سبھا انتخابات میں اس ایشو کو بھی اٹھائیں گے کہ کس طرح سیاسی رقابت کی بنا پر دستوری ضابطوں کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
اس پورے تنازع کا ایک پہلو ہے، بی جے پی کی طرح کانگریس بھی اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی سے پر خاش رکھتی ہے، گزشتہ روز کانگریس نے کہا کہ دہلی سرکار کو اختیارات پہلے ہوتے ہیں اس میں کسی کو اعتراض نہیں تھا، نہ مدن لال کھورانہ صاحب سنگھ ورما کو اس دائرہ اختیار میں کام کرنے میں پریشانی نہیں ہوئی مگر اروندکجریوال کو پریشانی ہورہی ہے۔ اپوزیشن کے اتحاد کے لیے کئی حلقوں میں سرگرم ہے۔ اپوزیشن دو خیموں میں بٹی ہوئی ہے۔ ترنمول کانگریس، تلنگانہ کی وی آر ایس علیحدہ گروپ میں شامل ہیں جو کانگریس اور بی جے پی دونوں سے یکساں عداوت رکھتی ہیں۔ کانگریس کی حمایت والا گروپ علیحدہ ہے۔ کانگریس اور اس کی ہم خیال پارٹیاں اس سمت کچھ زیادہ ہی سرگرم ہیں۔ کرناٹک میں کانگریس کے حلف برداری میں اپوزیشن لیڈروں کو مدعو کیا گیامگر عام آدمی پارٹی کو دعوت نہیں دی گئی۔ کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ اس نے دہلی کے اس معاملہ پر ابھی کوئی موقف اختیار نہیں کیا ہے اور ریاستی یونیوں سے سے بات چیت اور مشورہ کرکے پارٹی کی لائن طے کرے گی۔ دہلی کے علاوہ پنجاب میں بھی عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے اور وہاں کانگریس کو بے دخل کرکے عام آدمی پارٹی اقتدار میں آئی ہے ، اسی طرح دہلی میں دونوں پارٹیوں کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے درمیان زبردست اختلافات ہیں۔ اس طرح عام آدمی پارٹی کو دہلی اور پنجاب میں کلیدی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی دونوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پنجاب کانگریس کے لیڈروں نے کجریوال کی اپوزیشن اتحاد کی اس کوشش پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ اس موقف دیگر اپوزیشن پارٹیوں سے علیحدہ ہے اور اس حساس معاملہ پر پارٹی(کانگریس)کو ان کی رائے لینی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال مستقبل کے سیاسی خطروں اور اپوزیشن کے اتحاد کی اصل اور زمینی صورت حال سے آگاہ کرنے والی ہے۔
اروندکجریوال کو امید ہے کہ جب مذکورہ آرڈیننس لوک سبھا میں پاس ہوجائے گا کیونکہ وہاں بی جے پی اور این ڈی اے کی مکمل اکثریت ہے۔ مگر راجیہ سبھا میں اپوزیشن ان کا ساتھ دے تو بی جے پی کے لیے اس کو قانون بنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مگر اس کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کانگریس کی راجیہ سبھا میں مخالفت اس کو مہنگی پڑسکتی ہے اور دونوں کلیدی پارٹیوں سے ٹکرائو عام آدمی پارٹی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS