حقیقی تعلیم دنیا کے کسی بھی مذہب کی نفی نہیں کرتی

0

عبدالسلام عاصم

نئی نسل کے چند نمائندوں سے ایک ذاتی ملاقات میں جہاں کئی پریشان کُن امور زیر بحث آئے، وہیں اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ موجودہ منظر نامے کو عملاً کیسے بدلا جا سکتا ہے! جس میں ہر مذہب، ذات، نسل اور رنگ سے تعلق رکھنے والے لوگ انسان سے زیادہ انسانوں کی الگ الگ پہچان کو اہمیت دینے لگے ہیں اور انسان کو جن سے خطرہ ہے اُن کی فہرست میں مروجہ جرائم پیشہ لوگوں کا نام بہت نیچے چلا گیا ہے۔ انسانوں کی ایک سے زیادہ عین فطری پہچان کو وجہ ِنزاع بنانے میں اُن لوگوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جن کی وجہ سے آج بیشتر انسانی رشتے نفرتوں، کدورتوں اور انتقامی سلسلوں کی بے ہنگم کڑیوں میں تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں۔
ایک ایسے عہد میں جب ہمارے ملک کی ایک سے زائد اعلیٰ تعلیم گاہیں درس و تدریس کے اُن مدارج سے گزر رہی ہیں کہ آئندہ پندرہ بیس برسوں میں دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے کلیدی عہدوں پر ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانان فائز ہوں گے، درونِ معاشرہ ایسا کیا کر دیا گیا ہے کہ بین فرقہ ہم ایک دوسرے سے مبینہ ظالموں اور مظلوموں کی اولادوں کی طرح پیش آرہے ہیں۔ بازی پلٹ مقابلہ جاری ہے۔ ان حالات سے دونوں طرف جو بیزار ہیں، وہ اتنی کم تعداد میں ہیں کہ صرف فرار کے رُخ پر اپنی بیداری کا مظاہرہ کر پا رہے ہیں۔ ہجرت کی ماضی کی کہانیاں بہ اندازِ دیگر دہرائی جارہی ہیں۔ تو کیا مبینہ ظالموں اور مظلوموں کے گھر اتفاق سے پیدا ہو جانے والوں کو آج کے نسبتاً زیادہ روشن ماحول میںیہ نہیں بتایا جا سکتا کہ وہ ماضی کو دفن کر کے انسانیت کی بقا کے حق میں امن سے زندگی گزارنے کی خاطر متحد ہوجائیں ورنہ انتقام کا بظاہر جاری سلسلہ ہماری نسلوں کو تباہ کر دے گا۔
اس تباہ کُن سلسلے سے نجات حاصل کرنے کی واحد صورت ہے کہ نئی نسل کو مربوط طریقے سے عقائد کے نام پر نظریاتی انتشار کا کاروبار کرنے والوں سے بچانے اور سائنسی علوم سے ان کے اندر دلچسپی پیدا کرنے کی منظم کوشش کی جائے۔ اس موڑ پر جب ہم عملی امکانات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ بعد از خرابیِ بسیار سوشل میڈیا کی گمراہی کا دائرہ اب اتنی تیزی سے وسیع نہیں ہو رہا ہے جتنی تیزی اس میں ابھی کل تک دیکھی جا رہی تھی۔ یہ اندازہ اس بات سے ہوا کہ عقائد کے مختلف حوالوں سے پیدا کئے جانے والے تنازعات کو اب حقیقی تعلیم یافتہ حلقہ سمجھنے لگا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ نئی ملی نسل کو گھروں کے اندر اعلیٰ انسانی و اسلامی کردار کے ماحول میں پرورش کے بعد گھر کی چوکھٹ کے باہر حقیقی تعلیم کی راہ پر ڈالیں۔ ہم اپنی ابتدائی زندگی کے کوئی اٹھارہ بیس سال تعلیم حاصل کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ یہ تعلیم کتنی باضابطہ ہوتی اور کتنی خانہ پری کی حد تک اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔ بشرطیکہ ہم یہ سوچنے کے متحمل ہوں کہ حقیقی تعلیم کیا ہے۔ ایک طرف جہاں ہم اکثر خواندگی اور تعلیم کو ایک سمجھ کر کنفیوز ہوجاتے ہیں وہیں دوسری جانب دینی تعلیم کو دنیا اور آخرت دونوں سنوارنے کا ذریعہ مان کر(سمجھ کر نہیں) پہلے کورے رہ جاتے ہیں پھر کنارے لگ جاتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا تعلیم صرف درس گاہوں اور کتابوں کے نظریاتی پہلوؤں کے گرد گھومتی ہے؟ ہر گز نہیں۔ حقیقی تعلیم نصابی کتابوں کے چھپے ہوئے صفحات کے مندرجات کے بین السطور مفہوم کو سمجھ کر پڑھنے، (حقیقی تعلیم سے عملاً بہرہ ور ) پروفیسروںکے چالیس منٹ کے لیکچرز سننے اور بعض اوقات کلاس روم کے باہر کی فضا میں آزادانہ سانس لینے سے طالب علم زندگی کے اُن حقائق سے آگاہ ہوتا ہے جو عین فطری تقاضہ ہے۔
بدقسمتی سے نظریاتی درس گاہیں اس تقاضے پر پہلے دن سے ہی کسی اعلان کے بغیر راہِ عمل بند کر دیتی ہیں۔ اس طرح دنیا کی تخلیق کا مقصدِ ایزدی طالب علموں کے ذہن کے اندر ہی فوت پاجاتا ہے۔ حقیقی تعلیم کا بنیادی مقصد کسی ایسی آزمائش کی تیاری نہیں جو بس خیالوں کی دنیا میں بسی ہو۔ حقیقی تعلیم کا بنیادی مقصد فرد کی شخصیت کو تشکیل دینا ہے اور آخرت سے پہلے دنیا کو احسن بنانے کیلئے مطلوب کردار کی تشکیل کی خاطر بچپن سے بہتر وقت کیا ہوسکتا ہے۔ کہتے ہیںکہ بچے گیلی مٹی کی طرح ہوتے ہیںاور بڑے ہو کر ویسے ہی بنتے ہیں جیسا اُنہیں بچپن سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی حقیقی کامیابیوں کے رُخ پر تعلیم دینی چاہیے۔ بصورت دیگر وہ دنیا داری اور دنیا پرستی کے فرق کو نہیں سمجھ پائیں گے اور خیالوں کی دنیا میں ایسے کھوئے رہیں گے کہ اُنہیں کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوگا کہ عملاً وہ صرف دنیا پرست بن کر رہ گئے ہیں۔
حقیقی تعلیم اسباق رٹ کر حاصل نہیں کی جا سکتی۔اس کا تعلق دماغ اور دل دونوں سے ہے۔ حکایات اور روایات کے حصار میں سوچ کو محدود کرنا یا علمِ ریاضی کے اعداد و شمار اور الجبرا کے فارمولے ذہن میں ٹھونسنا کسی کے دماغ اور دل کو حقیقی تعلیم دینے سے زیادہ آسان ہے۔ لیکن اس طرح بچے یہ تو سمجھ سکتے ہیں کہ وہ مادری یا مقامی، علاقائی، قومی زبانوں یا ریاضی کی کلاسوں میں کیا کچھ پڑھتے ہیں، لیکن یہ کبھی نہیں سمجھ پائیں گے کہ وہ اِن اسباق سے کیوں گزر رہے ہیں! کیا بچوں کیلئے یہ محدود واقفیت کافی ہوگی؟ اِس رُخ پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کی تعلیم ہی اصل میں اُن کی وہ پرورش ہے جو انہیں دنیا کیلئے سود مند یا مہلک بناتی ہے۔ ذہن اوردل کی مربوط پرورش جب اُن سے بلوغت کی دہلیز پار کراتی ہے تو وہ ایک مثالی وجود میں تبدیل ہونے لگتے ہیں اور خود سے بہتر مثال قائم کرنے کی ذہنی اور جسمانی کوشش کرتے ہیں، صرف افزائش نسل کا ذریعہ بن کر نہیں رہ جاتے۔ بلوغت کی دہلیز پار کرنے کے موڑ پر طالب علموں کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے اور دل کی خواہشات ایک فرد کی زندگی میں کس طرح توازن لاسکتی ہیں۔
حقیقی تعلیم دنیا کے کسی بھی مذہب کی نفی نہیں کرتی۔ البتہ ’یقین‘ و’ شہادت‘ کے مابین ایک ایسا توازن قائم کرتی ہے کہ ’ماننے‘ سے ’جاننے‘ کے سفر میں ایک طالب علم صرف ردِّ تشکیل سے کام نہیں لیتا بلکہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں احسن متبادل سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ دماغ کو سوچنے اور سمجھنے کی تعلیم دینا انتہائی ضروری ہے تاکہ کوئی بھی طالب علم زندگی کے سفر کے آغاز میں نظم و ضبط اور معمولات کو جامد اصولوں کے تابع نہ بنائے بلکہ اُنہیں رفتار زمانہ سے ہم آہنگ رکھے اور بیرونی دنیا میں اقوام عالم کے ساتھ معاملات میں کوئی ایسی دشواری پیش نہ آنے دے کہ بگڑی بات بننے کی جگہ بنتی بات بگڑنے لگے۔
عصری منظر نامے میں ملتِ اسلامیہ کو اسی آزمائش کا سامنا ہے جہاں ہر مصیبت میں اُسے کسی کی سازش نظر آتی ہے اور وہ اُسی کے مطابق زبانی، تحریری اور عملی ردِّعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔اس میں امکانات کی کہیں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ بس اندیشے ہی اندیشے ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال دوسروں بہ الفاظِ دیگر مخالفین کو ایسی زیادتیاں کرنے پر مجبور کرتی ہے جو وہ زیادتی سے زیادہ پیش بندی کے طور پر کرتے ہیں۔ آزمائش کوئی بُری چیز نہیں لیکن غلطیوں کے نتائج کو آزمائش سمجھنا پرلے درجے کی حماقت ضرور ہے۔ یہ حماقت غلطی کے ازالے کی راہ مسدود کر کے پے بہ پے ایسے غلط اقدامات کراتی ہے کہ زندگی اجیرن ہو کر رہ جاتی ہے اور اپنے اعمال سے غافل بے یارو مددگار مظلوموں کو موت میں پناہ نظر آنے لگتی ہے۔
نسل آئندہ کو لازمی طور پر اس کا ادراک کرکے اُس خسارے سے ملت کو باہر نکالنا چاہیے جو جانے انجانے ہر طرح کی غفلتوں اور لغزشوں کا شاخسانہ ہے۔ حقیقی تعلیم زندگی کے مقصدِ ایزدی کو تلاش کرنے اور اسے پورا کرنے کا ایک بہتر موقع فراہم کرتی ہے۔ اس میں ’’ذہن‘‘ جہاں کرداروں پر زندگی کے احترام کو ترجیح دیتا ہے وہیں ’’دل‘‘ زندگی میں خود اعتمادی، خود انحصاری، ہمت اور عزم کو حوصلہ بخشتا ہے۔ دورانِ تعلیم ان مراحل سے گزرنے والے بچے بڑے ہونے کے بعد برونِ خانہ بھی پرامن اور خوشحال زندگی گزارنے کے از خود متحمل ہو جاتے ہیں۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS