آج مسلمان نہیں ہندوستان خطرے میں:مولانا سید ارشدمدنی

0

جب بھی21ویں صدی کی تاریخ لکھی جائے گی اور اس میں صف اول کے عالمی رہنماؤں اور علماء کا ذکر ہوگا تو ایک بڑانام جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی کا ہوگا ۔ حضرت مولانا سید ارشدمدنی کی شخصیت صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ ملک اور ملک کے تمام لوگوں خواہ وہ کسی فرقہ ، مذہب یا خطہ سے تعلق رکھتے ہوں ان سب کے لئے نہایت قیمتی ہے۔ ان کے دل میں صرف مسلمانوں کی فلاح وبہبود نہیں بلکہ ہر ہندوستانی کی فلاح بہبود کا جذبہ موجزن ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کسی قوم کی بہتری اور خوشحالی کیلئے ملک میں امن واتحاد اور بھائی چارہ کا ہونا اشدضروری ہے۔ وہ بہترین دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کے بھی حامی ہیں ۔ ایک طرف جہاں ان کے دل میں قوم کا دردہے تو دوسری طرف ملک سے محبت ان کی رگوں میں دوڑتی ہے۔ وہ کمزوروبے بس مسلمانوں کے لئے قانونی ،سیاسی اورمعاشی ہر سطح پر جنگ لڑرہے ہیں۔ ان کا لہجہ نرم ضرورہے لیکن عزائم پختہ اور حوصلے بلند ہیں ۔آج مسلمان اپنی تاریخ کے تاریک ترین دورسے گزررہے ہیں ان کے وجودپر سوالیہ نشان لگایا جارہا ہے ،ایسے دورمیں بھی کوئی مسلمانوں کے ساتھ کھڑاہے تو وہ مولانا سید ارشدمدنی کی ذات گرامی ہے جن کی قیادت میں ملک کے علماء کی جماعت جمعیۃعلماء ہند ملک بھر میں سرگرم ہے۔ ان کا نام ہر اس مسلمان کے دل ودماغ پر نقش ہے جو کسی ظلم کا شکارہوا ہو، خواہ وہ دہشت گردی کے نام پر ہو، این آرسی کے نام پریا فسادات اورتبلیغی جماعت کے نام پرہویا پھر قدرتی آفات میں برباد ہوا ہو۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ ہورہی ناانصافی کے خلاف نہ صرف آواز بلند کرتے ہیں بلکہ ہر سطح پر حکمت عملی کے ساتھ اپنا کام کررہے ہیں۔ وہ اس مردمجاہد کے چشم وچراغ ہیں،جس کو دنیا اسیر مالٹاشیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدمدنیؒ کے نام سے جانتی ہے، جنہوں نے ہندوستان کو آزادی دلانے کے لئے ہر طرح کی قربانیاں دیں ، جیل کی صعوبتیں برداشت کیںاوردین اسلام کی حفاظت کے لئے فولادی چٹان کی طرح کھڑے رہے۔ آج عالم اسلام میں ایسی شخصیات بہت کم ہیں ۔ ہندوستانی مسلمان خوش نصیب ہیں کہ انہیں مولانا سید ارشدمدنی جیسا عالم دین ، سماجی قائد اور رہبر نصیب ہوا ۔ حالانکہ اب ان کی عمر تقریبا 82سال ہوچکی ہے لیکن وہ آج بھی ملک میں مسلمانوں کی سماجی ، معاشی اورسیاسی صورتحال کے تئیں اتنے ہی فکرمند نظرآتے ہیں جتنے پہلے تھے، ان سے ہوئی بات چیت کے دوران انہوں نے زور دیکر کہا کہ آج مسلمانوں کو قیادت کی نہیں بلکہ ان میں اپنی مذہبی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا  جذبہ پیداکرنے اوراپنے تاریخی کردارکو بنائے رکھنے کی ضرورت ہے ،ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ قانون انصاف کے لئے بنتاہے ، اگر لوگوں کو انصاف نہیںملے گاتوملک کے حالات کتنے خراب ہوں گے اس کااندازہ نہیں لگایاجاسکتا، آج جو حالات پید اکئے جارہے ہیں اس سے مسلمانوں کو نہیں ملک کو خطرہ ہے ۔پیش ہیں جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی سے روزنامہ راشٹریہ سہارادہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر محمد فخرامام کی گفتگوکے چند اہم اقتباسات ۔

 

سوال: ہندوستان کس طرف جارہا ہے ، جو لوگ اس خوف و دہشت کے ماحول میں بھی حق بات کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں انہیں مختلف طریقوں سے پریشان کیا جارہا ہے اس سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ 

 

جواب :بلاشبہ ملک کے حالات انتہائی خراب ہیں، بلکہ میں تو کہوںگاکہ اس طرح کے حالات ملک کی تقسیم کے وقت بھی پید انہیںہوئے تھے۔اُس وقت مارکاٹ اور خوں ریزی تو ہوئی مگر ہمارامعاشرہ فرقہ وارانہ بنیادپر تقسیم نہیں ہواتھا ۔جمعیۃعلماء ہند ملک کی آزادی کے بعدسے ہی ان خطرات کو محسوس کرتی رہی ہے اور اس نے ایک بارنہیں بلکہ ہر موقع پراور ہر سطح پر باربار متنبہ کیا کہ فرقہ پرستی کے ڈنک کوختم کرو، اگر اسے ختم نہیں کیا گیا تو ملک اس مقام پرپہنچ جائے گا جہاں چاہ کر بھی سنبھالنا مشکل ہوگا ۔ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد جو لوگ اقتدارمیں آئے انہیں بھی ایسے حالات کے پیداہونے کا احساس تھا، اس کے باوجود انہوں نے اس جانب توجہ نہیں دی ، اگر توجہ دی جاتی توآج حالات کچھ اورہوتے ،ملک کیلئے کانگریس کی جوخدمات ہیں انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ہمیں افسوس صرف اس بات کاہے کہ آج جو چیزیں ہورہی ہیں یہ تو ہم پہلے سے جانتے تھے۔ آج ایک مخصوس نظریہ کو ملک پر تھوپنے کی کوشش ہورہی ہے ، جمہوریت میں آمرانہ رویہ کی یہ آمیزش آگے چل کر کس قدرتباہ کن ہوسکتی ہے ، اس بارے میں سوچ کر ہی وحشت ہوتی ہے ، شہرسے گاؤں تک سماجی اتحاد کو تباہ کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں ، ہر مسئلہ کو مذہبی عینک سے دیکھاجانے لگاہے ، المیہ یہ ہے کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ ہرمسئلہ کو ایک مخصوص نظریہ سے دیکھتے ہیں، اس وجہ سے نت نئے مسائل پیداہورہے ہیں، اگروہ کشادہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے مثبت سوچ رکھتے اور سخت گیرنظریہ کے دائرے سے خود کو باہر نکال لیتے توآج جو ملک میں ہورہا ہے وہ کبھی نہیں ہوتا ۔

 

سوال: آج جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کے پیچھے کیا کوئی خاص نظریہ کام کررہا ہے یابی جے پی اور اس کی معاون تنظیموں کا ہاتھ ہے یاکوئی اور دوسری وجہ ؟ 

 

جواب: آپ نے اچھا سوال کیا ہے بظاہر تو یہی کہا جاتاہے کہ سب کچھ نادانستہ طورپر ہورہا ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ، گائے کے تحفظ کا معاملہ ہویا پھر حب الوطنی کا ،ان سب کے پیچھے ایک منصوبہ بند سازش کام کررہی ہے جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے ایک ایسی تنظیم کا ہاتھ ہے جو قدیم عرصے سے نظریاتی جنگ لڑرہی ہے ، یہ نظریاتی جنگ ہندوراشٹرکے قیام کے لئے ہے ۔یہ تو آرایس ایس کا ایک وژن ہے اور اس وژن کے تحت ملک کو چلایا جارہا ہے اگر آرایس ایس نہیں چاہے تو کیا ملک کا یہ نقشہ ہوسکتاتھا ؟ جو آج دنیا کے سامنے ہے ، آرایس ایس کی ایک پالیسی ہے جسے ہم لوگ پہلے سے جانتے تھے اوریہی نظریہ گولوالکر اور ساورکر کی تصنیفات میں بھی موجودہے  اوراب یہ کتاب اردومیںبھی آگئی ہے ، اس سے یہاشارہ مل رہا تھا کہ اگرکسی وقت اقتدار فرقہ پرست لوگوں کے ہاتھوں میں جائے گا توملک کا حشر اچھا نہیں ہوگا ، اس سے اقلیت اور اکثریت ہی نہیں بلکہ ہندوستان کا نقصان ہوگا۔
یہاں ہمارا مقصد کسی مخصوص پارٹی کونشانہ بنانے کا ہر گزنہیں ہے بلکہ ہمارے نزدیک ملک کا آئین ، باہمی اتحاد اور امن اہم ہے ، جہاںکہیں بھی ملک کے خلاف کوئی بات نظرآتی ہے میں اس کے خلاف آوازبلند کرتاہوں ، کیا آئین نے ہرشہری کو یکساں حقوق نہیں دیئے ہیں ؟ کیا آئین میں یہ ہدایت موجود نہیں ہے کہ کسی بھی شہری کے ساتھ ذات برادری ، رنگ ونسل اورمذہب کی بنیادپر کوئی امتیاز نہیں ہوگا ؟ یہ سوال میں اس لئے کررہا ہوں کہ اس وقت جو لوگ حکومت میں ہیں ، وہ بھی آئین کی دہائی دیتے ہیں، مہاتماگاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ کی تشہیر بھی کی جارہی ہے پھر مذہب کی بنیادپر شہر یوں کے درمیان تفریق کیوں برتی جارہی ہے ؟ ملک میں مذہبی شدت پسندی اور تشدد کوبڑھاوا کیوں دیا جارہا ہے ؟ ایک طرف ’سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس ‘کے نعرے دیئے جارہے ہیں اوردوسری طرف اقتدار میں بیٹھے رہنمااپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے ماحول کو آلودہ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں ۔ اس پرامن ملک میں خوف کا ماحول پیداکردیاگیا ہے ، ہمارے رہنماؤں کو یہ سمجھناہوگا کہ حکومتیں ڈر اور خوف سے نہیں چلاکرتیں بلکہ محبت اور انصاف سے چلتی ہیں ۔ ہماراملک پہلے بھی جنت تھا آج بھی ہے صرف اس سے نفرت کی سیاست کونکال دینے کی ضرورت ہے ۔ 

سوال: ایک حقیقت تویہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ دوسری سیکولر پارٹیوں نے بھی انصاف نہیں کیا ، آزادی کے بعد طویل مدت تک کانگریس اقتدار میں رہی لیکن کچھ کرنے کے بجائے اس نے مسلمانوں کو الجھاکررکھا ، اس پر آپ کیا کہیں گے؟۔ 

جواب:آپ کا سوال بالکل درست ہے ، لیکن کیاکوئی شخص یہ کہہ سکتاہے کہ اس کی پالیسی وہی تھی جو آج کی حکومت کی ہے ۔ موجودہ حکومت اوردوسری پارٹیوں کے درمیان جو فرق نظرآتاہے اس کو آپ بھی محسوس کررہے ہوںگے ۔ ہم کانگریس کے دورحکومت سے کبھی مطمئن نہیں رہے ۔ آپ اس وقت کے اخبارات کو اٹھاکر دیکھیں جہاں کہیں بھی کوئی غلط بات دیکھی ، ہم ان سے لڑتے اور انہیں روکتے، کبھی ہم انہیں پیچھے ڈھکیلتے کبھی وہ ہمیں پیچھے ڈھکیلتے ، مگر اب صورتحال یہ ہے کہ ہم شکوہ بھی نہیں کرسکتے ، ایک ہم ہی نہیں دوسرے انصاف پسندوں کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے ۔ہمارے احتجاج اورشکوے کو ایک نیا مفہوم دیدیا جاتاہے اور اسے ملک مخالف رویے سے تعبیر کیا جانے لگتاہے ۔ 
یہ بات آپ کے ذہن میں یقینا ہوگی اگرچہ آپ نے اس زمانے کو نہیں دیکھاتھا لیکن جانتے ہوںگے پڑھا ہوگا ۔ جب ملک تقسیم ہوا تھا، اس وقت ملک کے اندرمسلمان کے وجود کا مسئلہ پیدا ہو گیاتھا کہ مسلمان کیسے رہیں، مسجدیں دوسرے لوگوں کے قبضے میں چلی گئیں، قبرستان لے لئے گئے ، مسئلہ تھا کہ مسلمان اس ملک کے اندرکیسے رہیں؟ لیکن کانگریس سے لڑکر ہم نے اپنا وجود تسلیم کرالیا ۔ کوئی بڑے سے بڑا فرقہ پرست یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم ہندوستانی نہیں ہیں ۔ آج مسئلہ ہمارے حقوق کا ہے ، آج کی صورتحال یہ ہے کہ اپنے حقوق کے لئے ہمیں جس طرح لڑنا چاہئے تھا ،اس کے دروازے بھی بند ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ ایک مخصوص نظریہ کی بالادستی قائم کرنے کی درپردہ سازشیں ہورہی ہیں۔اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر زمین تنگ کرکے انہیں یہ ذہن نشین کرانے کی سازش ہورہی ہے کہ اب تمہیں ہماری شرطوں پرہی یہاں رہنا ہوگا۔

سوال:بابری مسجد پر فیصلہ گزشتہ سال 9نومبر کو آیا تھا ، جہاں ایک طرف عدالت نے تسلیم کیا کہ مندرتوڑکر مسجدنہیں بنائی گئی تھی اس کے باوجود مندرکے حق میں فیصلہ دیا گیا، پچھلے دنوں مسجد شہید کرنے والے تمام ملزمان باعزت بری ہوگئے ان فیصلوں کو کس نظرسے دیکھتے ہیں؟ 

 

جواب:ہم نے اس وقت بھی یہ بات کہی تھی کہ یہ فیصلہ حیران کرنے والاہے ، عقل حیران ہے کہ اس فیصلہ کو کس چیز سے تعبیر کیاجائے ؟کس نظریہ سے دیکھاجائے ؟ لیکن یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے فیصلے سے عوام کا عدالت پراعتماد برقراررہ سکے گا؟ 1934سے لیکر اب تک اس مسئلہ کے حل کے لئے جمعیۃعلماء ہند نے جو خدمات انجام دیں، وہ تاریخی حیثیت رکھتی ہیں ، جمعیۃعلماء ہند نے اس تنازع کے حل کیلئے تمام جمہوری ، قانونی اور پر امن طریقوں اور ذرائع کا استعمال کیا ۔یہاںتک کہ نچلی عدالت سے عدالت عظمیٰ تک حتی الامکان کوشش کی لیکن افسوس ہم تاریخی مسجد کو نہیں بچاسکے ۔ 
یہاں غورطلب امر یہ بھی ہے کہ 9 ؍نومبر 2019کو سپریم کورٹ کی 5 رکنی آئینی بینچ نے بابری مسجد – رام جنم بھومی حق ملکیت پر فیصلہ سنا تے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی مندرکوتوڑکر نہیں کی گئی تھی چنانچہ بابری مسجد کے اندرمورتی رکھنے اور پھر اسے توڑنے کو مجرمانہ عمل قراردیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ جن لوگوں کی شہہ پر یہ کام انجام دیا گیا وہ بھی مجرم ہیں توسوال یہ ہے کہ سی بی آئی کی نظرمیں سب بے گناہ کیسے ہوگئے ؟ حالانکہ لبراہن کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں واضح طورپر کہا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت ایک منصوبہ بند سازش تھی، یہ انصاف ہے یا انصاف کا خون؟تضاددیکھئے سی اے اے کے خلاف پرامن طریقہ سے احتجاج کرنے والے نوجوانوں کے خلاف ثبوت اکھٹاکرنے میں سیکورٹی ایجنسیوں کو تھوڑابھی وقت نہیں لگاہے ۔آج سیکڑوں کی تعدادمیں حکومت وقت کی پالیسی کی تنقیدکرنے والے سماجی کارکنان کو ملک مخالف اوردہشت گردی کے دفعات میں ملزم بنادیا گیا ہے ، سرکارکی تنقید کو ملک مخالف اوردہشت گردی سے جوڑنے میں پولیس اوردیگر ا یجنسیا ں کافی سرگرم رہتی ہیں ۔اگرکوئی مسلمان گرفتارکرلیا جاتاہے تو کچھ ہی گھنٹوں میں پولیس اس کے خلاف تمام ثبوت جمع کرنے کا دعویٰ کرتی ہے ، مگر 28 سال پرانے بابری مسجد شہادت کیس میں سی بی آئی پختہ ثبوت مجرمین کے خلاف جمع نہیں کرپائی اس کو کیا کہاجائے؟

 

سوال:دہلی فسادات میں یکطرفہ جان ومال کا نقصان ہوا اور پھر یکطرفہ گرفتاری کی گئی ، جن لوگوں کے خلاف ثبوت کے طورپر ویڈیوموجودہیں ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ، اس سے حکومت مسلمانوں کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے ؟ 

 

جواب :ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ فسادات سے کسی مخصوص فرقہ ، طبقہ یا فرد کا نہیں بلکہ ملک کا نقصان ہوتاہے، منصوبہ بند فساد کی ذمہ داری سے حکومت بچ نہیں سکتی ، ہزاروں بارکاہمارا تجربہ ہے کہ فساد ہوتانہیں کرایا جاتاہے ، ہندوستان میں کہیں بھی فسادہو،وہ فسادنہیں بلکہ پولیس ایکشن ہوتاہے ، دہلی میں بھی پولیس کا یہی کرداررہا ، تمام حکومتوں میں ایک چیز مشترکہ نظرآتی ہے کہ حملہ بھی مسلمانوں پر ہوتاہے ، مسلمان ہی مارے جاتے ہیںاورانہی پر سنگین مقدمات لگاکر گرفتارکیا جاتاہے ، دہلی میں پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں نے ملک سے غداری، یواے پی اے اور طرح طرح کی سنگین دفعات کے تحت گرفتاریاں کی ہیں ، وہیں متعصب میڈیا نے ٹرائل چلاکر مسلمانوں کے خلاف ماحول بنایا،  53لوگوں کی موت ہوئی لیکن پولیس نے چند معاملے میں ہی تحقیق کی باقی ذمہ داری نا معلوم افرادپر ڈال دی ۔ وہیں آئی بی افسر انکت شرما اورکانسٹیبل رتن لال کے معاملے میں درجنوں مسلمانوں کو نامزدکرکے چارج شیٹ بنائی گئی ۔ دوسری طرف فسادکے ذمہ دار کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر ، پرویش ورما کی اشتعال انگیز تقریر پرآنکھیں بندکرلی گئیں ۔ 
 دہلی پولیس کایہ رویہ انتہائی شرمناک ہے ، اس نے تمام حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک خاص ذہنیت سے مغلوب ہوکر ایک خاص فرقہ کے لوگوں کو ملزم بنادیا ہے ، جو ان فسادات میں اپنا سب کچھ کھوچکے ہیں، امن وامان قائم رکھنے کی ذمہ داری ضلع میں انتظامیہ (کلکٹر،ا یس ایس پی وغیرہ) کی ہوتی ہے ، پھر زون میں کمشنرکی ہوتی ہے ، میرا طویل تجربہ ہے کہ اگر ایس ایس پی اورکلکٹر کویہ خطرہ ہے کہ فسادات کے سلسلے میں میری گردن میں پھندا پڑسکتاہے توکسی کے چاہنے سے بھی فساد نہیں ہوپائے گا، بہرحال دہلی فسادات میں غیر قانونی طریقے سے پھنسائے گئے بے گناہوں کی قانونی مددکے لئے جمعیۃعلماء ہند نے سینئر اور ناموروکلاء پر مشتمل ایک پینل کو تشکیل دیا ہے ،جو کہ فی الحال 80 مقدمات کی پیروی کررہا ہے جن میں ابھی تک5کی سیشن کورٹ سے اور 3کی دہلی ہائیکورٹ سے ضمانت ہوچکی ہے۔

 

سوال:کورونا کے سلسلے میں تبلیغی جماعت کے بہانے مسلمانوں کو بدنام کرنے میں میڈیا کے ساتھ ساتھ حکومت کا بھی بڑا رول رہاہے ، کیا یہ مسلمانوں کے خلاف کسی سازش کا حصہ تھا؟

  
جواب: یقینا ایسا کرکے مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرنے کی مذموم حرکت کی گئی ، اس کے نتیجہ میں لوگ مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ، جگہ جگہ غیر انسانی سلوک ہونے لگا ، کئی جگہ مسلم دوکانداروں کا بائیکاٹ کیا جانے لگا ، اس طرح کے پروپیگنڈہ کی وجہ سے اکثر یت کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ کورونا وائرس مسلمانوں کے ذریعہ پھیلائی ہوئی بیماری ہے ۔ یہ مضحکہ خیز الزام تھا ۔دراصل اس کرونولوجی کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، یہ ٹی وی چینل ازخود ایسا نہیں کررہے تھے بلکہ اس کے پیچھے بعض مخصوص ذہن کے لوگوں کا دماغ کام کررہا تھا ، جن کی ہدایت پر ہی یہ سب کچھ ہورہا تھا ۔گزشتہ تقریبا 6سال سے میڈیا میں مسلم اقلیت کے بارے میں منفی رپورٹنگ کا مذموم سلسلہ جاری ہے ، حکومت نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا نہ ہی کوئی انتباہ جاری کیا ، حکومت کو ایسی چیزوں پر فورا نوٹس لینا چاہئے تھا مگر افسوس ایسا نہیں ہوا ، اس سے شک کی سوئی حکومت کی طرف جاتی ہے ، شاید یہ ہوسکتاہے کہ اچانک لاک ڈاؤن کے فیصلہ کے بعد سرکارکی ناکامیاں سامنے آنے لگی تھیں جن پر پردہ ڈالنے کے لئے اس وباکو مذہبی رنگ دیدیا گیا اور یہ حربہ کامیاب رہا، لوگوں کا ذہن سرکارکی ناکامی کی طرف نہیں گیا بلکہ مسلمان اس پورے معاملے میں ویلن بن گئے۔ بہرحال اس معاملہ میں 6اپریل 2020کو جمعیۃعلماء ہند نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ، 5ماہ بعد باقاعدہ سماعت شروع ہوئی ، گزشتہ سماعت میں عدالت نے ایسے ٹی وی چینلوں اور سرکارکو جم کر لتاڑ ا ، ہم عدالت کی گزشتہ کارروائی سے کافی مطمئن ہیں اور امید کرتے ہیں کہ عدالت اس معاملے میں ضرورکوئی اہم فیصلہ سنائے گی ،جیساکہ اورنگ آبادہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہاتھا کہ میڈیا نے تبلیغی جماعت کو بلی کابکرابنایاہے ، ہم اظہاررائے کی آزادی کے خلاف بالکل نہیں ہیں بلکہ شرانگیز اور منفی رپورٹنگ کے خلاف ہیں ،جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو، یا کسی فرقہ یا قوم کی کردار کشی کی کوشش کی جاتی ہے ۔
 
سوال: ماب لنچنگ کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے جون 2018میں مرکزی حکومت کو قانون بنانے کا حکم دیا تھا لیکن اب تک حکومت نے اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا، اس کے بر عکس جب تین طلاق کیلئے قانون بنانے کو کہا گیا تو سرکار فوراً حرکت میں آگئی اور قانون بنانے کے ساتھ ساتھ سزا کا بھی التزام کردیا گیا ، کیا یہ امتیازنہیں ہے ؟
 
جواب: ماب لنچنگ جیسے واقعات انتہائی افسوسناک ہیں ، یہ قتل نہیں حیوانیت اور درندگی کی انتہاہے اور ہندوستان کی پیشانی پر کلنک اوربدنماداغ ہیں ، اس سے دنیابھرمیں ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور شبیہ خراب ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے 17؍جولائی 2018کو اس طرح کے واقعات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی شخص قانون اپنے ہاتھ میںنہیں لے سکتااور مرکز کو اسے روکنے کے لئے قانون بنانے کی ہدایت دی تھی ، لیکن افسوس کہ مرکزنے اس معاملے میں اتنی سرگرمی نہیں دکھائی جتنی تین طلاق معاملے میں دکھائی تھی۔ موہن بھاگوت سے ملاقات کے دوران بھی میں نے اس معاملے کو اٹھایا تھا ، میں نے ان سے واضح طورپر کہا تھا کہ پیارومحبت کی جس بات کولیکر آپ آگے بڑھنا چاہتے ہیں اس معاملے میں ہماراآپ سے صدفیصداتفاق ہے ، لیکن آپ کواس کیلئے کچھ کرنا پڑیگا۔ انہوں نے یہ بات کہی کہ ہم آہستہ آہستہ اس جانب قدم بڑھائیںگے۔ میں نے کہا اچھی بات ہے ،ساتھ ہی میں نے یہ بھی کہا کہ میں یقین دلاتاہوں ایسے معاملوں میں جہاں تک آپ چلیں گے جمعیۃعلماء آپ کے ساتھ ہے۔ میں نے ان کی اس جانب توجہ دلائی کہ ہجومی تشدد میں صرف مسلمان نہیں مارہے جارہے ہیں ، عیسائی اور دلت بھی شکارہورہے ہیں ، اس پر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کیا ایسی صورتحال ہے جس پر ان لوگوں نے کہا کہ ہاں یہ صحیح بات ہے ۔بعد کے حالات نے ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیا یہ افسوس کی بات ہے ۔ 
میری باتوں کوانہوں نے کس طرح سے لیا نہیں معلوم لیکن آرایس ایس کو اس جانب توجہ دینی چاہئے ۔میں باربارکہتاآیاہوںکہ ملک کے اندرجو بدامنی پھیلے گی اس سے صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہر طبقہ کا نقصان ہوگاظاہر ہے کہ ملک کا نقصان ہوگا۔یہاں خاص بات یہ بھی ہے کہ غیر بی جے پی حکومت ریاستوں جھارکھنڈ اورراجستھان میں ہجومی تشدد کے خلاف قانون بن چکاہے لیکن دیگر ریاستوں میں سرکارکی توجہ اب بھی اس پرنہیں ہے ۔ میراماننا ہے کہ آرایس ایس ہویا کوئی اور بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے اس سے راہیں نکلتی ہیں ، ملک میں سب کو مل جل کر رہنے سے چوطرفہ ترقی ہوتی ہے اورخوشحالی آتی ہے ۔
 
سوال: حالیہ دہلی فسادمتاثرین اورلاک ڈاؤن سے بے حال لوگوں کی بازآبادکاری اور رفاہ عام کے سلسلہ میںآپ کی جماعت ’جمعیۃعلماء ہند ‘کی کیا کارکردگی رہی ہے؟

 

جواب: ملک کے کسی بھی حصہ میں پیش آنے والی ناگہانی آفت اورمصیبت کے وقت جمعیۃعلماء ہند اور اس کے کارکنان بغیر کسی مذہبی تفریق کے ہر ایک کی مددکرتے ہیں ، اس میں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کس برادری اور کس مذہب کا ہے ،صرف اور صرف انسانیت کی بنیاد پرمصیبت زدہ کی مددکی جاتی ہے ۔حالیہ دہلی فسادمتاثرین کی بھی جمعیۃاپنی سابقہ روایات پرکاربند رہتے ہوئے ریلیف اور بازآبادکاری کاکام انجام دے رہی ہے ، جس میں ابھی تک تقریبا 55مکانات اور دومساجد کی تعمیر نواور مرمت کراکر متاثرین کے حوالے کر چکی ہے، کچھ بے حد مجبورلوگوں کو نقدرقم سے بھی مددکی گئی ۔ تاکہ وہ اپنے کاروبارکو پھر سے شروع کرسکیں اور یہ سلسلہ ابھی رکانہیں ہے، ہماری دہلی جمعیۃکے ذمہ داران اس کام کو بہت ہی تندہی سے سرانجام دے رہے ہیں تاکہ ضرورت مند اور بے بس لوگوں کو پھر سے اپنے پیروں پر کھڑاکیاجاسکے ۔
 
سوال:ایسے حالات میں مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہواورجوکچھ ہورہا ہے اس کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ؟کیااس کے لئے مسلمانوں کو اپنے اندرکوئی قیادت پیداکرنی ہوگی یا مسلمانوں میں ایسے پریشرگروپ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو ملی مسائل کے حل کے لئے حکومت پر دباؤ بنانے کا کام کرے؟

 

جواب : مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں، اس ملک کی مٹی میں ہمارے بزرگوں کا لہوشامل ہے ،ان کی قربانیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔ مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ رشتہ اخوت اورمحبت کو ٹوٹنے نہ دے ، مسلمان اپنے اندر اخلاق کی جرأت پیداکریں، اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں، اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر پہنچائیں آج بھی بڑی بڑی کمپنیوں کے اندرمسلمان اعلیٰ عہدوں پرفائز ہیں ، اگرمسلم بچے علمی اعتبارسے آگے بڑھ جائیں توان کیلئے ملازمت میں کوئی دشواری نہیں ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ فسادات نے مسلمانوں کی کمرکو توڑدیا ہے ، لیکن اب ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آدھی روٹی کھاکر ہی نہیں بلکہ پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے بچوں کواعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلانا ہوگی۔ یہی بہتر ین لائحہ عمل ہوگا۔ فرقہ پرست عناصر کی کوشش ہے کہ مسلمان تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جائیں۔ آج مسلمانوں کو قیادت کی نہیں بلکہ ان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ پیداکرنے اور اپنے تاریخی کردارکو قائم رکھنے کی ضرورت ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ہردورمیں سماج کے تمام طبقوں کے ساتھ حسن سلوک کارویہ اختیارکیا اوراسے قائم رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ہماراکردارہی ہماری شناخت ہے ،۔تعلیم کے مقصدکو بھی ہمیں سمجھنا ہوگا ، تعلیم ایسی ہوجس سے ہماری مذہبی شناخت قائم رہے ۔ آج ملک بھرمیں آرایس ایس کی تقریبا ایک لاکھ ’ششومندر‘کے نام پر تعلیم گاہیں ہیں ۔ ان تعلیم گاہوں میں اب مسلم بچے بھی جارہے ہیں، جبکہ آرایس ایس نے واضح طورپر کہہ دیا ہے کہ ان کا مقصدایسی نوجوان نسل تیارکرنا ہے جو ہندوراشٹرقائم کرنے کے لئے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرے ، دوسرا قومی سطح پر ایسانظام قانون قائم کرنا ہے جس کے تحت ’ہندوتوا‘پر قائم رہتے ہوئے نوجوان اور خواتین کی نئی نسل تیارکرنے میں مدد ملے۔آرایس ایس کے اسکول میں مسلم طلبا ہندوتواکے حامی لوگوں کے ساتھ رہنا سیکھ رہے ہیں اور ان اسکولوںمیں صبح میں ہندودیوی دیوتاؤں کے سامنے ہندوریتی رواجوں سے عبادت کرتے ہیں، جن پر تمام طلبہ کو عمل کرنا ہوتاہے ،خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ۔ اس لئے میری ان مسلمانوں سے مؤدبانہ اپیل ہے ، جن کو اللہ نے دولت دی ہے وہ ایسے اسکول قائم کریں ،جہاں بچے اپنی مذہبی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے آسانی سے اچھی تعلیم حاصل کرسکیں ، ہر شہر میں چند مسلمان مل کر کالج قائم کرسکتے ہیں ، بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہمارے لئے اس وقت انتہائی اہم ہے اس جانب ہندوستانی مسلمان توجہ نہیں دے رہے ہیں ، آج مسلمانوںکودوسری چیزوں پر خرچ کرنے میں دلچسپی ہے لیکن تعلیم کی طرف توجہ نہیں ہے ، یہ ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگاکہ ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم سے ہی کیا جاسکتاہے ۔انہی حالات کے پیش نظر ہم نے دیوبند میں اعلیٰ عصری تعلیم گاہیں جیسے کہ بی ایڈکالج ، ڈگری کالج ،لڑکے اورلڑکیوں کے لئے اسکولس اور مختلف صوبوں میں آئی ٹی آئی قائم کئے ہیں جن کا ابتدائی فائدہ بھی اب سامنے آنے لگاہے ۔

  
سوال:دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں بندمسلم نوجوانوں کو جمعیۃعلماء ہند قانونی امدادفراہم کررہی ہے اس کے بڑے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اب صورت حال کیا ہے ؟

 

جواب: مظلوموں ،مجبوروں اور ضرورتمندلوگوں کی دادرسی جمعیۃعلماء ہندکے منشورکی بنیادرہی ہے ۔جب دہشت گردی پر لب کشائی ایک جرم تھا تو جمعیۃعلماء ہند نے بے گناہ مسلم نوجوانوں کی اندھادھندگرفتاریوں کے خلاف نہ صرف صدائے احتجاج بلندکیا بلکہ ان کی بے گناہی ثابت کرنے اور انہیں انصاف دلانے کے لئے 2007میں ایک لیگل کمیٹی قائم کرکے اس کی ذمہ داری گلزاراحمد اعظمی صاحب کو سونپ دی گئی تھی ،کیونکہ دہشت گردی کے الزام میں بند لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جو قانونی اخراجات برداشت کرنہیں سکتے ،ہماری قانونی امداد کے نتیجہ میں صرف یہی نہیں ہوا کہ بے گناہوں کو انصاف ملا ہو،بلکہ حکومت اورایجنسیوں کا جھوٹ بھی بے نقاب ہوگیا ۔اس صورتحال نے پوری قوم کو احساس کمتری کا شکارکردیا تھا۔ اس لئے بھی ضروری تھا کہ دہشت گردی کے معاملات کو لیکر عدالت میں قانونی جنگ لڑی جائے۔ اللہ کا شکر ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی کوشش کارگرثابت ہوئی اور اس کی قانونی جدوجہد کی وجہ سے اب تک سیکڑوں لوگ جیل سے باعزت رہا ہوچکے ہیں ، اور فی الحال نچلی عدالتوں میں 698، ہائی کورٹ میں 350اور سپریم کورٹ میں 88ایسے لوگوں کی پیروی ہورہی ہے جن کے اوپر دہشت گردی سے متعلق الزامات ہیں ۔

 

سوال: آپ ایک ایسے مذہبی رہنماہیں جن کی بات کا وزن سیاسی طورپر محسوس کیاجاتاہے ، آپ کی بات کو تمام لوگ سنجیدگی سے سنتے ہیں ، دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آپ کو احترام کی نظرسے دیکھتے ہیں، ان حالات میں برادران وطن کو آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

جواب: ہمارے بزرگوں نے اس ملک میں ابتداسے ہی امن ، یکجہتی اور محبت کو فروغ دینے کا کام کیا ہے ، میں شدت کے ساتھ یہ محسوس کرتاہوں کہ یہ ملک امن اورمحبت کے سہارے ہی ترقی کرسکتاہے ،منافرت کے ذریعہ کچھ لوگ اس ملک کے اتحاداورسالمیت کو نقصان پہنچانے کی درپردہ کوشش کررہے ہیں اور لوگوں کوگمراہ کرنے کیلئے پروپیگنڈوں اور اشتعال انگیزی کاسہارا بھی لیا جارہا ہے ۔ اس تعلق سے جمعیۃعلماء ہندبے حدرنجیدہ اورفکرمند ہے ۔جمعیۃعلماء روز اول سے ملک بھرمیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ،رواداری اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لئے سرگرم عمل ہے اور آج بھی اس کا بنیادی مقصدتمام مذہبی ، لسانی اورتہذیبی یونٹوں کے درمیان اتحاد ویکجہتی کا قیام ہے ، آج جو حالات ہیں ان کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ عوام ان جھوٹے پروپیگنڈے سے متاثرنہ ہوں اورہندوستان کی قدیم روایتوں اوراپنے آباء واجدادکے طریقہ کارپرعمل کرتے ہوئے مل جل کرپیارومحبت سے رہیں۔میں تمام مسلمانوں سے خاص طورپر یہ اپیل کروںگا کہ وہ جہاں بھی ہوں محبت ،امن واتحادکے پیغامبربن جائیں ۔برادران وطن کے ساتھ ہر سطح پراتحادویکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ میں نے ارباب مدارس سے بھی گزارش کی ہے کہ وہ موقع بہ موقع برادران وطن کو اپنے مدرسوں میں مدعوکریں اوروہاں کے نصاب سے انہیں آگاہ کریں ،تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ مدارس کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈہ جھوٹاہے اورہمارے مدارس میں بھی وہی سب کچھ پڑھایا جاتاہے جودوسرے تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل ہے، میں ایک بار پھر اپنی یہ بات دہراؤںگا کہ فرقہ پرستی کامقابلہ فرقہ پرستی سے ہرگزنہیں ہو سکتا بلکہ اس کو شکست دینے کا خوب صورت راستہ یہ ہے کہ محبت کے پیغام کو عام کیاجائے اوریہ محبت ہی ہماری اصل طاقت ہے ۔
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS