۔۔۔تاکہ سرمایہ کاری اور روزگار میں اضافہ ہو

اگر ہندوستان کو پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانا ہے تو اسے ہر سال کم سے کم 100ارب ڈالر کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کا انتظام کرنا ہوگا

0

آلوک جوشی

آزادی کا ’امرت مہوتسو‘ منانے کی شروعات کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے لال قلعہ سے جو کہا، اس میں کم الفاظ میں ایک بڑی بات تھی، ’اِز آف ڈوئنگ بزنس‘ یعنی بزنس کرنا آسان بنانا۔ یہ حکومت کئی سال سے ’اِز آف ڈوئنگ بزنس‘ پر کام کررہی ہے، اور انہوں نے کہا بھی کہ ملک کی تجارت اور صنعتیں آج اس تبدیلی کو محسوس کررہی ہیں۔
لیکن اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اس طرح کی اصلاحات صرف حکومت تک محدود نہ رہے، بلکہ گرام پنچایت اور میونسپل کارپوریشنز اور میونسپلٹیز تک پہنچے، اس پر ملک کے ہر سسٹم کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ وزیراعظم کی یہ بات اس لیے توجہ دینے لائق ہے کیوں کہ اس میں یہ مضمر ہے کہ حکومت نے بھلے ہی ’اِز آف ڈوئنگ بزنس‘ کردیا ہو اور بڑے صنعت کاروں کی زندگی آسان ہوگئی ہو، لیکن چھوٹے تاجروں اور کاروباریوں کو آج بھی بہت ساری رکاوٹیں برداشت کرنی پڑرہی ہیں۔ ان میں بھی سب سے زیادہ رکاوٹیں ان لوگوں کے سامنے ہیں جو نیا کام شروع کرنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ سال لاک ڈاؤن لگنے کے کچھ ہی وقت بعد آل انڈیا مینوفیکچرس آرگنائزیشن نے 9مزید صنعتی تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک ملک گیر سروے کیا تھا۔ اس سے پتا چلا کہ ملک میں ایک تہائی سے زیادہ چھوٹی اور درمیانی صنعتیں بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔ تاجروں سے بات کیجیے تو ان سب کا کہنا ہے کہ کورونا کے پہلے جھٹکے نے ان کی کمر توڑ دی تھی، جس کے بعد وہ کسی طرح سب کچھ سمیٹ کر اپنے نقصان کا حساب جوڑ ہی رہے تھے کہ دوسری لہر آگئی۔ حالاں کہ ان دو مصیبتوں کے بعد بھی امید کا دامن نہ چھوڑنے والے لوگ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کم سے کم اب وہ ہر حال کے لیے تیار تو ہیں، کیوں کہ ان کو لگتا ہے کہ کبھی بھی پھر ایسے حالات ہوسکتے ہیں۔
مینجمنٹ کے ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ چھوٹے ہوں یا بڑے، سبھی تاجر اب یہ سوچ کر تیاری کررہے ہیں کہ کورونا اگلا جھٹکا آگیا تو کام کیسے جاری رکھا جائے۔ اور ایسا کرنے میں ان کے سامنے جو دو سب سے بڑی رکاوٹیں آتی ہیں ان میں سے ایک ہے ڈیمانڈ کی کمی اور دوسرا پیسے کی کمی۔ سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم ’فیس بک‘ نے گزشتہ سال اوای سی ڈی اور عالمی بینک کے ساتھ مل کر ہندوستان میں چھوٹے اور درمیانی کاروباریوں کے درمیان ایک سروے کیا تھا، جس میں ایک تہائی لوگوں نے خدشتہ کا اظہار کیا تھا کہ پیسے کا انتظام ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہونے والا ہے۔ گزشتہ ہفتہ ہی فیس بک نے ایسے کاروباریوں کو پانچ سے پچاس لاکھ روپے تک کا قرض دلوانے کی مہم بھی شروع کی ہے۔ حالاں کہ اس کا فائدہ انہیں کاروباریوں کو ہوگا جو فیس بک یا اس کے دوسرے ایپ انسٹاگرام، واٹس ایپ پر 6ماہ تک اشتہارات دے چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس طرح فیس بک جیسی بڑی کمپنی چھوٹے کاروباریوں کے لیے سہارا بننے کا سوچتی ہے، کیا ملک میں آنے والی دوسری بڑی کمپنیاں بھی ایسا ہی کرسکتی ہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی پیدا ہوتا ہے کیوں کہ پرانے وقت سے یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کہیں کوئی بڑا کارخانہ لگتا تھا تو اس کے آس پاس بہت سے چھوٹے کارخانے، دکانیں، ہوٹل، ریستوراں، یعنی تقریباً پورا بازار لگ جاتا تھا۔ زیادہ بڑی صنعتیں تو اپنے آس پاس پورے پورے شہر ہی آباد کرلیتی تھیں۔ اور اس کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ملک میں کتنی ایسی بڑی صنعتیں آرہی ہیں، جن سے یہ امید کی جاسکے؟

چین کے صدر شی جن پنگ نے گزشتہ ہفتہ اپنی پارٹی کے بڑے لیڈروں سے کہا کہ حکومت کو ایسا سسٹم بنانا ہوگا، جس سے ملک میں املاک کی پھر سے تقسیم کی جاسکے اور سماجی انصاف یقینی ہو۔ چینی نیوز ایجنسی کے مطابق، انہوں نے کہا کہ بہت اونچی کمائی پر کنٹرول کرنا اور بہت پیسہ کمانے والے لوگوں اور کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی کہ وہ معاشرہ کو زیادہ سے زیادہ واپس دیں۔ اس کا غریبوں کو کتنا فائدہ ہوگا، یہ الگ بحث کا ایشو ہے، لیکن اتنا طے ہے کہ اس کا مطلب امیروں پر زیادہ ٹیکس ہوسکتا ہے۔ ایسا ہونے کے بعد یا ایسا ہونے کے ڈر سے بہت سی بڑی کمپنیاں پھر چین سے فرار ہونے لگیں گی۔

یہاں چین کی ایک خبر پر نظر ڈالنی چاہیے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے گزشتہ ہفتہ اپنی پارٹی کے بڑے لیڈروں سے کہا کہ حکومت کو ایسا سسٹم بنانا ہوگا، جس سے ملک میں املاک کی پھر سے تقسیم کی جاسکے اور سماجی انصاف یقینی ہو۔ چینی نیوز ایجنسی کے مطابق، انہوں نے کہا کہ بہت اونچی کمائی پر کنٹرول کرنا اور بہت پیسہ کمانے والے لوگوں و کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی کہ وہ معاشرہ کو زیادہ سے زیادہ واپس دیں۔ اس کا غریبوں کو کتنا فائدہ ہوگا، یہ الگ بحث کا ایشو ہے، لیکن اتنا طے ہے کہ اس کا مطلب امیروں پر زیادہ ٹیکس ہوسکتا ہے۔ ایسا ہونے کے بعد یا ایسا ہونے کے ڈر سے بہت سی بڑی کمپنیاں پھر چین سے فرار ہونے لگیں گی۔ لیکن جو کمپنیاں چین سے بھاگیں گی، ان میں سے کتنی ہندوستان آئیں گی؟
گزشتہ سال اسی ماہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ دو درجن بڑی کمپنیاں چین چھوڑ کر ہندوستان آرہی ہیں اور وہ یہاں ڈیڑھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گی۔ یہ وہ کمپنیاں تھیں جو پہلے ہی چین سے نکلنے کا ذہن بناچکی تھیں اور تب تک یہ فکر سامنے آچکی تھی کہ انہیں اپنی طرف کھینچنے کے معاملہ میں ہندوستان ویتنام، کمبوڈیا، میانمار، بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ جیسے ممالک سے پچھڑ چکا تھا۔ تب بھی حکومت کو امید تھی کہ جب یہ کمپنیاں آئیں گی تو 10لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا اور تقریباً150ارب ڈالر کا پروڈکشن بھی ہوگا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سال 2020-21میں ہندوستان میں کل 81.72 ارب ڈالر کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ یہ رقم اس کے گزشتہ سال سے 10فیصد زیادہ ہے۔ لیکن ایک امریکی ریسرچ گروپ کا کہنا ہے کہ اگر ہندوستان کو پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانا ہے تو اسے ہر سال کم سے کم 100ارب ڈالر کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کا انتظام کرنا ہوگا۔
دوسری بات، جو پیسہ آرہا ہے، اس میں سے کافی کچھ وینچر کیپٹل یا پرائیویٹ اِکوٹی کے راستہ بھی آرہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ٹیکنالوجی کمپنیوں میں جارہا ہے، جہاں زمین پر بہت کچھ نہیں ہوتا۔ اسی لیے اتنا سرمایہ آنے کے بعد بھی ملک میں گراس کیپٹل فارمیشن یا ایسے کاروبار میں سرمایہ کاری، جن میں زمین پر معاشی سرگرمیاں ہوں ، فیکٹری لگے، بلڈنگ بنے، بہت سے لوگوں کو روزگار ملے اور جی ڈی پی میں اضافہ ہو، کم ہورہا ہے۔ 2011سے 21کے دوران ایسی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 34.3فیصد رہی، لیکن 2020-21میں یہ صرف27.1فیصد رہ گئی ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ اعدادوشمار میں سرکاری فائلوں میں غیرملکی سرمایہ کاری کتنی بھی بڑھتی نظر آئے، کیا وہ عام آدمی کو روزگار دینے میں مدد کرے گی؟ اور سرکار ایسا کیا کرے گی کہ اس سوال کا جواب ہاں میں ہی ملے؟ تبھی آزادی کا ’امرت مہوتسو‘ سب کے لیے ’امرت ورشا‘ کا سبب بن پائے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS