پنجشیر وادی:طالبان کیلئے سخت امتحان

0

صبیح احمد

پچھلے کچھ دنوں سے پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ افغانستان کے معصوم لوگ کس طرح طالبان کے خوف کے سایے میں جینے پر مجبور ہیں۔ ہر جگہ افراتفری کا ماحول ہے اور لوگ افغانستان پر طاقت کے زور پر قبضہ کرنے والے اس شدت پسند گروپ کے ممکنہ مظالم سے بچنے کے لیے ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ بہرحال اس ہنگامہ آرائی اور افراتفری کے درمیان افغانستان میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جو لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا رہی ہے کیونکہ ملک کے بقیہ حصوں میں ابھی جو حالات ہیں اس کے برعکس یہاں کوئی گڑبڑی یا انتشار کا ماحول نہیں ہے، کوئی بھی یہاں سے بھاگنے کے لیے جدو جہد نہیں کر رہا ہے، کوئی بھی چھپنے یا دروازے پر کسی بھی انجان دستک سے خوفزدہ ہونے پر مجبور نہیں ہے۔ یہ جگہ ہے وادی پنجشیر، شمالی اتحاد (ناردرن الائنس) کا گڑھ۔ اس علاقہ کے بارے میں تجسس اور اس کی اہمیت اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ یہ افغانستان کے 34 صوبوں میں سے ایک ایسا صوبہ ہے جس پر ابھی تک طالبان کا قبضہ نہیں ہو پایا ہے اور ایک تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ علاقہ کبھی بھی طالبان کے کنٹرول میں نہیں رہا۔ طاقتور سوویت یونین بھی اس علاقہ کو طاقت کے زور پر اپنے قبضے میں نہیں لے سکا۔ 1970 اور 80 کی دہائی میں سوویت یونین نے بہت کوششیں کیں لیکن وادی پنجشیر میں داخل نہیں ہو سکا۔ پنجشیر پر قبضہ کرنے کی تمام کوششیں ابھی تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ جب امریکہ افغانستان پر بے لگام بمباری کر رہا تھا، اس وقت بھی پنجشیر پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ پنجشیر کا مطلب ہی ’5 شیروں کی وادی‘ ہے۔ یہ علاقہ کابل کے شمال میں واقع ہے اور اس وادی کے درمیان سے ہو کر پنجشیر ندی گزرتی ہے۔ یہ ہندوکش پہاڑوں کے قریب واقع ایک خوبصورت وادی ہے۔
اب جب کہ افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہو گیا ہے اور ان کی حکومت بننے کے قریب ہے، اس کے خلاف مزاحمت کی آواز اسی خطہ سے سنائی دے رہی ہے۔ ابھی تک طالبان کے خلاف کھڑے ہونے کی جرأت کا جنہوں نے مظاہرہ کیا ہے، وہ ہیں سقوط کابل سے قبل تک ملک کے نائب صدر امراللہ صالح اور ’شیر پنجشیر‘ احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود۔ کابل پر طالبان کے قبضہ کے باوجود اب افغانستان کے سابق نائب صدر امراللہ صالح نے ملک کو نہیں چھوڑا جیساکہ سابق صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ امراللہ صالح نے اب پنجشیر کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا ہے۔ ایک پیغام میں امر اللہ صالح نے مزاحمتی تیور کے ساتھ کہا ہے کہ صدر غنی کے ملک کے چلے جانے کے بعد اب وہ نگراں افغان صدر ہیں اور یہ کہ ’جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی،‘ حالانکہ طالبان نے افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمہ کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ کابل میں ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان ترجمان نے اپنی پہلی آن اسکرین پریس کانفرنس میں عام معافی، خواتین کے حقوق اور نئی حکومت سازی پر بات کی تھی لیکن اس پریس کانفرنس سے کچھ ہی دیر قبل امراللہ صالح نے اعلان کیا کہ افغانستان کے آئین کے مطابق صدر کی غیر موجودگی، استعفیٰ یا موت کی صورت میں نائب صدر ملک کا نگراں صدر بن جاتا ہے۔ بہرحال امراللہ صالح ان افغان رہنماؤں میں سے ہیں جو بظاہر طالبان کنٹرول کے خلاف مزاحمت کی تحریک چلانے پر آمادہ نظر آتے ہیں مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ طالبان ملک کے تمام اہم سرحدی راستوں کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں اور صرف گنے چنے علاقے ایسے ہیں جہاں طالبان نے ابھی تک قبضے کا دعویٰ نہیں کیا۔
ادھراحمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طالبان کے خلاف ’جنگ لڑنے کا اعلان‘ کیا ہے۔ وہ احمد شاہ مسعود ہی تھے جنہوں نے شمالی اتحاد کی بنیاد ڈالی تھی۔ اپنی زندگی میں انہوں نے مغربی ممالک کے ساتھ بہت قریبی تعلقات رکھے۔ امریکہ نے جب 9/11 کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت اس نے شمالی اتحاد کی مدد لی۔ جب طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیاتو شمالی اتحاد کو بھی ختم کر دیا گیااور اس میں شامل تمام پارٹیوں نے عبوری انتظامیہ کا تعاون کیا۔ اب موجودہ حالات میں پنجشیر کے تحفظ کی ذمہ داری احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کے کندھوں پر آ گئی ہے۔ پنجشیر وادی ملک کا واحد علاقہ ہے جہاں سے طالبان کے خلاف کسی بھی تحریک کی شروعات ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ مزاحمت اتنی آسان بھی نہیں ہے۔ دونوں ہی فریقوں طالبان اور احمد مسعود کی جانب سے انتباہ کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ طالبان نے معاملات طے کرنے کے لیے روسی سفیر کے توسط سے پیغام بھیجا ہے، ساتھ ہی انجام کے لیے تیار رہنے کو بھی کہا ہے۔ دوسری جانب احمد مسعود نے بھی مذاکرات نہ کرنے کی صورت میں سخت مزاحمت کا الٹی میٹم دیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ پنجشیر وادی میں فی الحال غذائی اور میڈیکل سپلائی کا ذخیرہ اتنا موجود ہے کہ جو آئندہ موسم سرما تک چل سکتا ہے۔ جہاں تک طالبان سے مقابلہ کے لیے شمالی اتحاد کے جنگجوئوں کی تعداد کی بات ہے، اس کا صحیح اندازہ کسی کو نہیں ہے لیکن تقریباً 6000 جنگجوئوں کی بات کہی جا رہی ہے۔

19 ویں صدی میں جب برطانوی سامراج نے افغانستان کو فتح کرنے کی کوشش کی تو اس وقت بھی یہ خطہ محفوظ رہا تھا۔ برطانیہ کی کوشش بھی امریکہ کی کوشش کی طرح ہی ناکام رہی تھی۔ 80 کی دہائی میں قبضہ کے دوران سوویت یونین کے لیے بھی یہ خطہ ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا تھا۔ اس وقت سوویت فوجیوں کا سامنا ’شیر پنجشیر‘ احمد شاہ مسعود کے زیر قیادت جنگجوؤں سے ہوا تھا۔ آج احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود بھی اسی طرح کی مزاحمت کی قیادت کر رہے ہیں لیکن اس بار یہ مزاحمت کسی غیر ملکی طاقت نہیں بلکہ طالبان کے خلاف ہے۔

مشرقی افغانستان میں افغان-پاک سرحد پر واقع پنجشیر وادی کو کسی بھی باہری طاقت کے ذریعہ قبضہ کی کوششوں کے حوالے سے ایک افسانوی حیثیت حاصل ہے۔ 19 ویں صدی میں جب برطانوی سامراج نے افغانستان کو فتح کرنے کی کوشش کی تو اس وقت بھی یہ خطہ محفوظ رہا تھا۔ برطانیہ کی کوشش بھی امریکہ کی کوشش کی طرح ہی ناکام رہی تھی۔ 80 کی دہائی میں قبضہ کے دوران سوویت یونین کے لیے بھی یہ خطہ ایک ڈرائونا خواب ثابت ہوا تھا۔ اس وقت سوویت فوجیوں کا سامنا ’شیر پنجشیر‘ احمد شاہ مسعود کے زیر قیادت جنگجوئوں سے ہوا تھا۔ آج احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود بھی اسی طرح کی مزاحمت کی قیادت کر رہے ہیں لیکن اس بار یہ مزاحمت کسی غیر ملکی طاقت نہیں بلکہ طالبان کے خلاف ہے۔ اس سے قبل احمد شاہ مسعود نے بھی 1996-2001 کے درمیان طالبان کے خلاف مزاحمت کی قیادت کی تھی اور طالبان کو ناکام کر دیا تھا۔ ایک بار پھر پنجشیر وادی کا طالبان جنگجوئوں نے چاروں طرف سے محاصرہ کر لیا ہے اور اس محاصرہ کے خلاف خطہ کو شدید مزاحمت کی ضرورت ہے۔ امریکہ اور روس دونوں سپرپاورس جو افغانستان کی سرزمین پر شکست کا مزہ چکھ چکے ہیں، نہیں لگتا ہے کہ پھر افغانستان کے معاملوں میں اپنی ٹانگ اڑائیں گے۔ شمالی اتحاد کے زمانے میں (احمد شاہ مسعود کے دورمیں ) اس گروپ کو طالبان کے خلاف ایرانیوں کی بھی مدد حاصل تھی لیکن اب ایرانیوں کے رشتے بھی طالبان کے ساتھ ایسے نہیں ہیں کہ وہ اس کی مخالفت کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS