زین شمسی
وقت کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے وقت پر بدلتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ وقت کبھی بدلتا ہی نہیں ہے، نہ ہی زمانہ بدلتا ہے۔اگر کوئی بدلتا ہے تو وہ ہے ہم اور آپ۔ ہم بدلتے ہیں اور ہمارے ساتھ وقت بدلتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر ہم نے صحیح راستہ پر قدم رکھا تو وقت بھی اسی راستے پر گامزن ہو جائے گا اور ہم نے اگرغلط رویہ ، غلط روش اختیار کی تو وقت ہمارا ساتھ چھوڑ جائے گا۔کمزور و بے بس لوگ ، غیر تعلیم یافتہ اور خوابیدہ لوگ وقت کے بدلنے کا رونا روتے ہیں، ہوشیاراور باشعور لوگ وقت کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کا ذمہ وقت پر پھوڑنے والوں کو وقت معاف نہیں کرتا۔جیسے جیسے ہم شعور چھوڑتے جائیں گے وقت ہم سے دور ہوتا چلا جائے گا۔
ہم آج جس مقام پر ہیں، اس مقام پر ہرسو یہی صدائیں گشت کر رہی ہیں کہ ہمارا وقت خراب ہے اور اس سے بڑھ کر اگر کوئی بات سنائی دیتی ہے تو یہ کہ ہمارا بھی وقت آئے گا۔ انگریزی میں ایک کہاوت ہے کہ “Every Dog has a day” درست ہے مگر اس میں بھی یہ خامی ہے کہ اس کا وقت کبھی نہیں آتا جو وقت کے بھروسہ بیٹھے رہتے ہیں۔ہم آج سیاسی اور سماجی طور پر مایوس اور مجبور ہیں، بھارت ہی نہیں دنیا کے ہر کونہ میں ہماری بے وقعتی کی تدبیریں مسلسل چل رہی ہیں اور ہم ان سازشوں پر سوائے کف افسوس ملتے رہنے کے اور کچھ نہیں کرتے، کیونکہ ہم نے ان پالیسیوں اور منصوبوں کا جائزہ تک لینا گوارہ نہیں سمجھا، جس کے پس پشت ہماری بے وقعتی کا دستاویز تیار کیا جاتا ہے۔ آج بھارت میں ہم آر ایس ایس کو جی بھر کر کوستے نظر آتے ہیں،مگر ہم اس امور پر نظر نہیں ڈالتے کہ اسی آر ایس ایس نے کس منظم طریقے سے خود کو مستحکم کیا اور اس کے لیے اس نے کتنی محنت کی۔ 1920کا آغاز 2020کے عروج کو اس طرح سے چھوگیاکہ اب ایک بڑے اسٹیج سے مسلم کشی کا اعلان کرنے میں بھی کسی کو تامل نہیں ہورہا ہے۔ ان کا کام صرف مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو متحد کرنا نہیں تھا بلکہ ہندوستان کے ہر ادارے میں اپنے نظریہ کو مستحکم کرنا تھا، جس کی وجہ سے کسی بھی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا نہ ہوسکے اور انجام کار وہی ہوا، جیسی ان کی حکمت عملی تھی۔وہ واقعی تعریف کے قابل ہیں کہ جب ہم کانگریس، سماج واد، کمیونسٹ اور بہوجن سیاست کے دم خم پر اپنوں کو محفوظ کرنے کی جگت میں رہے، انہوں نے خاموشی کے ساتھ تعلیم اور اتحاد کو اپنا شعار بنایا، سرسوتی ودیا مندر اور ششو ودیامندر کا جال پورے بھارت میں پھیلا کر اپنی نسل کو اس قابل بنا دیا کہ وہ اپنا ہدف کسی بھی رکاوٹ کے پورا کرسکیں اور پورا کر رہے ہیں۔ انہوں نے چل رہے وقت سے گلا نہیں کیا اور آنے والے وقت کا انتظار اس لیے نہیں کیا کہ وہ جا نتے تھے کہ سو سال بعد وقت انہی کا ہونے والا ہے۔
آج الیکشن کے موسم میں ہمیں نت نئی تدبیریں سمجھائی اور بتائی جاتی ہیں، لیکن غیر قوموں کو کوئی درس نہیں دیتا کہ وہ کسے ووٹ دیں ، حتیٰ کہ لیڈران بھی ان سے ان کا موقف نہیں جان پاتے ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ ان لوگوں نے ایک لائحہ عمل پہلے سے تیار کر لیا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ ووٹر کا رجحان کیا ہوگا۔ بھارت کی سیاسی تقدیر اگر ایک طرف ذات و پات کی سیاست طے کرتی ہے تو دوسری طرف نظریات کی سیاست اور نظریات کی سیاست ذات پات کی سیاست پر قابض نہ ہو جائے اس کے لیے سیاست داں کبھی مشترکہ سماج کو توڑنے میں مصروف ہو جاتے ہیں یا پھرترقیاتی کاموں کے لبھائونے وعدے کوترجیح دینے لگتے ہیں۔اس کھیل میں اگر کوئی سب سے زیادہ منتشر ہوتا ہے تو وہ ہے مسلم ووٹر۔بھارت کے تمام مسائل کو درکنار کرتے ہوئے مسلم ووٹر صرف ایک مسئلہ کو ترجیح دیتے آئے ہیں اور وہ ہے تحفظ۔ مسلم ووٹر کی اسی خوبی کو بھارت کی تمام پارٹیوں نے کمیوں میں شمار کر لیا ہے۔ تحفظ کے نام پر ہر پارٹی نے اسے اس طرح سے ٹھگا کہ جس نے اس سے تحفظ کا وعدہ کیا اسی نے اسے سب سے غیر محفوظ کر دیا۔مسلم لیڈروں کی رہنمائی مسلمانوں کو کبھی ملی نہیں، کچھ دیگر دانشوروں اور لیڈروں نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش ضرور کی، مگر ہم نے ان کی سنی نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج 2022 میں بھی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تحفظ کا ہی ہے۔
ایک طرف ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حفاظت اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے اور دوسری طرف ہم اس بات پریقین رکھتے ہیں کہ ہمارا تحفظ کسی سیاسی پارٹی کا مرہون منت ہے۔ ایسا صرف اسی لیے ہوسکا کہ ہم نے وقت کو پہچانا ہی نہیں، اسے سمجھا ہی نہیں اور وقت ہمیں صفر سے صفر تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا۔
دراصل کسی بھی ملک کی اقلیت وقت پر تب گرفت بناتی ہے، جب وہ اپنے کیل کانٹے درست کر لیتی ہے۔ ہماری کمیونٹی اپنی قسمت کی ڈور دوسروں کو سونپتی رہی اور خود قیلولہ میں مصروف رہی۔ جب جب اسے خطرہ پیدا ہوا وہ دوسرے کم بے ضرر سیاسی لیڈروں کی پناہ میں امان ڈھونڈنے نکل پڑی۔ دوسروں نے اسے مین اسٹریم میں لے جانے کے بجائے اپنے غلام ووٹروں کی فہرست میں ڈال دیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان تمام پارٹیوں میں رہتے اور فیصلہ اکثریت کو کرنے دیتے۔ جسے چاہتے ووٹ ڈالتے اور پڑھائی ، کمیونٹی کی بیداری، تجارت اور ایجادات میں خود کو مصروف رکھتے۔ جب تک خود کو خود کفیل نہیں بنا پائیں گے، دوسروں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے رہیں گے۔ بھارت ایک جمہوری ملک ہے، یہاں نہ ہی کسی کے نسل کشی کے بیان سے کچھ ہونے والا ہے اور نہ ہی کسی کے نام نہاد تحفظ کے وعدے سے آپ کی حفاظت ہو سکتی ہے۔ جہاں تک ہندو-مسلم اتحاد اور نفاق کا سوال ہے تو یہ ہوتا ہی رہے گا، کہیں زیادہ۔ ان تمام الجھنوں سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ الیکشن کو خاموش حمایت دیتے جائیں اور خود کو مضبوط بنائیں اور مضبوطی صرف تعلیمی بیداری اور تجارتی لائحہ عمل سے ہی آسکتی ہے۔ یوں بھی پرائیویٹائزیشن کا زمانہ ہے، سوداگری شباب پر ہے، ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ انہیں سیاست کرنے دیجیے، خود کومضبوط بنانے کی فکر کیجیے۔جس دن آپ مین اسٹریم میں آجائیں گے، وقت چل کر آپ کے پاس آئے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]
۔۔۔ وقت ہم سے روٹھ جانے کی ادا تک لے گیا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS