یوپی: بے روزگاری اور مہنگائی انتخابی ایشو نہیں

0
RRS Urdu

اترپردیش اسمبلی انتخابات میں ذات پات کی سیاست حاوی ہے۔ سیاست میں بے روزگاری، مہنگائی اور ترقی جیسے مسائل ثانوی ہوتے جارہے ہیں۔ تمام جماعتوں میں مقابلہ ہے کہ سوشل انجینئرنگ میں کون کس کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انتہا پسند ہندوتوا کی مدد سے اقتدار میں واپسی کی امید رکھنے والی بی جے پی نے اچانک اپنی حکمت عملی بدل لی ہے اوراس نے او بی سی لیڈروں کو اہمیت دینی شروع کردی ہے۔ کچھ دوسری پارٹیوں کے او بی سی لیڈروں کو پارٹی میں لایا جارہا ہے۔ انتخابی میدان پر ایس پی سربراہ اکھلیش یادو کی سوشل انجینئرنگ گوگلی نے ایودھیا متھرا جیسے مسائل پر بی جے پی کو بیک فٹ پر ڈال دیا ہے۔ بی جے پی، کانگریس، ایس پی اور دیگر پارٹیوں کے درمیان ذات پات کی بنیاد پر ووٹروں کے درمیان حساب کتاب بنانے کا مقابلہ ہے۔ بی جے پی، ایس پی، کانگریس اور بی ایس پی کی جانب سے اب تک جاری کردہ امیدواروں کی فہرست سے یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ اب تمام سیاسی جماعتوں کا زور ذاتوں پر ہے۔ ساتھ ہی، بی جے پی میں اس بات کو لے کر تشویش ہے کہ او بی سی اور دیگر چھوٹی ذاتوں کو اپنے دائرے میں کیسے لایا جائے۔ بی جے پی کی دوسر ی پریشانی مغربی اتر پردیش میں کسانوں کا احتجاج ہے۔ اگر آپ بی جے پی امیدواروں کی فہرست دیکھیں تو بی جے پی نے تمام طبقات تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں او بی سی اور اونچی ذات بھی شامل ہے۔ بی جے پی نے 60 فیصد سے زیادہ ٹکٹیں پسماندہ اور دلتوں کو دی ہیں۔ اس کے برعکس ایس پی کی پوری توجہ یادو، مسلم اور او بی سی پر ہے۔ بی جے پی نے او بی سی کو 44 اور دلتوں کو 19 سیٹیں دی ہیں۔ اس کے برعکس، ایس پی نے 60 سے زیادہ نشستیں او بی سی، مسلمانوں اور برہمنوں اور یادو دی ہیں، جبکہ کانگریس خواتین ووٹرز پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور اس نے اپنی پہلی فہرست میں 50 خواتین کو ٹکٹ دیے ہیں۔ تقریباً 20 فیصد ٹکٹ برہمن چہروں کو، 19 فیصد مسلم چہروں کو اور باقی او بی سی اور او بی سی کو دیا گیا ہے۔ بی جے پی کی فہرست میں 18 راجپوت، 10 برہمن، 8 ویش، تین پنجابی، دو کا یستھ اور دو تیاگی برادریاں شامل ہیں۔ اس کی پوری توجہ اعلیٰ ذاتوں پر ہے، تاکہ مذہب کے نام پر وہ انتخابات کے دوران انتخابی پولرائزیشن کر سکے۔ کانگریس نے نئے 88 امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے، جبکہ 15 امیدوار ایسے ہیں جو دوبارہ قسمت آزمائیں گے۔ تیسری اور چوتھی بار قسمت آزمانے والے امیدواروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ کانگریس کی انتخابی جنگ میں 33 دلت، 18 برہمن، 23 او بی سی، 20 مسلمان، تین سکھ، 14 ٹھاکر اور 10 ویش امیدوار ہوں گے۔ اتر پردیش اور بہار میں ذات پات ہمیشہ غالب رہی ہے۔ دونوں ریاستوں میں ہار اور جیت کا فیصلہ ذات پات کی بنیاد پر ہوا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 2017 کے انتخابات میں بی جے پی نے ذات پات کو ختم کرتے ہوئے 300 سے زیادہ سیٹیں حاصل کی تھیں۔
اترپردیش ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔ آبادی کے حساب سے اور اترپردیش کے بارے میں کہا جاتاہے کہ دہلی میں اسی پارٹی یا اتحاد کی سرکار بنے گی جو یہاں کامیاب ہوگی۔ اسی لیے اترپردیش کے اسمبلی الیکشن کو خاص طور پر منی عام انتخاب کہا جاسکتا ہے۔ اترپردیش میں تمام بڑی سیاسی پارٹیاں مختلف سماجی طبقات کو ٹارگیٹ کررہی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا نشانہ ہندو ووٹ بینک ہے، جبکہ کانگریس بھی مسلم ، دلت ، برہم ووٹ کو ساتھ لانے کی کوشش کررہی ہے۔ سماجوادی پارٹی ایک طرف مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش میں ہے تو دوسری طرف اس کو یادو اور دیگر پسماندہ طبقات سے بھی کافی امیدیں وابستہ ہیں۔ بی ایس پی دلتوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ بی ایس پی کی نام نہاد سوشل انجینئرنگ سماجوادی پارٹی کی کامیابی میں آڑے آرہی ہے، مگر جو کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ کی موجودگی سے بی جے پی دلتوں اور دیگر او بی سی طبقات کو نشانہ بنانے کی جستجو میں ہے۔ خیال رہے کہ 2007میں مسلمانوں نے بہوجن سماج پارٹی میں اعتماد ظاہر کیا تھا، جبکہ 2012کے الیکشن میں سماجوادی پارٹی کو زبردست اکثریت سے ہمکنار کیاتھا۔ مگر 2017میں مسلمانوں کا ووٹ ایس پی، بی ایس پی اور مسلمانوں میں تقسیم ہو کر رہ گیاتھا۔ مگر اب سماجوادی پارٹی کو لگتا ہے کہ مسلمان متحد ہو کر اس کو ووٹ دے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اصل مقابلہ سماجوادی پارٹی اور بی جے پی میں ہی ہوگا اور بی ایس پی حاشیہ پر رہے گی، مگر مختلف حلقوں میں ذات پات کا حساب کتاب ایسا ہے کہ بی ایس پی اس سے فائدہ اٹھا کر شاید سماجوادی پارٹی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS