ڈاکٹر سیّد احمد قادری
ملک کی دس ریاستوں میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے دفاتر پر این آئی اے اور ای ڈی کے چھاپے،اس فلاحی تنظیم کے سینکڑوں عہدیداروں ،ممبران کی گرفتاری ، اتر پردیش میں اسلامی مدارس کے سروے، آسام میں اسلامی مدرسوں پر چلنے والے بلڈوزروں ، نصاب تعلیم میں تبدیلیاں، مسلمانوں کے نام پر موجود شہروں اور دیگر عمارتوں کے ناموںکی تبدیلی کے منصوبے کے ساتھ ساتھ ریاست بہار میں بی جے پی کو نتیش کمار کے ذریعہ دیا گیا جھٹکا اور آر جے ڈی و کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت قائم کئے جانے کا قومی سطح پر خیر مقدم ، نتیش کمار کا 2024 کے انتخاب میں تمام سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مل کر بی جے پی کو پچاس سیٹوں پر محدود کئے جانے کا بیان ، نتیش کمار کا ملک کی مختلف ریاستوں کے وزیر اعلیٰ اور سرکردہ سیاسی رہنماؤں سے ملاقات اور ان ملاقاتوں میں گرم جوشی ، سماج،سیاست اور صحافت کو زہر آلود کئے جانے والوں کے خلاف محاذ آرا ئی ، کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا میں عوامی کامیابی ،بڑھتی مہنگائی ، بے روزگاری اور تیزی سے گرتی ملک کی معیشت کے خلاف بڑھتے احتجاج وغیرہ جیسی اہم خبروں کے درمیان اچانک سامنے آنے والی دو خبروں نے نہ صرف ملک کے مسلمانوں کو بلکہ ان تمام لوگوں کو جو آئین ،جمہوریت ، سیکولرازم اور ملک کی سا لمیت پر یقین رکھتے ہیں ، انھیں چونکنے پر مجبور کر دیا ہے۔
پہلی خبر یہ ہے کہ گزشتہ 22 اگست کو دہلی میں واقع آر ایس ایس کے دفتر میں شاہد صدیقی (سابق راجیہ سبھا ممبر ، اور ہفت روزہ اخبار ’ نئی دنیا‘ کے مدیر)، نجیب جنگ ( سابق لفٹننٹ گورنر ، دہلی ) ، ایس وائی قریشی ( سابق چیف الیکشن کمشنر ) ، ضمیر الدین شاہ ( سابق وائس چانسلر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ) اور سعید شیروانی(تاجر) جیسی شخصیات نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی ۔ان شخصیتوں نے موہن بھاگوت سے ملنے سے قبل اور نہ ہی ملنے کے بعد ایسا کوئی بیان دیا تھا کہ یہ لوگ ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی ، تشدد، مذہبی منافرت ، عدم رواداری ،مسلمانوں پر مسلسل ہورہے ظلم و ستم پر بہت فکر مند ہیں یا تھے اور ان مسائل کے تدارک کے لئے آر ایس ایس کے چیف سے ملنے گئے تھے یا مل کر آئے ہیں ۔شاہد صدیقی اور نجیب جنگ کے مطابق اگر ان کی موہن بھاگوت سے ملاقات ملک میں فرقہ وارانہ خیر سگالی اور ہندو مسلم کے درمیان بڑھتی دوری ختم کرنے کے عزم کے ساتھ تھی تو پھر پورے ایک ماہ تک اتنی خاموشی کیوں چھائی رہی ؟ ذرائع ابلاغ اور گودی میڈیا تک کو اس اہم ملاقات کی بھنک تک نہیں لگی ۔ اب جبکہ ملاقات کی خبر طشت از بام ہو گئی تب چند باتوں کو تراش خراش کر کہا جا رہا ہے ۔ شاہد صدیقی کو پورے آٹھ برسوں بعد یہ خیال آیا کہ ’’ہمیں غلط فہمی کو دور کرنا چاہئے تاکہ ماحول اچھا ہو سکے ‘‘ ۔ حالانکہ اسی طرح دلوں کے دروازے کھولنے اور ماحول اچھا بنائے رکھنے کی توقع انہوں نے 2014 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل احمد آباد جا کر نریندر مودی سے ایک انٹر ویو لے کر بھی ظاہر کی تھی ۔جس کے تاریخی اثرات جس شدت سے ملک اور عوام کو دیکھنے کو ملے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ بھی واضح کر دوں کہ مودی سے لئے گئے شاہد صدیقی کے سابقہ انٹرویو کی اشاعت کے بعد اس زمانے میں بھی طوفان اٹھا تھا ۔
آر ایس ایس اور مودی حکومت کو اس امر کا شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ ترقی و خوشحالی کے لئے ان لوگوں نے لفاظی کے سوا کچھ نہیں کیا اور ملک کے عوام کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے ۔ حکومت کے خلاف غم و غصّہ اور احتجاج کی بازگشت تیز ہوتی جا رہی ہے اور حزب مخالف پارٹیاں دن بہ دن بہت تیزی سے متحد ہوتی جا رہی ہیں اور انھیں عوام کی زبردست حمایت بھی مل رہی ہے۔ ایسے حالات میں 2024 میں بی جے پی اورا ن کی حلیف پارٹیوں کی کامیابی مشکوک ہوتی جا رہی ہے ۔ موہن بھاگوت سے ملنے والے ان پانچ مسلم ’’دانشوروں ‘‘ نے نہ جانے یہ کیسے باور کر لیا کہ جس آر ایس ایس اور بی جے پی نے ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے ملک کے مسلمانوں پر جتنے ظلم و ستم کئے ہیں ۔ ان کے خلاف ان آٹھ برسوں میں نہ جانے کتنی بار ملک کے سینکڑوں باوقار سیکولر شخصیات کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور بیرون ممالک کی سرکردہ شخصیات اور تنظیموں کے ذریعہ ملک میں مذہبی منافرت اور تشدد پر قد غن لگانے نیز ملک کی شاندار انسانی اور جمہوری قدروں کو پامال نہ کئے جانے اور ملک میں امن وامان قائم کئے جانے کی گزارشات کو ٹھکرا چکی ہیں۔
ایسے میں آر ایس ایس ان پانچ دانشوروں کی خیر سگالی کی بات مان لے گی ۔یہ بات پوری طرح عیاں ہے کہ آر ایس ایس کا اپنا خاص ایجنڈا یعنی مسلم مکت بھارت یا ہندو راشٹر بنائے جانے پر تیزی سے گامزن ہے۔ آر ایس ایس کے بانیوں میں گرو گوالکر اپنی ایک کتاب ’وی آر اور نیشن ہُڈ ڈیفائنڈ ‘ میں واضح کر چکے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو رہنے کی اجازت ہوگی مگر ہماری شرطوں پر ۔ ایسے مسلمان کو ہندو محمدیہ کہا جائے گا ۔ اس ضمن میں موہن بھاگوت کا بھی نظریہ بہت صاف ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے سارے لوگوں کا ڈی این اے ایک ہے اور یہاں رہنے والے سارے لوگ ہندو ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس کی اپنے قیام کے روز اوّل سے آئیڈیالوجی ہندوتوا پر مبنی ہے ۔ ان کے مطابق ہندو مذہب کے سوا دوسرے تمام مذاہب غیر ملکی ہیں ۔ یاد کیجئے کہ بابری مسجد کے ملبہ پررام مندر کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے موہن بھاگوت نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا تھا کہ ’آج محض ایک مندر کی تعمیر کی بنیاد نہیں رکھی جا رہی ہے بلکہ ہندوستان کو ہندو راشٹر میں بدلنے کا آغاز ہے ۔‘ ان تمام باتوں سے بہت ہی واضح پیغام کے بعد بھی ہمارے یہ پانچ ’دانشور‘ کن مقاصد اور توقع پر موہن بھاگوت سے ملنے گئے تھے ۔ یہ بڑا اہم سوال ہے ۔
چند لمحوں کے لئے یہ مان لیا جائے کہ یہ دانشور ملک کے مسلمانوں کی محبت میں موہن بھاگوت سے ملنے گئے تھے اور بقول نجیب جنگ ” A complete need for reconcilation between Hindus and Muslims…” یعنی ملک کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی ضرورت ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مفاہمت کن شرطوں اور مدعوں پر ممکن ہے ؟ جس انتہا پسند تنظیم نے 97 سال کی تاریخ میں کبھی بھی ہندو مسلم مفاہمت کی بات نہیں کی اور ہمیشہ مسلم مکت بھارت اور ہندو راشٹر جیسے ایجنڈوں پر نہ صرف قائم رہی اور اس وقت جبکہ وہ اقتدار میں ہے وہ اپنے خاص ایجنڈے سے منکر کیوں ہو جائے گی ۔
دادری کے اخلاق احمد سے لے کر جھارکھنڈ کے تبریز انصاری اور میوات کے آصف جیسے سینکڑوں معصوم اور بے گناہوں کو حیوانیت کے ساتھ تڑپا تڑپا کر قتل کیا گیا ، کٹھوعہ کی معصوم ننھی سی بچی آصفہ کا اجتمائی زنا کیا گیا اور اسے بھی درندوں نے بڑی بے رحمی سے ہلاک کیا تھا اور ان درندوں کی حمایت میں بی جے پی نے جلوس نکالاتھا ، اہانت رسولﷺ کی مرتکب نپور شرما کو گرفتار کئے جانے کے بجائے اس کی حفاظت کے لئے اس کی سیکورٹی بڑھائی گئی ،بلقیس بانو کے زانیوں اور اس کے رشتہ داروں کے قاتلوں کو’’ مہذب ‘‘قرار دے کر قید خانے سے آزاد کیا گیا ، مسلمانوں اور مسلمانوں کی حمایت میں بولنے اور لکھنے والوں کو جیلوں میں مسلسل بھرا جا رہا ہے ،شہریت قانون ،گھر واپسی ،لو جہاد ، وندے ماترم ، گئو رکچھا ، تبدیلیٔ مذہب ، مساجد ، اذان ، نماز ، حجاب ، حلال جیسے مدعوں پر ملک کے مسلمانوں کو ذلیل و خوار کیا گیا ،ایسے سینکڑوں نہیں ہزاروں واقعات اور سانحات ہیں جو ہندوستان اور ہندوستانیوں کے لئے نہ صرف تشویشناک بلکہ شرمناک ہیں ۔ لیکن افسوس کہ ان واقعات اورسانحات پر ان دانشوروں نے کبھی کسی طرح کا رد عمل ظاہر نہیں کیا نہ ہی کبھی ان کے تدارک کے لئے کسی طرح کا عملی ثبوت پیش کیا اور اب جب کہ 2024 کے عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں ۔ حذب مخالف کی صفوں میں اتحاد کی کوششیں تیز اور کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کو ایک بار پھر اقتدار میں لانے کے لئے آر ایس ایس کئی طرح کی حکمت عملی کے تحت کئی منصوبے بنا نے میں مصروف ہے ۔ ایسے مشکل وقت میں ماضی کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے یہ دانشور حذب مخالف سیکولر پارٹیوں کے اتحاد میں اپنی سرگرمی کا مظاہرہ کرتے تو بات سمجھ میں آتی ۔ کہنے کو تو ہمارے درمیان نام نہا دمسلمان ہیں، لیکن ان کا ملک کے مسلمانوں کے تئیں کیا رویۂ اور کردار رہا ہے ، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ ایک اورنام ڈاکٹر امام عمیر احمد الیاسی ،جو دہلی کے کاستوربا گاندھی مارگ مسجد کے امام ہونے کے ساتھ ساتھ اکھل بھارتیہ امام سنگھ کے سربراہ ہیں ۔ وہ بھی ان دنوں سرخیوں میں ہیں ۔ ان کے ماضی سے جو لوگ واقف ہیں ،وہ ان کے ’’حال‘‘ پر متعجب نہیں ہیں کہ انھوں نے اپنی مسجد میں موہن بھاگوت ، اندریش ،رام لال اور کرشن گوپال کو مدعو کیا ، ان کا والہانہ استقبال کیا اور اعلانیہ طور پر موہن بھاگوت کو ’راشٹر پتا‘ کے خطاب سے نواز کر انھیں خوش کرنے کی ممکنہ کوشش بھی کی ۔ اس لئے ایسے خود ساختہ امام سے ملک کے مسلمانوں کے رستے زخموں پر مرہم رکھنے کی توقع نہ ہی کبھی تھی اور نہ ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ آر ایس ایس کی بے شمار ذیلی تنظیموں میں کئی ایسی تنظیمیں ہیں ،جو مسلمانوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہی ہیں اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بڑی تعداد میں بے روزگار مسلم نوجوان پیسے اور سیاسی پہنچ کے لئے شمولیت اختیار کر چکے ہیں ۔یہ نوجوان اپنے تمام تر مذہبی ، تہذیبی ، انسانی اقدار کو فراموش کرکے اپنے زمینی آقاوں کو خوش کرنے میں منہمک ہیں ۔ آر ایس ایس کی ایسی ہی ایک ذیلی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ بھی ہے ، جس کے سربراہ اندریش ہیں جو ملک کے مسلمانوں کو بی جے پی میں شامل کئے جانے کی کوششوں میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ اسی تنظیم سے تعلق رکھنے والے اتر پردیش کے ضلع سہارن پور کے کنوینر کوئی مشرف علی ہیں ، جنھوں نے حال ہی میں اتر پردیش کے مذہبی مدرسوں کے خلاف زبردست زہر اگلا ہے اور سوال کھڑا کیا ہے کہ اس ریاست میں مدرسوں کو چلانے کے لئے پیسے کہاں سے آتے ہیں ۔ اس مشرف علی کے سلسلے میں کیا کہا جائے سمجھ میں نہیں آتا ہے ۔ شاید ایسا ہی کوئی مسلمان علّامہ اقبال کے تصور میں رہا ہوگا ، جس کے بارے میں انھوں نے کہا تھا کہ ؎
وضع میں تم نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود
اب اس پورے منظر نامہ کو سامنے رکھا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ دانشوروں کا موہن بھاگوت سے ملنا ، بھاگوت کا ’’ امام‘‘ سے ملنا وغیرہ کچھ یوں ہی نہیں ،جس کی پردہ داری ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ 2024 کے عام انتخابات کا یہ سب حصہ ہے اور مسلمانوں سے بظاہر اور وقتی قربت بڑھانا ایک منظم اور منصوبہ بند کوشش کا ایک حصہ ہے ، ٹھیک ویسے ہی جیسے 2004 میں اٹل بہاری واجپئی کے دور اقتدار میں اگلے عام انتخابات میں کامیابی کے لئے شائننگ انڈیا کا دلفریب نعرہ دے کر کروڑوں روپے خرچ کر لوگوں کو لُبھا نے کی کوشش کی گئی تھی اور بڑے بڑے دانشوروں کو شائننگ کے دام فریب میںلانے کی سعی ہوئی تھی یہ الگ بات ہے کہ اس وقت ملک کے مسلمانوں نے اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا تھا اور شائننگ انڈیا کے جھانسے میں نہیں آئے تھے جس کی وجہ کر بی جے پی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو ہر انتخاب میںDecisive قوت کی حامل ہے ، بشرطیکہ اسے مختلف خانوں میں منقسم نہیں کیا جائے ۔ یہی وجہ ہے ملک کے مسلمانوں پر ان دنوں طرح طرح سے ڈورے ڈالے جا رہے ہیں ٗ تاکہ اپنی کامیابی کو یقینی بنایا جائے ۔ لیکن اسوقت مسلمانوں کی حکمت عملی اور سیاسی بصیرت کے ساتھ لائحہ عمل تیار کرنے کی ہے ۔
[email protected]
یہ مسلمان ہیں ، جنھیں دیکھ کر …
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS