سنگھ کامسلم پریم:کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے

0

شاہد زبیری
ا ن دنوں سنگھ کے مسلم پریم کو لیکر میڈیا اور سوشل میڈیا کے علاوہ خود مسلمانوں کے سمجھدار طبقوں ،علمااور دانشوروں میں بحث جاری ہے۔ یوں تو ماضی قریب میں سنگھ پریوار کی مسلمانوں سے قربتوں کی کہانیاں بیان کی جا تی رہی ہیں ایمرجنسی کے زمانہ میں جماعت اسلامی کی قیادت اور سنگھ کی لیڈر شپ کے ملک کی جیلوں میں ایک ساتھ گزارے ہوئے وقت نے بھی جماعت کی ذی ہوش قیادت کو سنگھ کے بارے میںخوش فہمیوں اور خوش گمانیوں میں مبتلا کردیا تھا اور کے سدرشن جب سنگھ کے چیف تھے اس وقت دہلی کی ایک مسجد کی امامت کرنے والے مولانا جمیل الیاسیؒاورکے ایس سدرشن کے گھنشٹ سمبندھوں کے قصّے اور آنجہانی وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی سے محبتوں کے افسانے بھی بیان کئے جاتے رہے ہیں ۔کے ایس سدرشن کے زمانہ ہی میں سنگھ نے اپنے ایک لیڈر اندریش کمار کے ذریعہ مسلمانوں میں مسلم راشٹریہ منچ کی بنیاد ڈالی تھی یہ اور بات ہے کہ سنگھ نے اپنے قیام 1925سے لے کر تاحال اپنی شاکھائوں کے دروازے ہمیشہ مسلمانوں پر بند رکھے ہیں۔ ہمارے علم کے مطابق مسلم راشٹریہ منچ کے کسی مرکزی مسلم لیڈر تک کو بھی سنگھ کی شاکھا میںآنے کی اجازت نہیں ہے۔ زیادہ دن نہیں گزرے جمعیۃ علماء کے قائد مولانا ارشد مدنی کا سنگھ کے دفتر جھنڈے والا پہنچ کر موہن بھاگوت سے ملاقات کرنا بھی سرخیوں میں رہا ہے اور یہ سوال اس وقت بھی اٹھا تھا کہ مولانا ارشد مدنی اور موہن بھاگوت کے درمیان کیا بات ہوئی آج تک اس بات کا پتہ نہیں چلا ۔ اب پھر سنگھ سے کچھ مسلمان امیدیں باندھ رہے ہیں ۔لیکن سنگھ کے ڈی این اے اور اس کے کھلے ایجنڈے کے ہوتے ہوئے امید باندھنا وہ بھی تب،جب اس کو اقتدارکا نشہ چڑھا ہواہے، یہ عبث ہے ۔
اس تناظر میں سنگھ پریوار کے چیف موہن بھاگوت سے اعلیٰ سطح کے مسلم دانشوروں کی ملاقات جس میں دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنراور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر نجیب جنگ،فوج سے ریٹائرڈ اعلیٰ افسر اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سابق وائس چانسلرضمیر الدین شاہ ، قومی الیکشن کمیشن کے سابق چیئر مین ایس وائی قریشی،سینئر صحافی اور سابق ایم پی شاہد صدیقی اور معروف صنعتکار سعید شیروانی شامل تھے جبکہ موہن بھاگوت اپنے ساتھیوں اندریش کمار اور رام لاک کے ہمراہ خود امام عمیر الیاسی سے ملنے دہلی میں اس مسجد میں پہنچے جہاں عمیرالیاسی امامت فرماتے ہیںموہن بھاگوت دہلی کے مدرسہ تجویدالقرآن بھی گئے سنگھ کے قیام کو100 سال پورے ہو نے کو آئے یہ پہلا موقع ہے کہ اس کے کسی چیف نے یہ پہل کی ہے۔ اس سب کو لے کر حمایت اور مخالفت دونوں جاری ہیںمین اسٹریم میڈیا،پورٹل اور یو ٹیوب پر الگ سے بحث جا ری ہے اور ان ملاقاتوں کو سنگھ کے مسلم پریم کا نام دیا جا رہا ہے اور اس کو الگ الگ معنی پہنائے جا رہے ہیں ۔
اصولی طور پر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسانی معاشرہ میں ملاقات ، مکالمات اور مذاکرات معاشرہ کی توانائی ، ترقی ا و رخوشحالی کیلئے ضروری ہے اگر کسی معاشرہ میں ہر وقت جنگ وجدال ،کشیدگی اور بدگما نیاں پھیلتی رہیں تو یہ ممکن نہیں کہ انسانی معاشرہ کی گاڑی توانائی کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کی پٹری پر زیادہ دیر تک دوڑ تی رہے۔ یہ ملاقات،مکالمات اور مذاکرات اس وقت بامعنی ہو سکتے ہیں اور ان کے بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں جب فریقین خلوص نیت اور خلوص دل کے ساتھ برابری کی سطح پر اور کسی مثبت ایجنڈے کے ساتھ میز پر بیٹھیں۔مسلم دانشوروں کا جو اعلیٰ سطح کا وفد موہن بھاگوت سے ملنے گیا تھا نہ اس میں شامل شخصیات کے تجربہ ،مشاہدہ ،علم اور مطالعہ سے انکار ممکن ہے اور نہ ہی ان کے ملی ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبہ پر شک کیا جاسکتا ہے لیکن باعث حیرت ہے کہ سنگھ پریوار نے بھی اس اہم ملاقات کو صیغہ راز میں رکھا اور دانشوروں کے وفد نے بھی پردہ میں رکھا ۔ مبینہ طور پر وفد نے مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر نہیں ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی ۔ہماری ناقص معلومات کے مطابق اس ملاقات پر سے پردہ اس وقت اٹھا جب انگریزی اخبارات نے ایک معتبر خبر رساں ایجنسی کے حوالہ سے خبر شائع کی اور اندازوں پر مبنی بات چیت کاخلاصہ پیش کیا ۔ نہ جانے مسلم وفد کی وہ کون سی مجبوری تھے کہ اس نے بھی ملاقات کو پوشیدہ رکھنے میں ہی عافیت سمجھی ۔کہا جاتا ہے کہ سنگھ کے چیف نے مسلم وفد سے سنگھ کے مخصوص ایجنڈے کے تحت کافر اور جہاد جیسے مسئلہ پر اپنے تحفظات رکھے ۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں سنگھ کے ایک مرکزی قائد اور تھنک ٹینک رام مادھو نے ہندو مسلم اتحاد کیلئے دو ٹوک سنگھ کا ایجنڈہ عوام کے سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں سے کہا تھا کہ مسلمان’کافر‘ ،’جہاد‘ اور’ اُمّہ‘ کے نظریہ اور تصور سے لاتعلق ہو جا ئیں اور اس سے اپنی برائت کا اظہار کریں ۔ واضح رہے کہ ان تینوں کی بنیاد قرآن ہے لیکن اس پر نہ ہماری ملّی جماعتوں کی طرف سے اور نہ ملّی قائدین اور علماء کی طرف سے کسی طرح کا ردعمل سامنے آیااور نہ کسی موقف کا اظہار کیا گیا سوال یہ ہے کہ کیا سنگھ کے اس ایجنڈے کو مسلمان بحیثیت اُمت تسلیم کرسکتے ہیں ؟ ۔دانشوروں کے جس وفد نے موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی وہ کسی بھی جاہ و منصب پر فائز رہے ہوں وہ بھی اس پر لب کشائی نہیں کرسکتے تھے وفد کے کسی بھی معزز رکن کی طرف سے موہن بھاگوت سے ملاقات پر کچھ زیادہ سامنے نہیں آیا جو آیا وہ محض قیاس آرائیاں اور اندازے ہیں، یہ تصویر اس وقت صاف ہو تی جب وفد کی طرف سے کوئی واضح بیان سامنے آتا، بیان کے نہ آنے میں کیا مصلحت اور مجبوری ہو سکتی ہے یہ تو وفد کے دانشور ہی سمجھ سکتے ہیں اور سنگھ نے مسلم دانشوروں کے ساتھ اس ملاقات کی کیو ں پردہ داری رکھی یہ بھی غور طلب ہے جبکہ موہن بھاگوت نے امام عمیر الیاسی سے ملاقات اور مدرسہ کے دورہ کو ازخود طشت ازبام کیا ۔موہن بھاگوت سے ملاقات کرنے والے والے مسلم دانشو روں کے وفد میں شامل اپنی اپنی فیلڈ کی بلند قامت شخصیات اور امام عمیر الیاسی کا کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن سوال یہ ہے کہ آخر سنگھ نے مسلم دانشوروں سے ملاقات کو پوشیدہ رکھا اور امام عمیر الیاسی کو ملت کے ایک بڑے قائد کے طور پر ابھارنے اور مین اسٹریم میڈیا میں ان کے نام کو آگے بڑھا نے اور اس ملاقات کو سنگھ کے مسلم پریم کی شکل دینے کی کیوں کوشش کی ؟ اتنا ہی نہیں ایک مین اسٹریم چینل پر مدرسہ تجویدالقرآن ملاقات میں ساتھ رہے اندریش کمار نے میڈیا پر یہ بھی بتا یا کہ مدرسہ کے طلبہ سے موہن بھاگوت نے کیا بات کی اور وہ 7نعرے کیا تھے جو انہوں نے اپنی موجودگی میں لگوائے ان میں سے دو نعروں پر اینکر نے خاص فوکس کیا ایک بھارت ماتا کی جے اور ایک وندے ماترم ۔کہا جارہا ہے کہ سنگھ نے یہ سارا ڈرامہ اس لئے رچا کہ ملک میں مسلم اقلیت کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے عالمی سطح پر اس سے ملک اور خاص طور وزیر اعظم نریندر مودی کی شبیہ مجروح ہو رہی ہے اس کو بہتر بنا نے کیلئے سنگھ کو دکھانے کیلئے ہی سہی مسلم پریم کا ڈھونڈرہ پیٹنا پڑ رہا ہے کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس کی یاترا سے سنگھ اور بی جے پی بوکھلا گئے ہیں اور2024کیلئے مسلم ووٹوں میں سیندھ لگانے کیلئے مسلم پریم کا ڈھونگ رچنا پڑ رہا ہے، خود وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اس بیان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے جس میں انہوں نے مسلم پسماندہ طبقات کے حالات سدھار نے کا اشارہ دیا ہے ان کا یہ بیان مسلمانوں میں اشراف اور پسماندہ مسلمانوں کے اختلافات کو ہوا دیکر مسلم ’اُمّہ ‘کے تصور اور نظریہ پر ضرب لگانا اور مبینہ مسلم ووٹ بینک کو منتشر کرنا ہے اور اس میں حصہ دار بننا ہے ایسا مانا جا رہا ہے ۔بہر کیف اس سارے کھیل میں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS