غزہ/ تل ابیب (ایجنسیاں): اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونے کے باوجود غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بدستور جاری ہے۔ اسرائیلی فوج اور القسام بریگیڈز کے درمیان غزہ کی پٹی کے علاقے شجاعیہ کالونی میں پرتشدد تصادم ہوا ہے۔ زمینی کارروائی کے آغاز سے اب تک اسرائیلی فوج کے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 115 ہو گئی ہے۔
اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کے مطابق اسرائیلی فوج ابھی تک الشجاعیہ کی تمام عمارتوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ خاص طور پر چونکہ القسام بریگیڈز کو پڑوسی کالونیوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اسرائیلی زمینی افواج کی موجودگی کے دوران فضائی مدد بھی ناممکن رہی۔ بدھ کو اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا کہ گولانی بریگیڈ کے کمانڈر اور سپاہی غزہ شہر کے مشرق میں واقع شجاعیہ کالونی میں القصبہ کے علاقے میں فلسطینی جنگجوؤں کے ساتھ گرما گرم لڑائی کے دوران مارے گئے ہیں۔ فوج نے ایک بیان میں کہا کہ گولانی بریگیڈ کے فوجیوں نے شجاعیہ کالونی میں گہری لڑائی لڑی ہے۔ لڑائی میں علاقے میں جنگجوؤں اور ان کے ارکان کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس دوران امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کی انتظامیہ کے درمیان گزشتہ روز پہلی بار واضح اور باضابطہ طور پر اختلافات سامنے آنے کے بعد اسرائیل کی جانب سے مزید تند و تیز رد عمل آنے کا سلسلہ جاری ہے۔
العربیہ کے مطابق، نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کے ایک وزیر کہا کہ یہاں کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہوگی اور ہم کبھی اوسلو واپس نہیں جائیں گے۔ کسی بھی فلسطینی ریاست کا وجود یہودیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دے گا۔ اسرائیلی وزیر مواصلات شلومو کارئی نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اسرائیل کی حمایت میں بائیڈن کے مؤقف کی تعریف بھی کی اور کہا کہ ہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کا احترام کرتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیں، جنہوں نے انتہائی تاریک اور مشکل ترین حالات میں اسرائیل کی حمایت کی، یہ ایک سچی دوستی ہے۔
انہوں نے بائیڈن کا ایک اقتباس یاد کیا جس میں انہوں نے زور دیا کہ یہودی لوگوں کی سلامتی خطرے میں ہے۔ فلسطینی ریاست اس سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔دوسری طرف اسرائیلی جنگی کونسل کے ایک رکن وزیر گیڈون سائر نے امریکی صدر اور اسرائیلی حکومت پر ان کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جنگ کے دوران موجودہ ہنگامی حکومت کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔بائیڈن نے نیتن یاہو سے اپنی حکومت کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے نیتن یاہو کی حکومت کو اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ انتہا پسند قرار دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس حکومت نے غزہ کی پٹی پر کی جانے والی پرتشدد بمباری اور فلسطینی شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی حمایت کھونا شروع کر دی ہے۔بائیڈن نے واشنگٹن میں ایک انتخابی ریلی میں اپنی تقریر کے دوران یہ بھی کہا کہ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے ساتھ دو ریاستی حل کی مخالفت کرتی ہے۔ لیکن یہی وہ راستہ ہے جس پر چلنے کا واشنگٹن نے حماس کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے بعد کہا تھا۔اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنے اور واشنگٹن کے درمیان اختلافات کی موجودگی کو تسلیم کیا، لیکن وہ بڑی حد تک 1993میں ہونے والے اوسلو معاہدے میں واپسی سے انکار کرنے کے اپنی حکومت کے موقف پر قائم رہے۔ بائیڈن انتظامیہ یہ بھی سمجھتی ہے کہ دو ریاستی حل لاگو ہونے کے قریب ہے۔ دوسری طرف نیتن یاہو کا خیال ہے کہ یہ حل دفن ہو چکا ہے اور ناقابل عمل ثابت ہوا ہے۔
ادھر حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے کہا ہے کہ غزہ پر حکمرانی کرنے والا فلسطینی گروپ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی انتظام یا اقدام پر بات چیت کیلئے تیار ہے، تاکہ جنگ بندی ہوسکے۔ژنہوا کی جمعرات کو جاری رپورٹ کے مطابق، حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ ہانیہ نے حماس سے منسلک الاقصیٰ ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں کہاکہ ہم کسی بھی انتظام یا اقدام پر بات کرنے کیلئے تیار ہیں، جو اسرائیلی حملوں کو روک سکے۔ حماس کے بغیر غزہ کے مستقبل سے متعلق انتظامات کامیاب نہیں ہوں گے۔مسٹر ہانیہ نے کہا کہ حماس نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کا خیرمقدم کیا ہے اور غزہ کے تنازع کے خاتمے کیلئے سعودی عرب اور متحدہ عرب اسلامی غیر معمولی سربراہی اجلاس کی وزارتی کمیٹی کی کوششوں کو بھی سراہا۔
انہوں نے حماس کی جانب سے جنگ کے بعد کے کسی بھی سیاسی انتظامات کو مسترد کرنے کی تصدیق کی، جس میں حماس اور دیگر فلسطینی دھڑے شامل نہیں ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کو روکنے کیلئے بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کی بھی اپیل کی ہے۔
دریں اثنا فلسطین پر اسرائیلی مظالم کے خلاف امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ کے ملازمین بھی چپ نہ رہے اور انہوں نے وہائٹ ہاؤس کے باہر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں، ایسے میں اب بائیڈن انتظامیہ کے ملازمین کی جانب سے بھی احتجاج کیا گیا، جس میں محکمہ خارجہ کے مستعفی ڈائریکٹر جوش پال بھی شریک ہوئے، جبکہ مظاہرین نے اپنی شناخت چھپارکھی تھی۔اس کے علاوہ امریکی شہر لاس اینجلس میں مظاہرین نے ہائی وے بند کرکے غزہ جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
مزید پڑھیں: قطر: غزّہ کے شہریوں کے لئے 50 ملین ڈالر مالیت کی انسانی امداد
اس دوران وہائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو غزہ میں شہریوں کی اموات پر اپنی تشویش سے آگاہ کر دیا ہے۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان کربی نے کہا کہ ہم نے فوجی کارروائی کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے آگاہ کر دیا ہے۔امریکی مشیر جان کربی کا کہنا تھا کہ غزہ میں شہریوں کے قتل سے متعلق ہمیں تحفظات تھے اور ہم نے ان خدشات کا اظہار کردیا ہے۔