عارضی نہیں، مستقل جنگ بندی ہو

0

غزہ میں مستقل بندی ہونی چاہیے اورمسئلۂ فلسطین کا دو ریاستی حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے مگر بہت کوششوں کے بعد غزہ میں عارضی جنگ بندی ہوئی تھی جس کا آج آخری دن تھا۔ اسرائیل اور حماس دونوں نے اس عارضی جنگ بندی کی توسیع میں دلچسپی دکھائی ہے۔ کل ہی یہ خبر آئی تھی کہ اسرائیل نے ’ہر ایک اضافی 10 یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی کی مدت میں ایک اضافی دن کی توسیع ‘ کی بات کہی ہے۔ عارضی جنگ بندی کی مدت میں توسیع جزوقتی راحت کے سوا اور کیا ہوگی جبکہ غزہ کے لوگوں کے لیے ہی نہیں، ارض فلسطین پر رہنے والے تمام لوگوں کے لیے یہ بات زیادہ اہمیت کی حامل ہوگی کہ مستقل جنگ بندی ہو، مسئلۂ فلسطین کا دو ریاستی حل نکالا جائے، فلسطین اور اسرائیل دونوں ریاستوں میں لوگ پرامن پڑوسی کی طرح رہیں۔
مسئلۂ فلسطین کا اگر ابھی بھی دو ریاستی حل نکالنے کی کوشش کی جائے تو یہ الجھا ہوا مسئلہ نظر نہیں آئے گا، اوسلو معاہدے سے اس کا اندازہ بھی ہوا تھا، البتہ اس معاہدے میں اہم کردار ادا کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کا قتل کرکے یہ اشارہ دے دیا گیا تھا کہ اس مسئلے کا دو ریاستی حل نکالنا کتنا مشکل ہے۔ اس کے بعد فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کی جس طرح مشتبہ حالت میں موت ہوئی، اس سے مسئلۂ فلسطین کا دو ریاستی حل نکالنا اور مشکل ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یاسرعرفات تمام فلسطینیوں کے لیڈر تھے۔ ان کا احترام بیشتر فلسطینی کیا کرتے تھے۔ عالمی برادری میں ان کی ایک شناخت تھی۔ کئی ملکوں کی مسئلۂ فلسطین سے دلچسپی برقرار رکھنے میں یاسر عرفات کا بڑا رول تھا۔ دنیا کے کئی بڑے لیڈروں سے ان کے ذاتی تعلقات تھے۔ وہ کئی ملکوں کے دورے پر جایا کرتے تھے۔ مسئلۂ فلسطین کے سلسلے میں عالمی لیڈروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان سے ملاقات کیا کرتے تھے مگر ان کے دنیا سے جاتے ہی فلسطینی غزہ اور مغربی کنارے میں تقسیم ہوگئے۔ اس تقسیم سے عالمی برادری کی طرح اسرائیل کے لیے بھی یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ گئی کہ فلسطینی لیڈروں کے لیے مسئلۂ فلسطین کو سلجھانے اور دو ریاستی حل نکالنے کے ساتھ ساتھ اپنے مفاد کی بھی اہمیت ہے۔ غزہ کے لیڈروں یعنی حماس کے لیڈروں کے سوچنے کا انداز الگ ہے، مغربی کنارہ کے لیڈروں یعنی الفتح کے لیڈروں کے سوچنے کا انداز الگ ہے۔ محمود عباس فلسطین کے صدر ہیں۔ وہ پی این اے یعنی پیلسٹائن نیشنل اتھارٹی کے بھی صدر ہیں، پی ایل او یعنی پیلسٹائن لبریشن آرگنائزیشن کے چیئرمین بھی وہی ہیں۔ امریکہ اور دیگر ملکوں کی یہ دکھانے کی کوشش رہی ہے کہ محمود عباس ہی تمام فلسطینیوں کے لیڈر اور نمائندے ہیں۔ اسی لیے افغان اور عراق جنگ چھیڑنے کے بعد امریکہ کے لیے مسلم ممالک میں جو حالات بن گئے تھے، اسے محسوس کرتے ہوئے جارج ڈبلیو بش نے ایناپولیز کانفرنس منعقد کی تھی تو اس میں فلسطینیوں کے نمائندے کے طور پر محمود عباس کو ہی مدعو کیا تھا لیکن سچ یہ بھی ہے کہ عباس 88 سال کے ہوچکے ہیں، وہ مسئلۂ فلسطین کو سلجھانے اور اس کا دو ریاستی حل نکالنے کے لیے زیادہ متحرک نہیں رہ سکتے۔ اس کے علاوہ فلسطینی حماس اور الفتح کے دو بڑے گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں محمود عباس کے لیے یاسر عرفات بننا یا ان کے جیسا رول ادا کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ اسی لیے ایسا لگتا ہے کہ غزہ جنگ کے بعد بھی اگر مسئلۂ فلسطین کا دو ریاستی حل نکالنے کی کوشش نہیں کی گئی تو پھر ایک وقت تک کے لیے اس کا حل نکالنا ناممکن سا ہو جائے گا۔ کسی فلسطینی لیڈر کے لیے تمام فلسطینیوں کا اعتماد حاصل کرنا، تمام فلسطینیوں کے نمائندے کے طور پر خود کو پیش کرنااور مسئلے کو انجام تک پہنچانے کیلئے جدوجہد کرنا کافی مشکل ہوجائے گا۔ اس وقت اسرائیل کے ساتھ امریکہ جیسے اس کے حامیوں کیلئے یہ کہنا آسان ہوگا کہ فلسطینیوں کا کوئی لیڈر ہی نہیں، پھر بات کس سے کی جائے مگر یہ صورتحال نہ عام فلسطینیوں کے لیے ٹھیک ہوگی اور نہ ہی عام اسرائیلیوں کے لیے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ پہلے غزہ کی عارضی جنگ بندی مستقل جنگ بندی میں تبدیل کی جائے، پھر مسئلۂ فلسطین کو سلجھانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ اگر امریکہ نے یہ کوشش کی اور مسئلۂ فلسطین کا دو ریاستی حل نکالنے میں وہ کامیاب ہو گیا تو مشرق وسطیٰ میں سمٹتا ہوا اس کا دائرۂ اثر پھر بڑھ جائے گا، امریکہ کے دائرۂ اثر کو محدود کرنے کا وہاں چین اور روس جیسے ملکوں کے لیے زیادہ موقع نہیں ہوگا، کیونکہ غزہ کی اس جنگ میں عالمی برادری کے ساتھ فلسطینیوں نے بھی یہ دیکھ لیا ہے کہ روس اور چین کا دائرۂ اثر کس حد تک ہے اور وہ فلسطینیوں کی کتنی مدد کر سکتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS