پروفیسر عتیق احمدفاروقی
عدالت عظمیٰ نے تمل ناڈو کے گورنر آراین روی سے سخت سوال پوچھے ہیں۔ گورنر نے بلوں کو منظوری دینے میں کافی تاخیر کی تھی اوراس کے بعد ہی تمل ناڈو حکومت نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دی تھی۔ اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے دوٹوک پوچھا ہے کہ یہ بل 2020ء سے زیرغور تھے ، توگورنر تین سال سے کیاکررہے تھے؟یاد رہے،پنجاب اورکیرل کی حکومتوں نے بھی اسی نوعیت کی درخواست دے رکھی ہے۔ عدالت عظمیٰ کی سماعت سے پھر یہ بات ابھر کرسامنے آئی ہے کہ کیاکوئی گورنر کسی بل کو اسمبلی میں واپس بھیجے بغیر اس پر منظوری روک سکتاہے ؟عدالت عظمیٰ کی تازہ ناراضگی سے قبل تمل ناڈو کے گورنر نے دس بل حکومت کو لوٹادئے تھے، اس پر ناراض تمل ناڈو حکومت نے محض دودن بعد آناً فاناً میں اسمبلی کا اجلاس طلب کیا اوردس بلوں کو پاس کرواکے دوبارہ گورنر کے پاس بھیج دیا۔ اب گیند پھر گورنر کے پالے میںہے اورعدالت عظمیٰ نے بھی ان کی تنقید کی ہے۔
یہ عدالت چنددنوں میں گورنر کے خلاف تمل ناڈو کی درخواست پر سماعت کرسکتی ہے ۔ ویسے اس کے اب تک کے رخ سے عام طور پر گورنروں اورخصوصاً روی جی کو یہ واضح ہوجاناچاہیے کہ مختلف بلوں پر ان کے رخ غیرمستحکم ہیں۔ حزب مخالف کی یہ سخت شکایت ہے کہ متعدد ریاستوں میں گورنر جوش میںمتعلقہ ریاستی حکومت کو دبائو میں رکھنے کیلئے اپنے دفتر کاناجائز استعمال کررہے ہیں لیکن ان کی یہ حکمت عملی واضح طور پر ناکام ہورہی ہے۔مغربی بنگال،کیرل، تلنگانہ اورپنجاب کے گورنروں کا ماضی میں اپنی اپنی ریاستی حکومتوں کے ساتھ زبردست اختلافات ہے۔ ویسے تو عام طور پر ہردورمیں ایسے گورنر رہے ہیں جو ریاستی حکومتوں کے ساتھ تصادم کی راہ پر چلے ہیں لیکن اب حالات روز بروز بدتر ہوتے جارہے ہیں اورآراین روی تو ریاستی حکومت کے ساتھ اپنے سلوک میں غیرمعمولی طور پر مختلف دکھ رہے ہیں۔ مغربی بنگال اورکیرل کے وزائے اعلیٰ نے اپنے گورنروں کے ساتھ الگ طریقے سے سلوک کیاہے۔ بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی جارح رخ اپناتی رہی ہیں۔ انہوںنے اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ایک تجویز پیش کی تھی کہ گورنر اب ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر نہیں ہوںگے۔ کیرل کے وزیراعلیٰ پینا رائے وجین نے بھی سیاسی طور پر گورنر پر پلٹ وار کیاتھا۔ گورنرعارف محمدخان نے اعلان کیاتھاکہ انہوں نے ایک وزیر کے خلاف اپنی منظوری واپس لے لی ہے، لیکن ریاستی حکومت نے جب اس وزیر کے حق میں ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیاتو گورنر کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن نے شروع میں گورنر کے ساتھ زیادہ سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے سنجیدگی بنائے رکھی اورگورنر کے خلاف کسی بھی تلخ تبصرہ سے پرہیز کیا، پھر آہستہ آہستہ حالات بدل گئے۔ گورنراپنے تبصرے وخیالات کے ساتھ آگے بڑھتے چلے گئے۔ اسمبلی میں بھی انہوں نے ریاستی حکومت کی جانب سے بولنے کے بجائے اپنی طرف سے کئی باتیںکہیں ،جسے حکومت نے اسمبلی کی کارروائی سے ہٹادیا۔ حالات ایسے بگڑے کہ ریاست کے بی جے پی کے سربراہ کے انّاملائی بھی ناراض ہوگئے۔ انہوں نے بھی کھلے طور پر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ،’’ایک گورنر کو سیاسی زبان نہیں بولنی چاہیے، اس سے غلط مثال قائم ہوگی۔‘‘حالانکہ یہاں بھی حامی اورمخالف دوگروپ بن گئے۔ تلنگانہ کے گورنر تمیلسائی سند رراجن نے باالآخر آراین روی کی حمایت کی۔ سند رراجن تمل ناڈو میں فعال سیاست میں لوٹنے کیلئے پرعزم ہیں۔ انہوںنے کہاکہ گورنروں کے ذریعے سیاست پر بات کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں متعدد مدعوں پر تمل ناڈو کے گورنر کے رخ نے بی جے پی سے اب الگ ہوچکی اتحادی انّا ڈی ایم کے کو بھی پریشان کیاہے۔ ویسے تو گورنر کی کارروائیوں کامقصد اسٹالن حکومت کو بچاناتھاپراس سے اَنّادرمک کوکوئی خاص مددنہیں ملی۔ دوسری طرف برسر اقتدار درمک کو انّاڈی ایم کے پر حملہ کرنے کیلئے گورنر ایک آسان حربہ لگا۔ ڈی ایم کے نے انّا ڈی ایم کے کو گھیرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ہے۔ ریاستی اسمبلی کو خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ جب دس بلوں کو نظرثانی کرنے کیلئے رکھاگیا تب بائیکاٹ کرنے سے انّادرمک بے نقاب ہوگئی ہے۔ اب انّادرمک اس صفائی میں لگی ہے کہ اس نے بی جے پی کی حمایت نہیں کی ہے۔
دراصل وزیراعلیٰ اسٹالن نے اس حقیقت کو بھنانے کی ہرممکن کوشش کی ہے کہ گورنر ان کی حکمرانی کے خلاف ہیں۔ ایک نقطہ پر روی کا مذاق اڑاتے ہوئے انہوں نے وزیراعظم سے درخواست تک کی کہ گورنر کو 2024ء کے پارلیمانی انتخابات تک اپنے عہدے پربنے رہنے دیاجائے کیونکہ دروڑوں کے خلاف ان کے بیان دراصل ڈی ایم کے کی انتخابی مہم کو مزید قوت بخش رہے ہیں۔
پنجاب کے معاملے میں بھی عدالت کو گورنر کو متنبہ کرناپڑا کہ وہ منتخب نمائندے نہیں ہیں۔ گورنر سے یہی امید کی جاتی ہے کہ وہ کابینہ کے تعاون اورمشورہ سے کام کریںگے۔ وہ انگریزوں کے زمانے کے وائسرائے کی طرح سلوک نہیں کرسکتے۔ ان کے عہدے کا خصوصی مقصد آئین کی حفاظت کرناہے۔ انہیں اسمبلی سے جو بل منظوری کیلئے بھیجاجاتاہے وہ اس پر منظوری دے سکتے ہیں ، اسے واپس بھیج سکتے ہیں یاملک کے صدر کے پاس بھیج سکتے ہیں۔ اس بل کو غیرمعینہ مدت کیلئے روکے رکھنا غیرآئینی ہے۔
دراصل ہندوستان کے آزاد ہونے سے پہلے صوبہ کے گورنر ، جوانگریز ہواکرتے تھے، کو کابینہ کو کنٹرول کرنے کیلئے حتمی اختیار تھا۔ اُس دورمیں ریاست میں وزراء بھی دوطرح کے ہوتے تھے ۔ سارے ضروری شعبے انگریز وزراء کے ہاتھ میں ہوتے تھے اورکم ضروری محکمے ہندوستانی وزراء کے ماتحت ہوتے تھے لیکن وہ دوراور تھا ۔ اُس وقت مرکز میں انگریز گورنرجنرل کو گورنر کے توسط سے پورے ملک کو کنٹرول میں رکھنا ہوتاتھا۔ اب آزادی کے بعد اگرچہ مرکزکو زیادہ اختیار دے کر مضبوط بنایاگیاہے، لیکن موٹے طور پر ایک وفاقی نظام قائم کیاگیاہے جہاں ریاستی حکومتوں کو حکمرانی کیلئے کافی آزادی دی گئی ہے اورجمہوریت کے اصولوں کے مطابق سارے اختیارات وزیراعلیٰ کو دئے گئے ہیں۔ توہمیں توقع کرنی چاہیے کہ عدالت عظمیٰ کی مداخلت کے بعد ریاستوں کے گورنر صاحبان اپنے کردار کو سمجھیں گے۔
گورنروں کا رول اور آئین کے تقاضے : پروفیسر عتیق احمدفاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS