اڈانی گروپ پر لگائے گئے ہنڈن برگ کے الزامات کے بعد جہاں ملک کے معاشی اور مالیاتی ڈھانچوں میں شکست و ریخت کے آثار نظرآنے لگے ہیں، وہیں سیاست کامیدان بھی طوفان کی زد میں ہے۔ پارلیمنٹ کے جاری بجٹ اجلاس کے دوران حزب اختلاف کے ہنگامے، مطالبات اور تیزوتند بیانات حکومت کا ناطقہ بندکیے ہوئے ہیں۔حزب اختلاف کی جانب سے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ اس مالیاتی بدیانتی کی تحقیقات کا ایک نکاتی مطالبہ رد کرکے حکومت اپنی نیک نیتی کو بھی شبہ کی زد میں لے آئی ہے۔ اڈانی کے دفاع میں وزرا اورپارٹی لیڈروں کا پورا لشکر جھونک دیا گیا ہے۔ لیکن یہ لشکرالزامات کا جواب دینے کے بجائے طرح طرح کی تاویلیں گڑھ رہا ہے۔ راہل گاندھی کے پارلیمنٹ میں اڈانی گروپ کا نام لے کر سنگین الزامات لگانے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی سے توقع تھی کہ وہ ان الزامات کا ٹھوس جواب دیتے لیکن وزیراعظم نے آج اپنی جوابی تقریر میں اڈانی کا نام تک نہیں لیا۔ اس کے برعکس انہوں نے سابقہ یوپی اے حکومت کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2004 سے 2014 تک ’ گھپلوں کی دہائی‘ تھی۔ اس دہائی میں ’کامن ویلتھ گیمز گھوٹالہ‘، ’ کوئلہ گھوٹالہ‘ اور کئی دوسرے گھوٹالے ہوئے، یہ دہائی پوری طرح ضائع ہوگئی۔راہل گاندھی کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ کچھ لوگوں کی تقریر کی بازگشت ہورہی ہے، ان کے حامی اچھل کود مچارہے ہیں اور تقریر کرنے والے بھی پھولے نہیں سمارہے ہیں، انہیں خوشی میں نیند نہیں آرہی ہے اور پھر وزیراعظم نے ایوان میں ایک شعر بھی داغ دیا۔
کل پارلیمنٹ میں کانگریس لیڈرراہل گاندھی نے وزیراعظم نریندر مودی اور اڈانی گروپ کے سربراہ گوتم اڈانی کے درمیان تعلقات کے بارے میں کئی ایک انکشافات کیے تھے۔راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی پرراست الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ مودی حکومت کی ملکی، خارجہ اور اسٹرٹیجک پالیسیاں اور ترقیاتی پروگرام صنعت کار گوتم اڈانی کو فائدہ پہنچانے کیلئے بنائے جارہے ہیں جس کی عالمی سطح پر تحقیق کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا کہ گوتم اڈانی کے نریندر مودی کے ساتھ تعلقات برسوں پہلے اس وقت شروع ہوئے جب مسٹر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ گوتم اڈانی نے نریندر مودی کو ریزرجنٹ گجرات کا تصور دیا اور بتایا کہ کس طرح تاجروں کو شامل کرکے ترقی کی کہانی لکھی جا سکتی ہے۔ اس سے گوتم اڈانی کی زبردست ترقی ہوئی، لیکن اصل جادو 2014میں شروع ہوا جب نریندر مودی دہلی آ گئے۔ اس کے بعد سال 2014میں دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں 609ویں نمبر پر رہنے والے گوتم اڈانی چند برسوں میں دوسرے نمبر پر آگئے اور ان کی مجموعی دولت جو 2014میں 8ارب ڈالر تھی، بڑھ کر 2022میں 140ارب ڈالر سے زیادہ ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ کچھ سال پہلے ایک اصول تھا کہ جو لوگ ہوائی اڈے کے کاروبار میں نہیں ہیں انہیں ہوائی اڈے کے کاروبار میں آنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن اس اصول کو تبدیل کر کے چھ ہوائی اڈے اڈانی کو دے دیے گئے ہیں۔ ہندوستان نے اسٹرٹیجک لحاظ سے اہم ہوائی اڈے کھو دیے۔ ممبئی ایئرپورٹ جی وی کے کے نزدیک تھا۔ ایجنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے جی وی کے سے ہوائی اڈہ چھین کر اڈانی کو دے دیا گیا۔ نریندر مودی کو سیاست اور کاروبار کے درمیان اس انوکھے رشتے کیلئے ’گولڈ میڈل‘دیا جانا چاہیے۔
ضرورت تو اس بات کی تھی کہ وزیراعظم اڈانی گروپ کی مالیاتی بددیانتی اوراس کے ملک پر پڑنے والے اثرات کے سلسلے میںلگ رہے الزامات کا جواب دیتے لیکن انہوں نے یوپی اے دور حکومت کے 10برسوں کا طولانی ذکرکرتے ہوئے موجودہ حکومت کی کمیوں، خامیوں کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کی۔ہنڈن برگ نے جس طرح مالیاتی فریب کے تہہ در تہہ نقابوں میںلپٹے چہروں کو بے نقاب اور بے حجاب کیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہی محسوس ہورہاہے کہ راہل گاندھی کے الزامات میں بھی صداقت ہے ورنہ اڈانی گروپ کے قبضہ میں کوئی جن بھی ہے جو اس کیلئے ترقی کے دروازے کھولتا رہا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر راہل گاندھی کابیان غیرحقیقی اورصرف الزام تراشی ہے تو وزیراعظم نریندر مودی یا ان کے رفقا اس کا باقاعدہ نقطہ وار جواب دے کر ان الزمات کو غلط ثابت کیوں نہیںکررہے ہیں۔اس کے برخلاف یوپی اے دور حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھانا یہی بتاتا ہے کہ حکومت اس پوزیشن میں نہیںہے کہ وہ ان الزامات کا واضح اور دو ٹوک جواب دے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کیلئے گڑے مردے اکھاڑے جارہے ہیں۔
[email protected]