تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں!

0

عباس دھالیوال

جب بھی لوگ قدرتی وسائل سے کھلواڑ کرتے ہیں اور مظلوموں پر حکمراں اور طاقتور طبقہ بے انصافی و ظلم ڈھاتا ہے تو رب العزت ایسی گمراہی میں مبتلا لوگوں کو سبق سکھانے کے لیے قدرتی آفات کے ذریعے مختلف طریقوں سے عذاب بھیجتا ہے۔ سنامیوں کا آنا، زلزلوں، گلیشیئرکا پگھلنا، سیلاب اور بادلوں کا پھٹنا ایک طرح سے اس غائبانہ طاقت کے عذابوں کی مختلف شکلیں ہیں۔ اسی طرح سے دنیا میں مختلف اقسام کی وباؤں کا پھیلنا بھی اس کے عذاب کی نشانیوں میں سے ہیں۔ گزشتہ تقریباً دو سال سے جس وبا نے دنیا کو گرفت میں لے رکھا ہے،اس کو آج کل ہم کورونا وائرس کے نام سے جانتے ہیں۔
کووڈ-19 کی وبا دسمبر 2019 سے شروع ہوئی تھی۔ اس وقت کے امریکی صدر ٹرمپ نے بارہا اس وائرس کو ’چینی وائرس‘ کہا تھا۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ یہ وائرس دراصل چین کے ووہان شہر سے پوری دنیا میں پھیلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ’چینی وائرس‘نام سے منسوب کیا جائے۔ گزشتہ تقریباً 20 مہینے سے کورونا وائرس نے دنیا کو ایک طرح سے بدل کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کی اقتصادی صورتحال پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کے سبب سے دنیا کے لاکھوں لوگوں کے کاروبار اور نوکریاں متاثر ہوئے ہیں جبکہ کروڑوں لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ آج کل اسی کورونا سے وابستہ کووڈ- 19 کے ڈیلٹا ویریئنٹ کے مہلک اثرات سے بچنے اور اس سے مؤثر طور پر نمٹنے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک حکمت عملی طے کر رہے ہیں ۔اسی سلسلے میں گزشتہ ہفتے جمعہ کے دن آسٹریلیا سے جاپان اور فلپائن تک کے ایشیائی ممالک نے اپنے شہریوں کی نقل و حمل محدود کرنے کی غرض سے سخت پابندیاں عائد کی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، ڈیلٹا ویریئنٹ، جسے سب سے پہلے بھارت میں دریافت کیا گیا تھا، 96 سے زائد ملکوں میں پھیل چکا ہے اور عالمگیر سطح پر تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے۔
ڈیلٹا ویریئنٹ کے اثرات سے بچنے کے لیے امریکہ، اسرائیل اور سنگاپور جیسے ممالک ویکسی نیشن کے جدید پروگرام پر عمل درآمد کرنے میں مصروف ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ڈیلٹا ویریئنٹ کی سب سے زیادہ زد میں ایشیائی ممالک ہیں جہاں تصدیق شدہ کیسز کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ خطے میں ویکسی نیشن مہم کی سست روی کے باعث لاکھوں افراد کو اس تیزی سے پھیلنے والی وبا کا خطرہ لاحق ہے۔ اس وبا کے سلسلے میں امریکی سینٹرس فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پری ونشن (سی ڈی سی) کی ایک داخلی دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے لکھا ہے کہ ڈیلٹا ویریئنٹ دراصل خسرے کی طرح کا ایک متعدی مرض ہے جو بیمار کو تیزی سے جکڑ لیتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کووڈ کی اتنی خطرناک قسم ہے۔ وہ لوگ جنہیں وبا سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگ چکی ہے، انہیں بھی یہ بیماری لگ سکتی ہے۔ ادھر وبائی امراض کے ماہر، ڈکی بودامین نے نیوز ’رائٹر‘ کو بتایا ہے کہ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ پچھلی تمام اقسام کے مقابلے میں ڈیلٹا ویریئنٹ 1000 گنا زیادہ مہلک ہے۔ اسی لیے ہمیں خدشہ ہے کہ یہ بے قابو ہو جانے کی حد تک تیزی سے پھیلنے کی قوت رکھتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیلٹا کی وجہ سے بیماری کی سنگین علامات رونما ہوتی ہیں، خاص طور پر سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کووڈ کی اتنی خطرناک قسم ہے کہ وہ لوگ جنہیں وبا سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگ چکی ہے، انہیں بھی یہ بیماری لگ سکتی ہے۔ ادھر وبائی امراض کے ماہر، ڈکی بودامین نے نیوز ’رائٹر‘ کو بتایا ہے کہ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ پچھلی تمام اقسام کے مقابلے میں ڈیلٹا ویریئنٹ 1000 گنا زیادہ مہلک ہے۔ اسی لیے ہمیں خدشہ ہے کہ یہ بے قابو ہو جانے کی حد تک تیزی سے پھیلنے کی قوت رکھتا ہے۔

مذکورہ وبا کے پیش نظر دنیا کے الگ الگ ممالک میں ابھی سے اس سے بچاؤ کے لیے مختلف حفاظتی تدابیر یں اختیار کی جانے لگی ہیں۔ اس سلسلے میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ وہاں لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا ہونے سے روکنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ وہاں کے شدید متاثرہ علاقوں میں کووڈ کا ٹیسٹ لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سڈنی میں پولیس کی مدد کے لیے فوجی اہلکاروں کو تعینات کیا جا رہا ہے جو ایسے افراد کو کوارنٹین میں رکھنا یقینی بنائیں گے جن کے ٹیسٹ مثبت آئے ہوں۔فلپائن نے بھی گزشتہ دنوں دارالحکومت منیلا کے وسیع علاقے میں دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا۔ 16 شہروں پر مشتمل اس علاقے میں ایک کروڑ 30 لاکھ لوگ آباد ہیں۔ لاک ڈاؤن کا مقصد ڈیلٹا کے مضر اثرات سے عوام کو بچانا اور ملک کے طبی نظام کو چست درست بنانا ہے۔
ہمارے ملک ہندوستان میں بھی گزشتہ دنوں تصدیق شدہ مریضوں کی ریکارڈ تعداد رجسٹرڈ ہوئی جو گزشتہ تین ہفتوں کی تعداد سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ماہرین کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر صورت حال کنٹرول سے باہر ہو گئی تو وبا کی ایک اور شدید لہر سامنے آئے گی جبکہ جاپان میں اس سلسلے میں گزشتہ دنوں اوساکا کے مغربی علاقے سمیت اور ٹوکیو میں اولمپک کھیلوں کے تین علاقوں میں اگست کے آخر تک ہنگامی صورت حال کا اعلان کیا گیا جہاں کووڈ -19 کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ ہوا ہے جن کی وجہ سے کھیلوں پر بیماری کا سایہ منڈلا رہا ہے۔ جاپان کے وزیرخزانہ نے متنبہ کیا ہے کہ کورونا بحران انتہائی درجے کی جانب بڑھ رہا ہے جسے نہ روکا گیا تو نتائج کنٹرول سے باہر ہو سکتے ہیں۔ بقول ان کے، تیزی سے پھلتی ہوئی بیماری کا سبب لوگوں کا ایک دوسرے سے میل ملاپ ہے۔ اس کے باعث مرض کے تصدیق شدہ کیسز میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اگر بات ویتنام کی کریں تو اس کی کل آبادی 9 کروڑ، 60 لاکھ لوگوں پر مشتمل ہے۔ وہاں ویکسین کی خوراک لینے والے افراد کی کل تعداد ایک فیصد کے قریب ہے۔ حکام نے پرائیویٹ اسپتالوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ ڈیلٹا ویریئنٹ کے پیش نظر ہنگامی حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں۔ حالانکہ ویتنام ابھی تک وبا کے مضر اثرات سے بچا ہوا مانا جا رہا تھا لیکن اپریل کے بعد سے وہاں پر روزانہ کی بنیاد پر تصدیق شدہ کیسز میں کافی اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ ویتنام کی وزارت صحت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کووڈ-19 کی وبا اپنی بدترین شکل میں نمودار ہو رہی ہے اور جس رفتار سے اس میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، اگر وقت رہتے خاطر خواہ اقدام نہ اٹھائے گئے تو وبا متعدد شہروں اور صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
کل ملا کر اب بھی ہم لوگوں کے پاس وقت ہے کہ ہم مادہ پرستی کی بھاگ دوڑ والی زندگی کو خیر باد کہتے ہوئے اپنی حقیقت کی طرف لوٹیں، اپنے اعمال کو درست کریں، کیونکہ جیسے اعمال ہم اوپر بھیجتے ہیں ویسے ہی فیصلے آسمان سے ہمارے لیے نیچے آتے ہیں۔ ویسے کہا یہ بھی گیا ہے کہ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پہ رحم کرے گا۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے ہمیں قدرتی نظام میں دخل اندازی بند کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ بے جا مفادات کے حصول کی خاطر جو ہم نے غریبوں و مظلوموں پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس کو یکسر بند کرنا چا ہیے۔ اس کے علاوہ جو ہم لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں، اس سے بھی ہمیں باز آنا چاہیے یعنی ہمیں انسانیت کو تکلیف دینے والی سبھی حرکات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ دراصل اسی میں ہم سب کی خیر و عافیت اور بھلائی کا راز پوشیدہ ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS