ایک طرف غزہ میں پوری آبادی کو درگورکرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری طرف مغربی کنارے میں اسرائیل اپنااستبدادی روپ دکھارہاہے۔ مغربی دنیا 25 دنوں سے وہ رٹے رٹائے بیان دے رہی ہے۔ 7اکتوبر کے دہشت گردانہ حملے کوجواز بناکر بربریت کا وہ ننگاناچ ہو رہا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ہلاکو، ہٹلر، چنگیز خاں کو شرمندہ کرنے والی بربریت اسرائیل اور اس کے حواریوں کو شرمندہ نہیں کررہی ہے۔ 8ہزار افراد سے زیادہ معصوم بچوں، عورتوں اور عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن کو خیال آیا ہے کہ دوریاستی فارمولے کے علاوہ اس مسئلہ کا قانونی حل نہیں ہے۔اس اعتراف کے باوجود بائیڈن غزہ اور مغربی کنارے پراسرائیل کی فوجی کارروائیوں پرمذمت کے لیے منہ کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اگردنیا کے نمائندہ ادارہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے جہاں حماس کے دہشت گردانہ حملہ کی مذمت کی وہیں اسرائیل اور اس کے حواریوں کو بھی یاددلایا کہ یہ واقعات فوری ردعمل کے طورپر نہیں ہوئے ہیں، ان واقعات کے پس پشت 57سال کے کرب وآلام ہیں اور فلسطینیوں کی بے بسی اور بے سروسامانی ہے جس کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ آئینہ دکھانا اسرائیل کو پسند نہیں آیا اور وہ لگا برا بھلا کہنے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ کوپورا مغربی میڈیا اور اسرائیل کی نام نہاد قیادت کوسنے لگا۔ آج امریکہ کے صدر کے موقف میں تبدیلی آئی ہے اور انھوںنے دوریاستی فارمولے کی بات کرنی شروع کردی ہے، یہ وہی صدر امریکہ ہیں جنہوں نے امریکہ میں فلسطینی اتھارٹی کے ’صدر‘ محمودعباس کے اس بیان کو نظرانداز کردیاتھا جس میں انھوں نے دوریاستی فارمولے کے نفاذ کی بات کہی تھی۔ اس وقت جوبائیڈن نے یہ کہہ کر خاموش کردیاتھا کہ ابھی مذاکرات کا وقت نہیں آیا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے اسرائیلی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے دوران یہ موقف دہرایا ہے کہ حماس اسرائیل تنازع کے خاتمہ کے بعد دونوں فریق اسرائیلی اورفلسطینیوں کو دوریاستی فارمولے کے حل پر توجہ دینی چاہیے۔جوبائیڈن نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کو ایک ساتھ یکساں تحفظ، وقار اور امن درکار ہے۔ ہماری نگاہ میںدوریاستی فارمولہ اس مسئلہ کا حل ہے۔اس امریکی صدر جوبائیڈن نے یہ بات اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو کے ساتھ ٹیلی فون پربات چیت میں بھی دہرائی کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان مستقل قیام امن کے لیے روڈمیپ طے ہونا چاہیے۔
دراصل 7اکتوبر کے واقعات کے بعد پوری دنیا میں مسئلہ فلسطین کے حل کی بات بڑے زورشورسے ہونے لگی ہے۔ اس تازہ صورت حال نے امریکہ کی جانبداری اور جارحیت کو مدد پہنچانے کی مذموم کوششوں اور منصوبوں کی مذمت کی ہے۔ اسرائیل کی قانون شکنی تمام بربریت کو اس بار دنیا نے پورے ننگے پن کے ساتھ دیکھا ہے۔ پوری دنیا خاص طورپر یوروپ،امریکہ اورمغربی دنیا کے دوغلے پن کو بھی اس جارحیت نے طشت از بام کردیا ہے۔ مصر کے مفکر اور دانشور باسم یوسف نے اس بات کوبہت کھلے الفاظ میں مغربی ممالک کی روشن خیالی اور لبرل اقدار اور مساوات کی پول کھولی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آج کی صورت حال میں اسرائیل کو من مانی کرنے اور اس طرح قتل وغارت کرنے کی اجازت اور حمایت مغربی ممالک نے دی تو یہ ممالک اپنی عزت گنوادیں گے۔ان اقدار کی دہائی دے کر مغرب پوری دنیا کو انسانیت، جمہوریت کا درس دیتا ہے۔
انھوںنے پوچھا ہے کہ اسرائیل کے ذریعہ غزہ میں کارپیٹ بمباری کرنے کا کیاجواز ہے؟ اگر یہ کام کرکے اسرائیل اپنے آپ کو محفوظ بناسکتا ہے تو اسی جواز کو درست قرار دیاجاسکتا ہے۔ اسرائیل اپنی حکمت عملی سے اس طرح کی بربریت انجام دے کر عام فلسطینی کو حماس کے خلاف کھڑا کرنا چاہتاہے اور عام لوگوں میں رہ رہے اور چھپے ہوئے حماس کے دہشت گردوںکاخاتمہ کرناچاہتا ہے اور باقی معصوم لوگ عورتیں، بچے مر رہے ہیں ان کو اس کارروائی کا مضمراتی اثریاCollaleralنقصان قرار دیا جا رہا ہے۔
اسرائیل شروع سے ہی شمالی غزہ کے فلسطینیوں سے گھر چھوڑنے اور جنوبی غزہ کی طرف جانے کا مطالبہ کررہا ہے اوراس کی پوری بمباری کا فوکس اگرچہ پوراغزہ ہے مگر شمالی غزہ پراتنے بم برسارہاہے کہ وہ لوگ وہاں سے بھاگ کر جنوب کی طرف چلے جائیں اور وہاں سے رفح کے راستے مصرمیں پناہ لے لیں۔ اسرائیل کی حکمت عملی پورے غزہ کو خالی کرانے کی ہے، کچھ کو درگور کرکے اور جن کو اپنی جان پیاری ہے، ان کو دربدر کرکے مصر میں منتقل کرنا ہے، اس طرح فلسطینی آبادی کے ایک علاقے غزہ کو مکمل طور پر خالی کراکے اس میں پنپنے والے حریب پسند (دہشت گردوں) کا صفایا کرنا ہے۔
اسرائیل کے خلاف برسرپیکار کچھ گروپ اور ممالک نے موجودہ بدترین بحران کو تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ بتایا ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت غزہ پراسرائیلی نسل پرست حکومت کی فوجی کارروائی کو روکنے کی بات ہورہی ہے اور ہر طرف امن امن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے مگر ایک بڑا طبقہ خاص طورپر اسرائیل اور اس کے حواریوں کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ جوبائیڈن جس کے بارے میں ایک بڑے طبقہ کی بڑی مثبت رائے تھی اوران کو ڈونالڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ایک متحمل مزاج اورمتوازن لیڈر کے طور پر دیکھاجاتا ہے، اس جنگ میں انھوںنے اپنا اصل رنگ دکھادیاہے۔ غزہ میں 9ہزار افراد کی ہلاکت کے بعد یہ ’حساس‘لیڈر گوری چمڑی والے ڈونالڈٹرمپ سے کم سفاک دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔اسرئیل کی فوجی کارروائی کے 26دن گزرنے کے بعد جوبائیڈن نے جنگ بندی کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے جبکہ ان کے کابینی رفقاء اور امریکہ کے اعلیٰ لیڈروں کے خلاف امریکہ کے حساس اور انسانیت نواز گروپ عوامی اجتماعات، مذاکروں اور مباحث میں اسرائیل کی سفاکی میں امریکہ کو یکساں شریک اور ملوث مانتے ہیں اور اعلیٰ ترین قیادت کے خلاف امریکہ اور امریکہ سے باہر سخت مظاہرے اوراحتجاج ہورہے ہیں۔ عالمی سطح پر کئی ایسے ممالک سامنے آگئے ہیں جو برملا امریکہ اور اسرائیل کی انسانیت سوز حرکتوں کی مذمت کررہے ہیں اور کچھ ممالک نے تو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلیے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تعلقات منقطع کرنے والے پہلے ممالک میں مسلم یا عرب ملک نہیں ہیں۔اس سے امریکہ اور اس کے حواری پورا مغرب زدہ میڈیا، عالم اسلام، عالم عرب کو للکاررہے ہیں اور لکھ رہے ہیں کہ وہ کتنے کم ہمت، تنگ ذہن ہیں کہ وہ ان فلسطینیوں کو نظرانداز کررہے ہیں۔
مغربی دنیا کا کوئی بھی لیڈر عالمی فلاحی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل کے باوجود اسرائیل سے یہ کہنے کے لیے اوراس پر زور ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ وحشیانہ بمباری بندکرے۔اسپتالوں، ایمولینسوں، مسجدوں پر بم برساکر یہ سب اس سازش میں مصروف ہیں کہ غزہ کو خالی کراکر اسے فلسطینیوں سے پاک کردیا جائے اور اسرائیل غزہ، مغربی کنارہ اور ان تمام علاقوں پر اپنا جابرانہ قبضہ برقرار رکھے جس پراس نے 1967میں چھ دن کی جنگ میں قبضہ کیاتھا۔n
اہل غزہ کی قسمت میں دو ہی متبادل دربدری یاموت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS