صیہونیت کی سرپرستی کے خلاف مزاحمتی محور

0

7اکتوبر کے حماس کے حملے اسرائیل پر حملے کے بعد دنیا میں بھوچال سا آ گیا ہے۔ ابھی تک یہ لگ رہا تھا کہ مغربی طاقتیں یوکرین میں روس سے برسرپیکار ہیں اوران کی تمام تر توانائی روس کو ہی پس کرنے میں لگی ہوئی ہے مگر گزشتہ 25روز سے چلی آرہی کارروائی میں دنیا میں ایک اور مزاحمتی محور یعنی Axis of Resistanceبن کر سامنے آگیا ہے۔ اس مرتبہ مغرب مخالف طاقتوں نے مغرب سے پہلے ایک نئی اصطلاح کو وضع کردیا ہے جو کہ اس پورے معرکہ پر روشنی ڈالنے والی ہے۔ اس مزاحمتی محور میں ایران کی حمایت والے ممالک اور ایسے مسلح گروہ ہیں جن کو ہم نان اسٹیٹ ایکٹرNon- State Actor کہہ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس مزاحمتی محور میں سب سے طاقتور حزب اللہ ہے جو کہ لبنان میں ایک غیر معمولی فوجی اور سیاسی طاقت ہے۔ اس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حزب اللہ کی فوج لبنان کی سرکاری فوج کے کنٹرول سے بالکل باہر ہے۔ لبنان کا کوئی عہدیدار صدر، نائب صدر، وزیراعظم یا وزیردفاع اس کا سربراہ نہیں ہے۔حزب اللہ کی فوج اعلیٰ اور جدید ترین ہتھیار وں سے آراستہ ہے۔ اس کے فوجی اپنے لیڈر کی ایک آواز پر لڑنے مرنے کو تیار ہیں۔ جب سے غزہ کا یہ معرکہ شروع ہوا ہے جب سے مغرب ممالک طاقتوں میں سب سے زیادہ بلند آواز اور شدید رد عمل ایران کی طرف سے آیا ہے۔ کئی حلقو ں میں ایران کی سیاسی حکمت عملی کو Smoking Gunکہاہے ، مگر ایران جو کہ شروع سے ہی اسرائیل کے خلاف سخت الفاظ استعمال کررہا ہے اس کی پالیسی عرب اور خطوں کے دیگر ممالک سے بالکل الگ ہے۔ ایران نے حماس کے حملہ کے بعد اگرچہ اس کی کھلم کھلا حمایت کی ہے۔ اس نے حالیہ حملوں کی سازش سے پلہ جھاڑاہے۔اس حملے کی پس پشت اس کی منظوری یا حمایت ہے اس سے انکار کیا ہے۔ مغربی مبصرین کی رائے ہے کہ ایران اس خطے میں امریکہ اور اس کے قریب ترین حلیف اسرائیل کے خلاف براہ راست جنگ نہ کرتے ہوئے اپنے پروردہ مختلف گروپوں اور مسلح گروہوں کو آگے کررہا ہے۔ حزب اللہ نے جنوبی لبنان سے کئی راکٹ اسرائیل کی سرحد میں داغے ہیں، مگر اس میں کافی نقصان بھی ہوا ہے، مگر دو روز قبل یمن کے سب سے طاقتور حوثی قبائلی مسلح جنگجو نہ صرف یہ کہ اسرائیل کو کھلی دھمکی دے رہے ہیں بلکہ اسرائیل کے تئیں نرم رویے اختیا ر کرنے کے لیے ہمسایہ ملکوں کو بھی کھڑی کھوٹی سنا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ صدام حسین کے زوال کے بعد عراق میں ایران کا عمل دخل بڑھا ہے اسی طرح 2011میں عرب بحریہ کی نام نہاد تحریکوں کے بعد شام میں جو مسلح بغاوت ابھری ہے اس کے خلاف بھی ایران کی حمایت یافتہ کئی تنظیمیں سرگرم ہیں۔ شام کے صدر بشارالاسد کو ایران کے علاوہ روس سے بھی مدد مل رہی ہے اور شام میں ابھی بھی بڑی تعداد میں روسی فوجی ہیں۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ امریکہ کے کئی اڈے شام میں سرگرم ہیں جو قرب وجوار میں امریکی مفادات کے تحفظ میں پیش پیش ہیں۔ جیسا کہ ان صفحات میں اس سے قبل بھی باور کرایا جاچکا ہے کہ امریکہ کرد باغیوں کی پست پناہی کرکے خطے میں اپنا اثر ورسوخ بڑھا رہا ہے۔ شام ، عراق، بحرین، اردن وغیرہ میں امریکہ کے فوجی اڈے ہیں۔ 7اکتوبر کے بعد سے کئی مرتبہ امریکہ شام میں ایرانی ٹھکانوں پر حملہ کرچکا ہے۔ اسرائیل بھی شام میں فوجی کارروائی کرکے اپنے موجودگی کا احسا س کرا رہا ہے۔ اگرچہ شام کے صدر بشارالاسد اپنے ملک میں غیر طاقتوں کی موجودگی کو لے کر کئی بیان دے چکے ہیں مگر اس تنازع میں ان کاکوئی بہت زیادہ سخت یا قابل توجہ بیان نہیں آیا ہے، کیونکہ وہ 2011سے اب تک اپنی داخلی مسائل میں اس قدر گھرے ہوئے ہیں کہ قرب وجوار کے امور میں ان کی دلچسپی زیادہ نہیں ہے۔ ان کا یہ عمل اگرچہ غیر فطری نہیں ہے مگر وہ تمام عرب ملکوں کی مخالفت اور رقابت کے باوجود شام میں برسر اقتدار ہیں۔ یہ اپنے آپ میں غیر معمولی صورت حال ہے۔ پچھلے دنوں سعودی عرب کے شہر جدہ میں عرب سربراہ کانفرنس میں ان کی موجودگی نے یہ ثابت کردیا کہ وہ تمام تر مخالف قوتوں کے باوجود اپنی جگہ قائم اور دائم ہے۔ یہ ان کا اقتدارمیں رہنا ایران اور روس کی خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایران کی ہمیشہ سے ہی مسئلہ فلسطین میں دلچسپی رہی ہے۔ حماس کو ایران کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اسی طرح اسلامک جہاد کے علاوہ دیگر چھوٹے چھوٹے مسلح قبائل گروپ بھی مختلف سمتوں سے حمایت حاصل کرکے اسرائیل کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
جنگی ماہرین اور مغربی ایشیا پر نظر رکھنے والوں کا دانشوروں کا کہنا ہے کہ ایران کبھی بھی براہ راست اپنے پروردہ گروپوں کی کھل کر حمایت نہیں کرتا۔ اس میں چاہے حماس ہو ، اسلامک جہاد ہو یا حزب اللہ ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ حماس کی اصل جڑ اخوان المسلمین ہے جو کہ اسلامی اصولوں پر مبنی ایک سیاسی گروہ ہے۔ جس نے 2011 کی جمہوریت کی تحریک کے دوران مختلف ملکوں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ مغربی ایشیا کے کئی ممالک جن میں مصر جیسا مضبوط اور فوج کے کنٹرول والا ملک بھی شامل ہے جو کہ اخوان المسلمین کی ’ جمہوریت‘ کے قیام کی تحریک کی کامیابی کے بعد برسراقتدار آگئی تھی۔ اس کے علاوہ تیونس، الجیریا ، بحرین، یمن اور دیگر کئی عرب ممالک میں جو جمہوریت نواز تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اس کے پس پشت مغربی طاقتیں اور میڈیا بھی پیش پیش تھا۔ امام خمینیؒ کی تحریک میںاسلام پسندوں کی مہم کے بعد ایران میں رضا شاہ پہلوی اقتدار کے زوال کے بعد پوری دنیا میں ایران ایک رول ماڈل بن کر سامنے آیا تھا۔ امریکہ رضاشاہ پہلوی کو مکمل حمایت دیتاتھا۔ایران کا براہ راست امریکہ سے معرکہ ہوا اور 1979کے انقلاب ایران کے بعد کئی سنی گروپوں اور دیگر حلقوں، طبقات میں ایران کی مقبولیت بڑھی تھی اور اس کو مسلم دنیا میں رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جانے لگا تھا۔ اس کے ساتھ امریکہ اور ایران کا براہ راست تصادم بڑھا۔’اسلام پسندوں‘ نے امریکہ کے سفارت خانہ پر قبضہ کرکے کئی سفارت کاروں کو اغوا کرلیا گیا تھا ۔ ایران اور امریکہ کے درمیان طویل اور تھکا دینے والے مذاکرات کے بعد امریکی یرغمالیوں کو رہائی ملی تھی ۔ ایران اور امریکہ کے درمیان موجودہ چپقلش اسی معرکہ کے نتیجہ ہے۔ دونوں ممالک ماضی کی ان کی تلخ یادوں اور تجربات کو فراموش نہیں کرسکے ہیںاور ابھی تک عالمی سیاست میں امریکہ اور ایران کے درمیان تصادم برقرار ہے۔ جو بائیڈن نے اپنے انتخاب کے بعد جب16جولائی 2022کو جدہ کا دورہ کیا تو وہ مغربی ایشیا کے کئی ممالک مثلاً اسرائیل اور رملّہ بھی گئے۔ اسرائیل پہنچنے پر جو بائیڈن نے تمام امور کو نظرانداز کرتے ہوئے اس وقت کے صدراسحاق ہرگوز کارگزار وزیر اعظم لیپڈ یائیر کے ساتھ صرف اور صرف ایران کے نیوکلیئر پروگرام اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات پر اپنی گفتگو مرکوز رکھی۔ اگرچہ وہ رملّہ میں محمود عباس سے ملاقات کرنے گئے مگر وہ ایک رسمی سی ملاقات تھی۔ جب محمود عباس نے دوریاستی فارمولے کی بابت اپنا مطالبہ دہرایا تو صدر موصوف نے بات ٹال دی۔ یہی ٹا ل مٹول مسائل کا اصل سبب ہے۔ غزہ کے موجودہ تنازع کے بعد دنیا میں لگاتار یہ بات اٹھائی جا رہی کہ امریکہ کی دلچسپی ایک آزاد فلسطینی کو لے کر نہیں ہے۔ اگرچہ امریکہ مسلسل دو ریاستی فارمولہ کی بات کرتا ہے۔
مگر عملاً امریکہ نے گزشتہ 30سال میں اوسلو سمجھوتے کے نفاذ میں کچھ نہیں کیا اور موجودہ صورتحال امریکہ اور اسرائیل کی ان مذموم کوششوں کا نتیجہ ہے جس کے تحت یہ دونوں ممالک اور ان کے مغربی حواری آزاد فلسطینی مملکت کا قیام روکے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یمن، شام، عراق ممالک اسرائیل اور امریکہ کے لیے بڑا خطرہ ہوسکتے ہیں۔ حزب اللہ کو تو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت اسرائیل کے سامنے سب سے طاقتور دشمن حزب اللہ ہی ہے اور 7اکتوبر کے حملے کے بعد سب سے زیادہ سخت زبان اور رد عمل جنوبی لبنان کے حزب اللہ کے کنٹرول والے خطے سے ہی آرہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایران حزب اللہ ، انصار اللہ (یمن)نجاباہ مومنٹ کو آگے بڑھائے گا یا اس کی حکمت عملی روایتی حکمت عملی سے مختلف ہوگی۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS