پھر سوشل میڈیا کو زنجیر ڈالنے کی کوشش

    0

    محمد فاروق اعظمی

    مسلم خواتین کی بے توقیری کے واقعات کو حکومت سوشل میڈیا کی آزادی سے جوڑ رہی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کو پابند کیے بغیر اس طرح کے واقعات پر قابو نہیں پایا جاسکتا ہے لیکن حزب اختلاف اور سول سوسائٹی کسی بھی ایسے اقدام کے خلاف ہے جس سے کہ سوشل میڈیاکو پابند بنایا جاسکے۔ حکومت کا یہ موقف روا ں بجٹ اجلاس کے دوران سامنے آیا ہے۔مرکزی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اشونی وشنو کا کہنا ہے کہ جب کبھی سرکار نے سوشل میڈیا کو جواب دہ بنانے کیلئے کوئی قدم اٹھایا تو حزب اختلاف کا الزام تھا کہ سرکار اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مرکزی وزیر نے انتہائی معصومانہ انداز میں کہا کہ اگر ایوا ن متفق ہوتا ہے تو ہم سوشل میڈیا کیلئے اور بھی سخت ضوابط بنانے کیلئے تیار ہیں۔
    یہ معصومانہ جواب در اصل ایک تیر سے دو نشانہ لگانے کی کوشش ہے۔حکومت کی اصل منشاایسے واقعات کی روک تھام کے بجائے سوشل میڈیا پر پابندی لگانے اوران کیلئے اصول و ضوابط سخت بنانے پر ہے۔اس سے قبل بھی کئی بار حکومت یہ کوشش کرچکی ہے اور اس سلسلے میں ایوان میں کسی اتفاق رائے کے بغیر ہی کئی قوانین بھی بنائے جاچکے ہیں، صرف اسی معاملے پر ہی نہیں بلکہ درجنوں ایسے قوانین بنائے گئے جس میں حکومت نے کسی اتفاق رائے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور آمرانہ انداز میں ان قوانین کو نافذ بھی کردیاگیا ہے۔
    سوشل میڈیا کو پابند کرنے کے اپنے دیرینہ مقصد کی تکمیل کیلئے اس بار حزب اختلاف کی آڑ لے رہی ہے۔ مسلم خواتین کے حوالے سے ایک نیا دائو کھیلا ہے۔گیند حزب اختلاف کے کورٹ میں دھکیل کرچاہتی ہے کہ اسی بہانے چھینکا بھی ٹوٹ جائے۔رنگ برنگی تجاویزات بھی لائی جارہی ہیں اور یہ بھی کہاجارہاہے کہ سوشل میڈیا کے پروفائل کو استعمال کنندہ کے آدھار کارڈ سے بھی جوڑ دیا جائے۔ یہ مسئلہ کا حل نہیں بلکہ اظہار رائے کی بنیادی آزادی غصب کرنے کا ایک آلہ ہے۔ اس سے پہلے بھی حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون میں دفعہ66کا التزام کیا تھا جسے سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے ختم کردیا کہ اس سے آئین میں دی گئی اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔اکثر یہ بھی دیکھاجاتارہاہے کہ سوشل میڈیا پر سماجی اور سیاسی مسائل پر کیے گئے تبصروں کیلئے بھی پولیس کارروائی کے معاملے میں آئی ٹی قوانین کی مختلف دفعات کا غلط استعمال کر رہی تھی۔ جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ رازداری کا حق در اصل زندگی کے حق اور شخصی آزادی کے حق کی طرح بنیادی حق ہے جس کا آئین کی دفعہ21 میں تحفظ کیا گیا ہے اور دستور کے مکمل تیسرے حصے میں بھی اس کاذکر ہے۔
    ان ہی سطور میں اس سے پہلے بھی لکھا جاچکا ہے کہ صحافیوں پر جبر و ظلم اور پریس کی آزادی کے معاملے میں 180 ممالک کی فہرست میں ہندوستان کا موجودہ مقام140واں ہے۔ مین اسٹریم کا گودی میڈیا اپنا فرض ادا کرنے کے بجائے حکومت کا ترجمان بن چکا ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے نام سے بھی خبر رسانی کے بجائے حکومت کی ترجمانی عام ہوگئی ہے۔ پریس کی آزادی کے معاملے میں ہندوستان 180ملکوں کی فہرست میں140ویں مقام پر ہے۔ آج سے 20سال قبل 2002 میں پریس اور اظہار رائے کی آزادی کے معاملے میں ہندوستان کا مقام 80واں تھا۔ ان حالات میں مین اسٹریم میڈیا سے مایوس ہندوستان کے جمہوریت پسند عوام نے سوشل میڈیا سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ ایشیا میں ہندوستان سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرنے کے معاملے میں سر فہرست ہے اور یہ بھی ایک کھلی سچائی ہے کہ سوشل میڈیا کانشہ پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے اور ہندوستان کی نئی نسل بھی اس جنون میں مبتلا ہے۔
    اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہندوستان کے موجودہ ماحول میں افواہوں اور غلط خبروں کی گردش پر لگام لگانا ضروری ہے۔ کچھ لوگ اسے سماجی نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ آج بچوں کے ہاتھ میں بھی اسمارٹ فون ہیں اور وہ سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں۔اس کا کتنا اثر ہے اس کا اندازہ اسے استعمال کرنے والوں کو نہیں ہورہا ہے۔سوشل میڈیا پر انتہائی مضحکہ خیز پوسٹس بھی کی جا رہی ہیں۔ یہ صارف کی صوابدید پر ہے کہ ان میں سے کون سی اس کے اور معاشرے کیلئے مفید ہے۔ اسی طرح مذہب کے نام پر معاشرے کو تقسیم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اورمذہبی تبصرے کر کے معاشرے میں زہر گھولنے کامنصوبہ بند کھیل بھی ہورہاہے۔ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے مواد کی اشاعت اور گردش معاشرہ کے امن و سکون کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے استحکام اور سالمیت کیلئے بھی خطرہ ہوسکتی ہے۔افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میڈیا کو استعمال کرنے والوں میں سب کی سمجھ اتنی نہیں ہے۔ ہمارا روادار معاشرہ مذہبی امتیاز سے بالاتر ہو کر سوچ سکتا ہے۔ لیکن ایسے کسی بھی تبصرے کی مخالفت کی جانی چاہیے جو معاشرتی انتشار کا باعث ہو۔ ان خدشات اور واقعات کے پیش نظر اگر سوشل میڈیا پر جاری سرگرمیوں پر نگرانی کا معقول انتظام کیاجائے تو اسے غلط نہیں قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ کسی امن پسند شخص یا طبقہ کو اس پر اعتراض ہوسکتا ہے۔ یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ متنازع پوسٹ اور مواد ڈالنے والے کی نیت اور ذہنی حالت کیا ہو سکتی ہے۔ اس قسم کی تعلیم کی بھی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کو کہاں اور کیسے استعمال کرنا معاشرے کے مفاد میں ہو سکتا ہے۔
    اگر کوئی کسی بھی ذریعے سے سماجی نفرت پھیلاتا ہے تو اس کے لیے قوانین موجود ہیںاور حکومت کو ان قوانین کے سخت نفاذ کا عزم کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ سوشل میڈیا کو ہی زنجیر پہنانے کی کوشش کی جائے۔ جیسا کہ ہمارے مرکزی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اشونی وشنو عام اتفاق رائے کی بنیاد پرسوشل میڈیا کیلئے اور بھی سخت ضوابط بنانااور زیادہ جوابدہی مقرر کرنا چاہتے ہیں۔لیکن اس سے پہلے موجودہ قوانین کو ہی اگر سختی سے نافذ کیا جائے اور حکومتی سطح سے عام ذہن میں منافرت اور انتشار کے بیج ڈالنے کے بجائے ہم آہنگی اور رواداری کی مہم چلائی جائے نیز ’بلی بائی‘ جیسی ویب سائٹ کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے توزیادہ بہتر ہوگا اوریہ حکومت کا فرض بھی ہے۔ لیکن اس بہانے سے سوشل میڈیا کو زنجیر پہنانا اور ایسے قوانین بنانے کی کوشش کرنا جس سے اظہار رائے کا بنیادی حق خطرہ میں پڑجائے اس کی بھی حال میں تائید نہیں کی جاسکتی ہے۔
    [email protected]

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS