ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
ابھی صرف پندرہ ماہ کی مدت گزری ہے کہ فلسطین خاص طور سے غزہ کے مظلوم باشندوں نے اسرائیل کی جانب سے مسلط سخت جنگ کی مار کو برداشت کیا تھا اور ہمیشہ کی طرح بیشمار جانی و مالی قربانیاں پیش کرکے اپنی مزاحمت کی تاریخ کو سرخ رو بنایا تھا۔ اس جنگ کے اثرات سے فلسطینی ابھر بھی نہیں پائے تھے کہ اسرائیل نے ان پر ایک نئی اور خوفناک جنگ مسلط کر دی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جو جنگ چھڑتی ہے اس کو جنگ کہنا بھی ایک طرح کا مذاق ہے کیونکہ دونوں کے درمیان جنگی قوت کا کوئی تناسب ہی نہیں ہے۔ اسرائیل صرف مشرق وسطی میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے ان چند طاقت ور ملکوں کی فہرست میں شامل ہے جن کے پاس جدید ترین اسلحوں سے لیس بری و بحری اور فضائی فوج موجود ہے جس کو ہر وقت جنگ کی حالت میں رکھا جاتا ہے اور جو اپنی بے رحمی و بے مروتی میں دنیا کی تمام فوجوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ اس کے برعکس فلسطین کی مزاحتی تحریکوں کے پاس نہ صرف یہ کہ جدید اسلحے نہیں ہیں بلکہ ان پر ہزار قسم کی عالمی پابندیاں عائد رہتی ہیں۔ فلسطین کی مزاحمتی تحریکیں جن میں تحریک جہاد اسلامی اور حماس زیادہ ممتاز ہیں وہ جب راکٹ سے اسرائیل پر حملے کرتی ہیں تو بیشتر حملوں کو اسرائیل آہنی گنبد یا آئرن ڈوم جیسے دفاعی نظام سے روک کر فضا میں ہی تباہ کر دیتا ہے۔ جو دو چند راکٹ اسرائیل کے الگ الگ شہروں کو نشانہ بناتے ہیں ان سے صہیونی آبادی کو نسبتاً بہت کم نقصان پہنچتا ہے۔ البتہ فلسطینی مزاحمت کاروں اور صہیونی فوج کے درمیان جو بنیادی فرق ہے وہ نفسیات کا ہے۔ اسرائیل جس قدر طاقت ور ہوتا جاتا ہے اسی قدر اس کی انسانیت میں کمی آتی جاتی ہے اور مہلک ترین ہتھیاروں کو تیار کرنے والا اور مقبوضہ فلسطین پر قائم ہونے والا یہ ملک نفسیاتی طور پر مزید خوف زدہ اور کمزور ہوتا جاتا ہے۔ اسی نفسیاتی کمزوری اور خوف کے نتیجہ میں وہ فلسطینیوں پر ہر بار مظالم کے پہاڑ توڑتا ہے تاکہ کسی طرح فلسطینیوں کی مزاحمت اور نفسیاتی قوت کے اس سوتے کو خشک کیا جا سکے جس کی صلابت کے سامنے اسرائیلی فوج کی شدت پسندی ہر بار ناکام ہوئی ہے۔ 5 اگست 2022 یعنی جمعہ کے روز بھی اسرائیل نے فلسطین کے نہتے لیکن نفسیاتی بلندی سے لبریز قوم پر جو جنگ مسلط کی ہے اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل فوجی اور اقتصادی قوت حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن عالمی برادری کے درمیان ایک ذمہ دار اور انسانیت نواز ملک بننے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اول تو گزشتہ سولہ برسوں سے غزہ پر ہر طرف سے حصار قائم کر رکھا ہے اور وہاں کی زندگیوں کو اسرائیل پورے طور پر کنٹرول کرتا ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر نہ تو کوئی شخص یا سامان اندر جا سکتا ہے اور نہ ہی باہر آ سکتا ہے۔ جگہ بہ جگہ اسرائیلی چیک پوسٹ قائم ہیں جہاں سے گزرنا اور روز مرہ کے معمولی کام تک انجام دینا فلسطینیوں کے لئے ایک مشکل مہم سمجھا جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ تقریباً ہر روز اسرائیل کی بے رحم فوج اور پولیس کی چھاپہ ماری چلتی رہتی ہے جس میں فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ کیا جاتا ہے۔ ان کے گھروں اور زمینوں پر قبضہ کرکے ان میں اسرائیلی صہیونیوں کو آباد کیا جاتا ہے اور ظلم کی حد یہ ہوتی ہے کہ جن فلسطینیوں کے گھر مسمار کئے جاتے ہیں ان سے ہی مسماری کی قیمت بھی وصول کی جاتی ہے۔ جمعہ کو غزہ پر جو اسرائیلی حملہ ہوا ہے اس کو بھی اگر آپ غور سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اس جنگ کی ضرورت قطعاً نہیں تھی اور نہ ہی فلسطینی اس کے لئے تیار تھے، لیکن چونکہ نومبر کے مہینہ میں اسرائیل کے اندر پھر سے انتخابات منعقد ہونے والے ہیں لہٰذا فلسطینی خون اور ان کے مصائب و مشکلات سے لذت آشنا صہیونی قوم کی نظر میں جواز حاصل کرنے کیلئے اسرائیل نے جان بوجھ کر اور پوری پلاننگ کے ساتھ اس جنگ کا آغاز کر دیا۔ محصور فلسطین پر میزائلوں کی برسات کر دی اور یکلخت دس معصوموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن میں اسلامی جہاد کے ملٹری ونگ کے کمانڈر تیسیر الجبری سمیت 23 سالہ فلسطینی خاتون اور ایک 5سال کی معصوم بچی شامل تھی۔ اس وحشت ناک حملہ سے محض ایک ہفتہ قبل ہی اسرائیل نے فلسطینی مسلح جماعت کے سینئر ممبر بسام السعدی کو گرفتار کر لیا تھا۔ گرفتاری کے لئے ویسٹ بینک کے شہر جنین میں چھاپہ مارنے پہنچنے والی اسرائیلی فوج نے اپنی بربریت کا خوب مظاہرہ کیا تھا جس میں ایک کم سن نوجوان کی شہادت ہوگئی تھی۔ اس کے بعد جب الجبری کے قتل کا پلان تیار کیا تو اس سے قبل محاصرہ سے جوجھ رہے فلسطین کے اس ساحلی خطہ کو ہر طرف سے بند کر دیا گیا۔ جتنی سڑکیں غزہ کے گرد و پیش میں ہیں سب کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور اپنی فوج سرحد پر بھیج دی کیونکہ جیسا کہ میں نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے کہ نفسیاتی طور پر کمزور اسرائیلی قیادت کو یہ اندازہ تھا کہ السعدی کی گرفتاری پر فلسطینی خاموش نہیں رہیں گے اور احتجاج کریں گے۔
الجزیرہ نے تجزیہ نگاروں سے بات چیت کرکے اس جنگ کے پیچھے اسرائیل کا مقصد سمجھنے کی جو کوشش کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینیوں پر یہ غیر ضروری جنگ تھوپنے کی تیاری اسرائیل کی طرف سے مسلسل جاری تھی۔ کیونکہ السعدی کی گرفتاری سے قبل بھی غزہ پر ڈرون سے حملے کئے گئے تھے اور اسرائیل فوج، پولیس اور صہیونی آبادکاروں کے ذریعہ وقت بے وقت حملوں سے میدان تیار کیا جا رہا تھا جن میں فلسطینیوں کی گرفتاری اور ان کے گھروں کی انہدامی کارروائیاں شامل تھیں۔ رملہ میں رہنے والی ریسرچ اسکالر مریم برغوتی کے بقول اسرائیل نے فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کی جو نئی پالیسی تیار کی ہے اس میں یہ پہلو بطور خاص شامل ہے کہ ملٹری چین کمانڈ کو استعمال کرنے کے علاوہ صہیونی آبادکاروں کو مسلح کیا جائے۔ اسرائیل نے ان آبادکاروں کو کھلی چھوٹ دی ہے کہ وہ فلسطینیوں کو گولی مار کر ختم کر دیں۔ مریم برغوتی کے بقول نومبر میں ہونے والے انتخابات نے اسرائیلی قیادت کو صرف ایک اضافی بہانہ فراہم کر دیا ہے ورنہ فلسطینیوں پر صہیونی فوج اور آبادکاروں کا عذاب مسلسل جاری ہی تھا۔ تا دم تحریر فلسطین پر مسلط جنگ کے تین دن گزر چکے ہیں جس میں اب تک 29 قیمتی جانیں شہید ہوچکی ہیں جن میں کمانڈر خالد منصور کی شہادت بھی شامل ہے۔ زخمیوں کی بڑی تعداد ہسپتالوں میں موجود ہے لیکن اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور مزید بدتر ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ اسرائیل نے غزہ کی واحد بجلی پیدا کرنے والی یونٹ کے لئے ایندھن کی فراہمی کا راستہ مسدود کر دیا ہے جس کی وجہ سے ہسپتال کا نظام پورے طور پر دو چار دن میں معطل ہوجائے گا۔ یہ انسانی بحران اسرائیل نے جان بوجھ کر پیدا کیا ہے تاکہ الیکشن میں اس کا فائدہ اٹھایا جائے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہی ہو گیا تھا جب اسرائیلی وزیر اعظم یائیر لپید نے حملہ سے صرف ایک دن قبل جمعرات کو کہا تھا کہ ملک کے جنوب میں نارمل حالات بحال کرنے کی خاطر اسرائیل فورس استعمال کرنے میں ہچک محسوس نہیں کرے گا اور اسرائیل میں سرگرم عمل دہشت گردوں کی گرفتاری کی پالیسی نہیں رْکے گی۔ فلسطینی اتھارٹی گورنمنٹ کے سابق ترجمان نور عودہ بھی مانتے ہیں کہ حالیہ اسرائیلی جارحیت کا بنیادی مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ کیونکہ فلسطین کی تمام مزاحمتی تحریکیں مثلاً حماس اور جہاد اسلامی لگاتار انتھک کوششیں کر رہی تھیں کہ اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی کی نوبت نہ آئے اور امن کا ماحول قائم رہے، لیکن شاید امن کا قیام اسرائیل کا مقصد ہی نہیں ہے اور اسی لئے ملٹری بیک گراؤنڈ نہ رکھنے والا اسرائیلی وزیر یائیر لپید بھی جنگ میں کود پڑا۔ کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ فلسطینی خون کی پیاسی اسرائیلی عوام کو رجھانے اور ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے معصوم فلسطینیوں کے قتل سے بہتر کوئی متبادل نہیں ہے۔ یائیر لپید یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ ملٹری بیک گراؤنڈ کا آدمی نہ ہونے کے باوجود اپنی وحشت ناکی میں کسی اسرائیلی ملٹری کمانڈر سے کم نہیں ہے۔ جہاں تک عالمی برادری کے کردار کا مسئلہ ہے تو ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ کی حمایت میں اسرائیل پھلتا پھولتا رہا ہے اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی امریکی صدر جو بائڈن نے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ خود بائیڈن کو وسط مدتی الیکشن کا سامنا کرنا ہے جہاں یہودی لابی کی سخت ضرورت ہوگی اس لئے وہ بھلا اسرائیل پر دباؤ کیوں بنائیں گے؟۔ جہاں تک پڑوسی عرب ممالک کا تعلق ہے تو وہاں اس بات کی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون سب سے پہلے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرے گا۔ ایسے میں عرب دنیا سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ معروف فلسطینی تجزیہ نگار اور قائد مصطفی برغوثی کے بقول فلسطینیوں کو اپنی مدافعت کے لئے خود اپنے دست و بازو کو ہی مضبوط کرنے ہوں گے۔ ایسا وہ مسلسل کر بھی رہے ہیں، لیکن عالمی برادری اور خاص طور سے عرب ممالک کو یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا اسرائیلی بربریت کو نظر انداز کرنا ان کے حق میں ہے؟ کیا تاریخ انہیں معاف کرے گی؟ اور کیا برسوں سے محاصرہ اور مظالم کو سہنے والی فلسطینی قوم کو اس طرح بے یارو مددگار چھوڑ دینے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز موجود ہے؟ اگر جواز موجود نہیں ہے تو فوری طور پر اسرائیل پر دباؤ بناکر اسے جارحیت سے باز رکھے ورنہ اگر اسلامی جہاد کے ساتھ حماس بھی اس جنگ میں شامل ہوگیا تو اس کے نتائج سب کے لئے برے ثابت ہوں گے۔یہ عہد اتنی ساری جنگوں کا متحمل نہیں ہے۔ اس ظلم کو روکنا سب کی ذمہ داری ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں