آزادیٔ افکار پر تنگ نظری کا تازیانہ

0

شاہدزبیری
گزشتہ کچھ سالوں سے ہمارے وطنِ عزیز میں تنگ نظری،تعصب ، فرقہ واریت اور نفرت کی خار دار جھاڑیا ں اس تیزی سے اُگ رہی ہیں کہ جمہوریت کا پودا کمھلانے لگا ہے اور آزادیٔ افکار کے گل بوٹے مرجھائے جا رہے ہیں، آب وہوا ان کوراس نہیں آرہی ہے جس کے مضر اثرات ہماری دانش گاہوں پر بھی پڑنے لگے ہیں جہاں کی علمی ، فکری فضا ئیں بھی بدلی بد لی سی نظر آرہی ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو بھلاعلی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کی انتظامیہ اتنی بدحواس ہوتی اور ایک غیر معروف سماجی کارکن مدھو کشور اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھیجے گئے خط سے گھبراکر اور بڑی عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی سطح کے اسلامی مفکر وں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒاور سیّد قطب ؒکو اپنی اسلامک اسٹڈیز اور اسلامی تھیولو جی کے اختیاری مضامین کے نصاب سے باہر کا رستہ دکھاتی۔وزیر اعظم کو بھیجے گئے جس خط کا حوالہ اخبارات اور سوشل میڈیا میں گردش کررہا ہے وہ شکایتی خط صرف مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ کی بابت نہیں ہے بلکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہمدرد یو نیورسٹی کے متعلق بھی ہے لیکن تا دمِ تحریر دونوں یو نیورسٹیوں کی جانب سے کسی طرح کا زبانی یا عملی رد عمل ہمارے سامنے نہیں آیا ہے ۔یہ خط تو ہمارے سامنے نہیں لیکن اس کے جن مشمولات کا حوالہ سامنے آرہا ہے اس کے مطابق وزیر اعظم سے شکایت کی گئی ہے کہ ان تینوں اسلامی یونیورسٹیوں میں جن کو سرکاری گرانٹ بھی ملتی ہے ان کے کچھ شعبوں میں بڑی بے شرمی سے ’جہادی اسلامی نصاب‘ پڑھا یا جا رہا ہے جو انتہائی تشویش کی بات ہے ۔اس محولہ خط میں جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒاوراخوان المسلمین مصر کے قائد سیّد قطب ؒ کی دیگر باتوں پر بھی اعتراض اٹھا یا گیا ہے ۔ممکن ہے کہ اس خط کی نقل یو نیورسٹی گرانٹ کمیشن ( یو جی سی) کو بھی بھجی گئی ہو لیکن ہمارے علم کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی یا ان کی سرکار کی طرف سے نہ تو ابھی تک ان تینوں’ا سلامی یونیورسٹیوں ‘کو جو اسلامی نہیں اقلیتی یونیورسٹیاں ہیں ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی گئی یا سرزنش کی گئی یا اس کا کوئی عندیہ دیا گیا ۔یو جی سی کی طرف سے بھی کسی انتباہ کی اطلاع نہیں ہے لیکن حیرت ہے کہ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ نے اس خط کو اپنے لئے ایٹم بم سمجھا اور اس کی تبا کاریوں سے بچنے کیلئے حکومت وقت کی خوشامد اورچاپلوسی کے بنکر میں پناہ لے لی اور جی حضوری کی تمام حدیںپار کردیں۔
کہا جاتا ہے کہ جب کسی یونیورسٹی کے کسی شعبہ کے نصاب میں کچھ تبدیلی وقت کے تقاضوں کے تحت کی جا تی ہے تووہ شعبہ اس کی بابت یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کو مطلع کرتا ہے اکیڈمک کونسل اس پر کوئی فیصلہ لیتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا اس بابت جو متضاد توجیہات یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے سامنے آئی ہیں وہ گلے نہیں اترتیں، یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اختیاری مضامین کے نصاب میں تبدیلی وقت کی ضرورت کے تحت کی جاتی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ اکیڈمک کونسل کو مطلع کیاجا ئے ، دوسری جانب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس شکایتی خط کے بعد اخبارات اور سوشل میڈیا میں یہ مسئلہ جس طرح سے اچھا لا جا رہا ہے اس تنازع سے بچنے کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ فوری فیصلہ لینا پڑا ۔پہلی بات کو اگر لیں کہ آخر یہ فیصلہ وزیرِ اعظم سے کی گئی تحریری شکایت کے بعد ہی کیوں کیا گیا پہلے کیوں نہیں، اخبارات اور سوشل میڈیا میں اٹھنے والے تنازع کا جہاں تک سوال ہے تو کل کو اگر اسلامک اسٹڈیز اور اسلامک تھیو لو جی پر ہی سوال کھڑے کردئے گئے اور سوشل میڈیا اور اخبارات میں یہ تنازع اچھلا تو کیا یو نیورسٹی انتظامیہ اس شعبہ کو بند کر دے گی۔یہی نہیں اگر کچھ سر پھرے ہندوستانی اسکولوں کا لجوں اور یونیورسٹیوں کے اردونصاب میں شامل شاعرِ مشرق علّامہ اقبالؒپر ہی سوال کھڑے کردیں اور کہیں کہ اقبال نہ صرف پاکستان کے قومی شاعر ہیں بلکہ پاکستانی نظر یہ کے بانیان میں بھی تھے ان کو نصاب سے باہر کیا جا ئے تب بھی یو نیورسٹی انتظامیہ اسی طرح کی پہل کرے گی جس طرح سیّدمودودی اورسیّد قطب کے بارے میں کی ہے کیا وہ اقبال کو بھی شعبۂ اردو کے نصاب سے باہر کا راستہ دکھا ئے گی؟ یونیورسٹی انتظامیہ کے اس نا عاقبت اندیشانہ فیصلہ کے بعد الزام لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم کی نگا ہوں میں چڑھنے ، مناصب کے حصول اور مفادات کی خاطر یونیورسٹی انتظامیہ کے اربابِ اختیار نے تھیولوجی کے نصاب کو مودودی ؒاور سیّد قطب ؒکے ’جہادی نصاب‘سے پاک کر نے کیلئے یہ پہل کی اور اس معاملہ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہمدرد یونیورسٹی کے اربابِ اختیار پر سبقت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔
جہاں تک سیّد قطبؒ اور سیّد مودودی ؒاور ان کے اسلامی نظریات کا سوال ہے تو اختلاف سیّد قطبؒ سے بھی کیا جاتا رہا ہے اور جو لوگ سیّد مودودیؒ کی جماعتِ اسلامی اوراس کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جا نتے ہیں کہ سیّد مودودی نے غلام ہندوستان میں پٹھان کوٹ میں 1941جماعت کی بنیاد رکھی تھی بعد میں وہ پاکستان چلے گئے اور مسلمانوں کی طرح جماعتِ اسلامی بھی دو لخت ہو گئی ہندوستانی جماعت اسلامی کی قیادت مولا نا ابو الّیث ندوی ؒکے حصّہ میں آئی اور پاکستان کی قیادت مولانا مودودیؒ کے حصّہ میں، کشمیر کی جماعت اسلامی علیحدہ وجود میں آئی ۔جماعت کے قیام کے ابتدائی دور میںہی نامور علماء نے مولانا مودودیؒ کے بعض نظر یات سے اختلاف رکھتے ہوئے علیحدگی ختیار کر لی تھی ان میں مفکرِ اسلام مولا نا علی میاںندویؒ، مولانا منظور نعمانیؒ اور مو لا نا وحید الدّین خانؒ کا نام سرِ فہرست ہے مولانا وحید الدّین خانؒ نے تو مولانا مودود ی ؒکی اسلام کی سیاسی فکر سے اختلاف رکھتے ہوئے’ تعبیر کی غلطی ‘ کے نام سے کتاب تحریر کی اور مولانا علی میاں ؒ نے مولانا مودودیؒ کی کتاب’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘کے جواب میںکتاب تحریر کی ہے جو آج بھی دستیاب ہیں۔ علمی ،فکری اور عقلی بنیادوں پر اختلاف تو ہر دور میں پسندیدہ رہا ہے جو علم وفن اور فکرو فن کی ترقی کی بنیاد مانا جاتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو علمی اور فکری سوتے خشک ہو جائیں اور دنیا کا علمی تہذیبی سفر ختم ہوجائے ۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میںجن دانشوروں،مفکروں ،علماء اور مشاہیر کو پڑھا یا جاتا ہے وہ ان کے نظریات کی مکمل تائید یا تردید کیلئے نہیں ان کے کا م کے تنقیدی جائزہ کیلئے پڑھا یا جاتا ہے اور ان کی علمی اور فکری میراث کو آنے والی نسلوں تک منتقل کر نے کیلئے بھی ۔ کیا سرمایہ دارانہ ممالک میں کمیونزم کے بانی مارکس اور انجیلز نہیں پڑھا ئے جا تے جو دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے ہیں ؟جن تین مسلم اقلیتی یونیورسٹیوں کے اختیاری مضامین کے نصاب پر انگلی رکھتے ہو ئے ‘جہادی نصاب’کے پڑھا ئے جا نے کا الزام لگا یا گیا ہے وہ حقیقت میں آزادیٔ افکار پر تنگ نظری کا تازیانہ ہے جو ہندوستان جیسے جمہوریت کے بڑے دعویدار ملک کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے اس لئے کہ آزادئی افکار جمہوریت کی روح ہے اگر روح پر ہی تنگ نظری کے تازیا نے پڑیں گے تو جمہوریت بچے گی نہ آزادیٔ افکار بلکہ مستند ہوگا میرا فرمایاہوا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS