ماہ محرم کا تقدس پامال ہونے سے بچائیں

0

ذکی نور عظیم ندوی
محرم کا مہینہ ہجری سال کا پہلا اور ان حرمت و احترام والے مہینوں (اشہر حرم) میں ہے جن میں قرآن کریم کی سورہ توبہ کی آیت نمبر 36 میں واضح اسلوب میں آپسی ظلم و زیادتی سے خاص طور پر منع کیا گیا اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر217 میں ان مہینوں میں جنگ و جدال اور لڑائی جھگڑوں کو بہت بڑا جرم قرار دیا گیا اور فتنہ وفساد کو قتل و قتال سے بھی زیادہ سنگین اور خطرناک قرار دیا گیا۔ان حقائق کے مد نظر ان مہینوں میںمسلم معاشرہ کو ہر طرح کے اختلافات، لڑائی جھگڑے، فتنہ وفساد، غلط فہمیوں اور الزام تراشیوں سے بچتے ہوئے عام دنوں سے بھی زیادہ امن و سلامتی، پیار و محبت، اپنائیت اور اتفاق و اتحاد کے ساتھ زندگی گزارنے کا ماحول بنانا اور اسے پروان چڑھانا چاہئے۔اس پس منظر کو سامنے رکھ کر اپنے گرد و نواح کے حالات کے جائزہ کیلئے اپنے شہر لکھنؤکی مسلم آبادی پرانے لکھنؤ کی طرف جائیں تو یہ دیکھ کرسخت حیرت ہی نہیں بلکہ تشویش کی انتہا نہیں رہتی کہ چاروں طرف سلامتی کے ایسے انتظامات کہ دیکھ کر دہشت میں اضافہ ہو جائے اور یہ خیال یقین میں بدلنے لگے کہ شاید اس علاقہ میںشدید تنائو ہے اور حالات پر کنٹرول انتظامیہ کے لئے درد سر بن گیا ہے جس کا اندازہ کسی قدر اخبارات میں آنے والی میڈیا رپورٹوں سے کیا جاسکتا ہے ’’ محرم کے حوالے سے لکھنؤ میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں،اونچی عمارتوں پر سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے، جبکہ پرانے لکھنؤ میں ڈرون کے ذریعے نگرانی کی جائے گی،تقریباً 1800 پولیس اہلکاروں، بم ڈسپوزل اسکواڈ، فائر فائٹنگ گاڑیاں ،پی اے سی اور ریپڈ ایکشن فورس کو بھی تعینات کیا جائے گا،40 اے ڈی سی پی اور اے سی پی سطح کے افسران اور64 مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں۔ اے ڈی سی پی چرنجیو ناتھ سنہا کے مطابق ماحول خراب کرنے والے شرارتی عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے گی،سائبر کرائم سیل کو بھی الرٹ کر دیا گیا ہے،سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کے اشتعال انگیز پیغامات وائرل کرنے والوں پر بھی نظر رکھی جائے گی اوران کے خلاف سخت فوری کارروائی کی جائے گی‘‘ یعنی ایسے انتظامات جیسے حالات قابو سے باہر ہوگئے ہوں اور فساد پر آمادہ افرادکو قابو میں کرنے کا اس کے علاوہ کوئی طریقہ ممکن نہیں۔لکھنؤکے تعلق سے مذکورہ بالا تفصیلات کے بعد پورے صوبہ اترپردیش کے حوالہ سے مزید میڈیا رپورٹوں میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ ’’152کمپنی پی اے سی، 11 کمپنی مرکزی نیم فوجی دستے اور بڑی تعداد میں پولیس فورس دستیاب کرائی گئی ہے۔ خاص طور پر 12 ایڈیشن ایس پی، 34 ڈپٹی ایس پی، 40 انسپکٹر، 175 سب انسپکٹر، 10 خواتین سب انسپکٹر، 600 چیف کانسٹبل اور کانسٹبل اور 150 ٹرینی کانسٹبل لکھنؤ کمشنریٹ کو دستیاب کرائے گئے ہیں۔ جلوسوں کی سی سی ٹی وی اور ڈرون کیمروں سے بھی نگرانی کی جائے گی اور جلوس کے راستوں اور مقامات کی سیکورٹی کے لیے ایک ڈاگ اسکواڈ،اے ٹی ایس کے بم ڈسپوزل اسکواڈ کو سخت تفتیش اور تلاشی کیلئے متعین کرنے اورمشکوک گاڑیوں کی چیکنگ کا بھی حکم دیا گیا ہے‘‘۔ان تفصیلات کے علاوہ حیرت اور تشویش میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب اچانک پڑوسی ملک پاکستان کی گزشتہ سالوں کی کچھ رپورٹوں پر نظر پڑی’’ کہ آئی جی پنجاب نے محرم میں فول پروف انتظامات ، مرکزی جلوسوں کے روٹس پر کیمروں کی تنصیب، ڈرون کیمروں سے فضائی مانیٹرنگ اور لاہور میں سیف سٹی کیمروں سے مانیٹرنگ کا حکم دیا ہے، محرم کی مناسبت سے جلوسوں کی سکیورٹی کیلئے 176477 جبکہ مجالس سیکورٹی پر 194086 افسران واہلکار اور رضاکار ڈیوٹی سر انجام دیں گے‘‘یعنی صرف صوبہ پنجاب میں تقریباً پونے تین لاکھ سلامتی اہل کاروں کو متعین کیا گیا۔جبکہ پشاور کے تعلق سے یہ رپورٹ ملی کہ ’’وہاں موبائل فون سروس بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، سیکورٹی کیلئے پولیس سمیت دیگر سیکورٹی ادارے ریڈ الرٹ ہوگئے ہیں، سات ہزار سے زائد پولیس فورس کو سیکورٹی ذمہ داریاں دی گئیں ہیں نگرانی سی سی ٹی وی کیمروں سے ہوگی اور پولیس کی مدد کے لئے فوج کے دستے بھی الرٹ رہیں گے‘‘اور ملکی پیمانہ پر صورت حال کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے ’’ ممکنہ گڑبڑ کو روکنے کے لئے فضائی نگرانی بھی کی جائے گی، سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے مانیٹرنگ ہوگی ، کنٹرول روم بھی قائم کردیئے گئے۔ حساس علاقوں میں فوج بھی الرٹ ہے ،پولیس اور رینجرز کے ہزاروں اہلکار بھی اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں،بم ڈسپوزل اسکواڈ نے جلوس کے راستوں کی سرچنگ کرلی ہے‘‘۔اپنے شہر اورصوبہ ہی نہیں بلکہ پڑوسی ملک سے ایسی تشوشناک صورت حال اور اس کو کنٹرول کرنے کے لئے جنگی پیمانہ پر کئے گئے ایسے وسیع انتظامات، جبکہ مذکورہ بالا اسلامی تعلیمات کے مطابق محرم کو تو خاص طور پرظلم و زیادتی سے پاک ، امن و سکون ، پیار و محبت، عدل وانصاف اور اتفاق و اتحاد کا گہوارہ ہونا چاہئے اور ایسے انتظامات کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔جہاںتک اس کی 10 تاریخ کا معاملہ ہے تو یہ دو اہم واقعات کی وجہ سے شہرت و اہمیت رکھتی ہے (1)حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی فرعون اور اس کے ظلم و زیادتی سے نجات، جس کی وجہ سے یہود اس دن روزہ رکھتے تھے اور جب نبی اکرم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے حضرت موسی سے تعلق کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی اس دن کے ساتھ مزید ایک دن روزہ رکھنے کا حکم دیا (2) نواسہ رسولؐ اور جنت میں نوجوانوں کے سردار حضرت حسینؓ کی نہایت ہی تکلیف دہ وافسوسناک شہادت نبی اکرمؐ کی رحلت اور قرآن کی تکمیل کے تقریباً 50 سال بعدسن 61ھ میں پیش آئی۔
نبی اکرمؐ کی رحلت اور قرآن کی تکمیل کے بعد کے واقعات کی وجہ سے(خواہ اس کی تاریخی حیثیت کتنی ہی اہم و عظیم ہو) ہمیں دینی اعتبار سے اسے کوئی ایسا رخ نہیں دینا چاہئے کہ اس سے دو اسلام کا تصور پیدا ہونے لگے ا س وجہ سے یہ واقعہ بہت افسوسناک اور تکلیف دہ ہونے کے باوجود صبر و تحمل اوربرداشت کا متقاضی ہے۔اس موقع پر ہمیں سورہ طہ کی آیت نمبر 51 کی روشنی میں جب فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام سے سوال کیاکہ پچھلی صدیوں کے لوگوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اور حضرت موسی علیہ السلام کا سورہ طہ کی آیت نمبر 52 میں دیا گیا جواب کہ اس کی معلومات اللہ کے پاس تحریری شکل میں ہے جس سے بھول چوک نہیں ہوتی۔حضرت حسینؓ کے واقعہ میں بھی ہماری بہترین رہنمائی کرتی ہے کہ سابقہ زمانے کے واقعات اللہ کی کتاب میں محفوظ ہیں جس کے بارے میں اللہ بہتر فیصلہ فرمائے گا ہمیں اس میں الجھنے اورآپسی انتشار واختلاف بڑھانے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ شاید موجودہ حیرت انگیز اور تشویشناک صورت حال جو امت مسلمہ میں اختلاف وانتشار کی بڑی وجہ اور ایک بدنما داغ اور شرمندگی کا سبب ہے اس میں کچھ بہتری آئے۔ اور اس جانب بھی توجہ ضروری ہے کہ محرم میں دس پندرہ دنوں تک ہونے والے پروگراموں میں یوم عاشورا کی اصل مشروعیت، اس میں روزہ، حضرت موسی کی نجات ، فرعون کی ہلاکت اور عصر حاضر میں اس کے مثبت نتائج کے تذکرہ کے ساتھ اسلام کی مثبت اور متفقہ تعلیمات کو پیش کیا جائے اور اس کومسلکی بنیادوں پر نفرت و عداوت کی تجدید کے دن کے طور پر نہ پیش کیا جائے۔ اہل بیتؓ ،صحابہ کرامؓ، ان کی تعلیمات اور ان کی محبت کے نام اور بنیاد پر یوم عاشورا اور محرم کو انتشار و اختلاف اور نفرت و عداوت کی تجدید کا سالانہ موقع بنا لینا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا ؟
[email protected]
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS