نیتی آیوگ کی گورننگ کونسل کا اجلاس

0

محمد فاروق اعظمی

ملک کے پالیسی ساز اداروں کی میٹنگ کا حال بھی آج کل سیاسی اسٹیج جیسا ہی ہو گیا ہے ۔ طویل اور مختصر مدتی منصوبوں کی تشکیل، ان پر عمل درآمدا ور عوام کو ان سے ہونے والے فائدے اور نقصان کا جائزہ لینے کے بجائے خوش کن تقریر، بلند بانگ دعوے، غیر عملی ایجنڈے کی بازگشت اوران سب کے گرد گھومتی ہوئی سیاسی مقصد برآری ہی ایسی میٹنگوں کا حاصل ہوگیا ہے ۔ نیتی آیوگ کی گورننگ کونسل کا اجلاس کل وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں پایۂ تکمیل کو پہنچا ہے۔ اس اجلاس میں وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر دفاع، وزیرخارجہ اور کم و بیش تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ موجود تھے۔ دوران اجلاس وشو گرواور عالمی لیڈربننے کی دیرینہ آرزؤوں کا اظہار ہی ہوتارہالیکن ان آرزوئوں کی تکمیل کیلئے مطلوب کوئی حتمی اور ٹھوس بات نکل کرسامنے نہیں آئی اور نہ کوئی منصوبہ عمل ہی پیش کیاگیا۔ ہاں ٹپ کے بند کے طور پر5کھرب امریکی ڈالر کی معیشت کا با ر بار ذکرضرور کیا گیا ۔
اجلاس کے شہ نشیں وزیراعظم نریندر مودی کی تقریر جہاں خودستائشی کے محور پر گردش کررہی تھی، وہیں دوسرے وزرابھی چائے سے زیادہ کیتلی کے گرم ہونے کی عملی تفسیر بنے ہوئے تھے۔ وزیراعظم نے زراعت، مویشی پروری، خوردنی تیل کی پیداوار اور فوڈپروسیسنگ کے شعبہ کو جدید بنانے کی وکالت ضرورکی لیکن شرکائے اجلاس کو اس کیلئے کوئی منصوبہ عمل نہیں دے پائے ۔ تجارت، سیاحت اور ٹیکنالوجی کے فروغ پر بھی صرف زبانی جمع خرچ پر ہی زور دیاگیا ۔غذائی اجناس کی فراہمی کیلئے فصلوں کے تنوع اور دالوں، تیل کے بیجوں اور دیگر زرعی اجناس میں خود انحصاری کے حصول جیسے معاملات پر بھی باتیں ہی باتیں ہوئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان میں غذائی اجناس کا اتنا ذخیرہ ہے کہ وہ مدتوں پوری دنیا کو کھلا سکتا ہے ۔
لیکن حقیقی صورتحال اجلاس میں پیش کیے گئے دعوئوں کے بالکل برعکس ہے ۔تجارت و معیشت کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جسے فخر کے ساتھ پوری دنیا کے سامنے پیش کیاجاسکے ۔ غذائی ذخائر کی صورتحال بھی کم و بیش وہی ہے۔ فصلوں کے تنوع اور غذائی اجناس کے ذخائر کی حالت بھی کھلا راز ہی ہے ۔گلوبل ہنگر انڈیکس 2021میں ہندوستان کی پوزیشن 101رہی ہے ۔ اس سے قبل سال2020میں یہ پوزیشن94تھی یعنی بھوک کے معاملے میں ہندوستان بڑی تیزی سے زوال کی طرف آیا ہے اور اس حد تک آپہنچا ہے کہ ہم سایہ ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال بھی اس سے آگے ہیں۔ آج بھی ملک کے35 لا کھ بچے غذائی عدم تحفظ کے شکار ہیںاوراس کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔اس وقت ہندوستان کی ایک چوتھائی آبادی غربت کا شکار ہے۔ ایسے میں معاشی تنگی کی وجہ سے وہ غذائیت سے بھرپور خوراک خریدنے سے قاصر ہے اور غذائی قلت کا شکار ہے۔ زرعی پالیسی میں آئے دن ہونے والی تبدیلی اور اسے سرمایہ دوست بنانے کی وجہ سے اناج کاشت کرنے والے کسانوں کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ کم از کم امدادی قیمت کی پالیسی پر عمل درآمد نہ ہونا بھی غذائی قلت کا سبب بنا ہوا ہے۔کاروبار اور تجارت میں آسانی کے نا م پر غذائی اجناس پر سبسڈی کم کرتے کرتے بالکل ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے غذائی بحران میں اضافہ ہی ہوگا۔ آج کووڈ19- کے دوران ہندوستان کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے، ان میں خوراک کا چیلنج سب سے نمایاں ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ ایسے چیلنجز ہیں جن سے جنگی بنیادوں پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔ وشو گرو اور عالمی لیڈر تو دور کی بات ہے کہ اگر ہندوستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنا ہے تو اسے اپنے غذائی تحفظ کوہرحال میں یقینی بنانا ہوگا۔
لیکن نیتی آیوگ کے اس گورننگ کونسل کے اجلاس میںان امور پر غور کرنے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ 2015میں جب پلاننگ کمیشن کو ختم کرتے ہوئے نیتی آیوگ کی داغ بیل ڈالی گئی تھی تو بلند بانگ دعوے کے ساتھ کہاگیا کہ کوآپریٹو فیڈرلزم کے تحت کم ازکم حکومتی ایپروچ کو کم کرکے ترقیات کی نئی گنگا بہائی جائے گی اور ملک کی ’کایا پلٹ‘ ہوجائے گی ۔ لیکن اپنے قیام کے سات برسوں کے بعد بھی نیتی آیوگ عوامی ترقی اور تعمیر کے بجائے سرمایہ دارانہ نظام کے ایک ایجنٹ کے طور پر ہی کام کررہا ہے۔اس کی پالیسی کا مرکز و محور سرمایہ کو تحفظ فراہم کرنا اور اسے ضرب در ضرب دینا ہی ہے۔ حالانکہ سوشلسٹ حکمرانی کے بنیادی ڈھانچہ کے طور پر پلاننگ کمیشن ملک کی تعمیر و ترقی کا ایک جزء لاینفک تھا۔دہائیوں پنچ سالہ اور ایک سالہ منصوبے بناکر ترقیاتی اور تعمیراتی کام کیے گئے۔آج ملک میں نظرآنے والے انفرااسٹرکچر اور بنیادی ڈھانچے اسی پلاننگ کمیشن کی دین ہیں۔لیکن ’وشو گرو ‘ بننے کی غیر عملی خواہش اتنی طاقتور ہوگئی کہ اس نے 65سالہ پلاننگ کمیشن کی ضرورت سے ہی انکار کردیا اورازکار رفتہ بتاتے ہوئے اسے ختم کر دیاگیا۔ اب نیتی آیوگ تین سالہ منصوبہ بناتا ہے اور سالانہ رپورٹ پیش کرتا ہے لیکن ملک کی جس ’کایاپلٹ‘ کیلئے اس کا آغاز کیاگیاتھا، اس کا اب بھی ملک کو انتظار ہے۔کوآپریٹو فیڈرلزم یعنی وفاق کی اکائیوں میں تعاون کا جذبہ بھی کہیں کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا ہے۔ سات برسوں سے اس کے اجلاس کی کارروائی اور رپورٹ دیکھ کرا یسا لگتا ہے کہ مالیاتی خودمختاری سے محروم یہ پالیسی ساز ادارہ چند مخصوص مفاد کی تکمیل کا ہی ذریعہ بنا ہواہے۔اس کی گورننگ کونسل کا حالیہ اجلاس بھی ان ہی مفادات کے گرد گھومتا رہاہے۔ اگر ہندوستان کی ترقی اور ’کایاپلٹ‘ جس کا بار بار دعویٰ کیاجارہاہے مطلوب ہے تو اس ادارہ کو آئینی درجہ دیتے ہوئے اسے نہ صرف مالیاتی خودمختاری فراہم کی جانی چاہیے بلکہ بین ریاستی کونسل کے ساتھ تال میل بھی بٹھانا ضروری ہے ورنہ یہ ادارہ پلاننگ کمیشن کا نعم البدل ثابت ہونے کے بجائے حکومت کی سیاسی بازیگری کا ہی اسٹیج بن کر رہ جائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS