دنیا کو اب کسی ناٹو کی نہیں،اتحاد برائے بقائے باہم کی ضرورت

0

عبدالسلام عاصم

وقت آگیا ہے کہ اب اقوام عالم کے ذمہ داران اپنے محدود مفادات کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف اتحادی اور محوری نوعیت کے فوجی اور اقتصادی بلاک، پیکٹ، الائنس قائم کرنے کے بجائے محبت، یگانگت اور بقائے باہم کے جذبے سے امداد باہمی کے رُخ پر ایک ایسا اتحاد قائم کریں جس سے فطرت کے اُن تقاضوں کی تکمیل ہو جنہیں سمجھنے کا ہر قدم صرف علم کی راہ میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر ایسا ہر اتحاد غیر انسانی صف بندیاں ہی سامنے لائے گا جس کا ہم قبائل کے زمانے سے سامنا کرتے آرہے ہیں اور آئندہ بھی کم از کم اُس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک یہ کہنے کی ضرورت تصور کی حد میں رہے گی کہ: جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ۔
معلوم تاریخ میں عالمی اور علاقائی سطح پرمختلف اقوام اب تک جتنے معاہدات سے گزری ہیں، اُن میں سب سے پرانے اتحاد اینگلو پرتگالی الائنس سے مشرق وسطیٰ میں شمالی اوقیانوسی معاہداتی تنظیم (ناٹو) کی طرز پر زیرِ تذکرہ ممکنہ عرب فوجی اتحاد تک کہیں کوئی ایسی گنجائش نظر نہیں آتی جن میں محدود اندیشوں پر لا محدود امکانات کو ترجیح دی گئی ہو۔ وارسا پیکٹ نہ تو سابق سوویت یونین کو متحد رکھ سکا اور نہ ناٹو سے قربت یوکرین کو میدان جنگ میں تبدیل ہونے سے بچا سکی۔ ماضی قریب میں ناوابستہ ممالک نے عدم ناوابستگی کی جو نظیریں پیش کیں وہ بھی اہل ِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔
ایسے میںعرب ناٹوکے قیام کے امکانات کے حوالے سے جتنی تیزی سے افواہیں گردش کر رہی ہیں، اتنی ہی سُرعت کے ساتھ اُسے ضرورت گرداننے یا مسترد کرنے کا اخباری کاروبار بھی شباب پر ہے۔ عرب ناٹو اتحاد میں چونکہ اسرائیل کو بھی شامل بتایا بلکہ دکھایا جارہا ہے اس لیے ایران اور اُس کی علاقائی ضرورت کو اپنے لیے اہم سمجھنے والے حلقے کی سرگرمیوں کو بھی بے چینی کی شکل دے کر مجلسی موضوعات فروشی اِن دنوں انتہا پر ہے۔ اخباری دستاویزات کے مطابق گزشتہ ایک صدی میں مشرقِ وسطیٰ میں حالات سے اوبنے اور فکری کروٹوں کی وجہ سے کئی انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا، یوروپ کا تسلط قائم ہوا، اسرائیل کا قیام عمل میں آیا جس نے فوری ردّ عمل کے طور پر جنگوں کو دعوت دیدی۔ عرب قوم پرستی اور سوشل ازم کے تجربات بھی کم نہیں کیے گئے۔ اسرائیل اور فلسطین میں امن کا خواب جس امریکی ثالثی میںدیکھا گیا، اس کے انجام اور انقلابِ ایران سے عربوں میں پیدا ہونے والے تاثر کے پس منظر میں بہارِ عرب اور داعش کے سامنے آنے سے برپا ہونے والی تباہی وبربادی اور ایران کے ساتھ مغرب کے اتحادی عربوں کی صلح کی ناکام کوششوں سے ہم سبھی کسی نہ کسی حد تک آگاہ ہیں۔
تازہ منظر نامے میں مشرق وسطیٰ میںجغرافیائی اور سیاسی الائنس کی تین شکلیں نظر آتی ہیں۔ ایک تصویر میں ترکی اور اس کے اخوان رُخی اتحادی نظر آتے ہیں۔ دوسری تصویرایران اور اس کے اتحادیوں کی ہے اور تیسرا سب سے تازہ تذکرے والا اتحاد عرب /اسرائیل الائنس ہے۔ اس اتحاد کے شرکا اول الذکر دونوں اتحادی حلقوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ایسے میں عرب ناٹو کا ابھرتا ہوا منظر نامہ اتنا دھندلا نہیں کہ اردن کے شاہ عبداللہ کی طرف سے ایسے کسی فوجی اتحاد کی تائیدیا مصری وزیر خارجہ کا اس سے عدم اتفاق کی کہانی یہ لکھ کر ختم کردی جائے کہ فلسطینی مقتدرات کی جانب سے پہلے ہی ایسے کسی بھی اتحاد کو مستردکیا جا چکا ہے جس میں اسرائیل شامل ہو۔
ایسے میں دیکھا جائے توسعودی شہر نیوم میں اسرائیل اور اعلیٰ سعودی قیادت کے مذاکرات کا تعلق خطے میں امریکی اتحادیوں کی نئی صف بندی سے ہی تھا۔ یہ خبر بظاہرشعوری طور پر عام کی گئی تھی جس کے لیے عجب نہیں کہ سعودی رضامندی حاصل کی گئی ہو! ورنہ خبر افشا ہونے پر سعودی اعتراض کیوں سامنے نہیں آیا!! اب آئیے دیکھتے ہیں واقعات کی اس ترتیب میں فلسطینی کاز کہاں اور کس حال میں ہے۔ فلسطینی کاز کے تئیں سرد مہری اور فلسطینی قیادتوں سے حسبِ تقاضہ معاملات کی عرب ملکوں کی سیاسی روش سے سبھی باخبر ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے چند سال قبل مبینہ طور پریہ کہہ دیا تھا کہ فلسطینیوں کو شکایات چھوڑ کر امن کو قبول کرنا چاہیے۔ ان کے اس تبصرے پر فلسطینیوں کی طرف سے احتجاج کیا گیا تھا۔ بعد ازاں سعودی شاہ سلمان نے فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات میں فلسطین کی حمایت کی تصدیق کرنے کی کوشش کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ سلمان اور محمد بن سلمان کے درمیان تب سے ہی اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایک اور سعودی شہزادے بندر بن سلطان السعود نے 2020 میں العربیہ کو ایک انٹرویو کے دوران فلسطینی قیادت پر اس کی ناکامیوں کیلئے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینی کاز ایک منصفانہ کاز ضرورہے لیکن اس کی وکالت کرنے والے ناکام ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی کاز غیر منصفانہ ہے لیکن اس کے وکلا کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔
ویسے بھی قوموں اورخطوں کے مشترکہ کاز کے نام پر محدود مفادات کی تکمیل کا کھیل ہی فی زمانہ اصل سیاست رہی ہے اور یہی شعبدہ نہ صرف پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کا سبب بنا تھا بلکہ سرد جنگ کے زمانے سے تہذیبوں کے تصادم کے موجودہ عہد تک بھی یہی موقع پرستانہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے زمانے میں بعض عرب ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے ابراہیمی معاہدات کی کوشش میں بظاہر ابتدائی کامیابی اور موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے قریب الوقوع دورے کے موقع پر ’’ عرب ناٹو‘‘ کے قیام کے امکان کی گنجائشوں کا جائزہ لینا کوئی ایسی کہانی نہیں جس کا پلاٹ پہلے سے تیار نہ کیا گیا ہو۔ فلسطین، اسرائیل اور ایران کے نام پر متذکرہ خطے میں عربوں کی سیاست نے امریکہ کو جس طرح الجھا کر رکھا تھا۔ سرد جنگ کے بعد کے بدلتے عالمی تقاضوں سے متاثرعالمی سیاست اوراُس کی وجہ سے بدلے ہوئے اقتصادیات کو متاثر کرنے والے حالات میں افغانستان سے نجات کے بعد امریکہ اب مشرق وسطیٰ کا بوجھ بھی اپنے کندھے سے اتارنا چاہتا ہے۔ افغانستان سے انخلا کا تجربہ نئے محاذ پر امریکہ کو کن پیش بندیوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی تحریک دیتا ہے، یہ وقت بتائے گا۔
فوجی، نیم فوجی اور اقتصادی معاہدات کے اس منظرنامے میں اب تک جن عناصر، حلقوں اور طاقتوں نے رنگ بھرا ہے بظاہر وہ لوگ ایک عالمی انسانی سماج کے حق میںکتنے ہی عقلیت پسند کیوں نہ ہوں، بباطن وہ مسلسل اپنے عزائم کے غلام چلے آرہے ہیں۔ دوسروں کو روشن خیالی کا سبق پڑھانے اور اپنے یہاں مہاجروں کو پناہ دینے والوں نے بھی کبھی کسی فتح کی ایسی داستان نہیں لکھی جس میں نفرت اور انتقام کے نام پر بہنے والے خون کے بجائے افہام و تفہیم کے رُخ پر اذہان کو روشن کرنے والی روشنائی استعما ل کی گئی ہو۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ بڑی طاقتیں کن وجوہات کی بنا پر چھوٹے اور فوجی اعتبار سے کمزور ممالک کے ساتھ فوجی اتحاد قائم کرتی ہیں۔ اس کا دوٹوک جواب اب تک یہی چلا آ رہا ہے کہ اس طرح وہ نام نہاد ترقی پذیر ملکوں کے اہم وسائل تک رسائی اور اپنی سرحدوں کو محفوظ کر کے ہر دوسرے کی سرزمین کو تیسرے کے خلاف استعمال کرنے کی سہولت چاہتی ہیں۔
یہ سلسلہ دہائیوں پر نہیں صدیوں پر محیط ہے۔ چونکہ زندگی مسلسل ارتقا کے سفر میں ہے، اس لیے ہر عہد کا اندازہ نئے عہد کو سمجھنے میں معاون ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم موجودہ عہد پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم انسانی تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پر ہیں، جو وسیع پیمانے پر متضاد مستقبل کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے میں حالات سے باشعور طور پر بیزار حلقوں کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ فرار پسندی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے رابطوں کے ذریعہ ایک ایسے اتحاد کے رُخ پرحکومتی اور نظریاتی فیصلہ سازوں کی حوصلہ افزائی کریں جو کسی امکانی خطرے یا بظاہردشمن کے خلاف نہ ہو بلکہ بقائے باہم کو فروغ دینے کیلئے ہو۔ اس سمت میں طویل مدتی سوچ کے ساتھ عین مطابق منصوبہ بندی کی جائے تاکہ تمام تر اندیشوں کے باوجود موجودہ اور نئی نسل کے حق میںمنفی مستقبل سامنے نہ آئے اور اُن کیلئے مثبت رُخ پر آگے بڑھنے کے بہتر مواقع پیدا ہوں۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS